Abdul Hanan Raja.Column

رہبروں کے تیور اور ہم

عبد الحنان راجہ

معروف حکیم جالینوس نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو عوام میں دانا تصور کیا جاتا تھا مگر وہ ایک جاہل کے ساتھ الجھ رہا تھا۔ جالینوس نے کہا کہ اگر وہ دانا ہوتا تو جاہل سے کبھی نہ الجھتا۔ سو آج کے دانا بھی کچھ اسی طرح کے کہ لہو گرم رکھنے کے لیے بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مگر قدرت کا اپنا الگ قانون ہے اور وہ آئین پاکستان اور نہ حکمرانوں کے بنائے نظام کی طرح کام کرتا ہے۔ قدرت کی طرف سے ہر شخص کو زندگی میں اصلاح کے مواقع اور متعدد بار وارننگ کے اشارے ملتے ہیں اگر وہ ان الوہی اشاروں کو سمجھ کر سنبھل جائے تو آنے والی آفات سے بچ جاتا ہے وگرنہ انجام مقدر۔ ہر کامیاب فرد قدرت کے ان اشاروں کو سمجھ کر ہی شاد کام ہوا وگرنہ ناکام تو لاتعداد۔ ماہرین سماجیات ہوں، حکما ہوں یا فطرت کے قوانین، سب میں ناکامیوں کی وجہ کبھی بھی کٹھن منزل نہیں رہی، بلکہ انسان زیادہ تر اپنی جبلت کے ہاتھوں ہی ہارتا ہے۔ لب و لہجہ کی تلخی اس کی زندگی میں کئی مسائل اور آفات لاتی ہے۔ زبان کہ جسے قدرت نے نوکیلے دانتوں کے ذریعے قابو کرنے کا سامان کر رکھا ہے مگر یہ پھر بھی بے قابو۔ حدیث مبارکہ میں بھی اس کو قابو میں رکھنے والوں کے لیے فلاح اور مقامات کا ذکر ہے۔ امام غزالی نے زبان کی کئی آفات بیان کی ہیں جن میں بے فائدہ کلام، بحث و مباحثہ، بد زبانی، لڑائی جھگڑا، جھوٹ بولنا وغیرہ شامل ہیں اور اگر ہم ان کو اپنے اور معاشرے پر محمول کریں تو ہمارا ضمیر اگر مکمل حالت استراحت میں نہیں تو شرمندہ ضرور ہوتا ہو گا۔ یہ عمومی مگر کچھ طبقات ایسے ہیں جو اس حد سے نکل چکے انہیں ضمیر کی بے چینی ستاتی ہے اور نہ اسکی خلش کہ وہ اپنی دھن کے پکے۔ جھوٹ بولنا تو رہا ایک طرف اس سے بھی آگے اس پر ڈٹ جانے کی نئی روش چل نکلی۔ سیاسی قائدین ہوں یا صحافت کی تیسری قسم کے متعلقین اکثریت سے بھی زیادہ اس پہ فائز۔ اور انہی کے بہکاوے میں آ کر سادہ لوح کارکنان اپنی لائن بدل لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گرین سے ریڈ لائن تک کا سفر مختصر ثابت ہوا۔ ریڈ لائن کی گردان والوں نے ہی سب سے پہلے صرف لائن ہی نہیں قبلہ بھی تبدیل کر لیا۔ ماضی میں متعدد سیاسی قائدین کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے کہ ذرا کٹھن وقت کیا آیا کہ صفیں دوستاں ہی تتر بتر ہو گئیں، مگر اب کی بار رہبروں نے بھی تیور بدل لیے۔ چند روز قبل ہی ماضی قریب کی سب سے مقبول جماعت ( شاید اب بھی ہو) کے قائد نے غیر ملکی ادارے کو اپنے انٹرویو میں 9مئی کے واقعات کا سارا ملبہ دوسرے درجہ کی پارٹی قیادت اور کارکنان پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیا۔ ظاہر ہے یہ بات کارکنان کے دلوں پر یہ بجلی بن کے ہی گری ہو گی کہ مرے تھے جن کے لیے انہوں نے وضو کر کے نیت باندھ لی۔ وہ قائدین کہ جنہوں نے ساڑھے تین سال سے زائد اقتدار کے مزے لیے وہ تو تائب ہوئے پھرتے ہیں جبکہ کئی ایسے بھی تیار، کہ جان کے انگلیاں دانتوں میں دبی رہ جائیں۔ چکی کی مشقت حصہ میں آئی تو بے چارے غریب کے۔ کارکنان اور عام شہری فرط محبت میں اپنا آپ بھی گنوا بیٹھے۔ ہزاروں ایسے کہ جن کو وکلا اور گارنٹر تو کیا دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں۔ سیکڑوں کے والدین کی جانب سے معافی نامے جمع کرائے جا رہے ہیں مگر فوری طور پر ریلیف ملتا نظر نہیں آتا کہ اب کی بار شکنجہ سخت۔ گرفتار شدگان کو اخلاقی و قانونی سہارا بھی میسر نہیں اور انکے خاندان کس کرب سے گزر رہے ہیں اس کا صرف اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ سادہ لوح، جذباتی اور بے گناہ نوجوانوں کے ساتھ قانون اور ریاست کو مشفقانہ رویہ اور انہیں اصلاح کا موقع فراہم جبکہ اصل مجرموں کو قانونی کے شکنجے میں کسنا چاہیے۔ وفاداریاں بدل کے گناہوں کی معافی کی روش درست نہیں۔ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ نسل نو کی اخلاقی و فکری تربیت کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ میثاق جمہوریت اگر ممکن ہے تو میثاق اخلاقیات اور میثاق معیشت ممکن کیوں نہیں۔ تیزی سے فروغ پاتی مذہبی و سیاسی انتہا پسندی اور نفرت ملک و قوم اور معاشرے کے لیے زہر قاتل اور اس کے لیے نصاب تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے کہ اس کے ذریعے قوم کی ذہن و کردار سازی کر کے انہیں اپنے جذبات پر قابو پانے کی تربیت دی جا سکے۔ متوازن اور اعتدال پر مبنی شخصیت ہی معاشرے کی ترقی اور استحکام کی ضمانت ہے. تربیت اگر نہ ہو تو اچھے بھلے نطریات متشددانہ راہ پہ چل نکلتے ہیں۔ یقین جانیئے کہ اگر ہماری ریڈ لائن ہمارا وطن اور ہمارا اخلاق ہوتا تو تنزل ہمارا مقدر نہ بنتا۔ حالات کا عکاس احمد فراز کا یہ کلام قارئین کی نذر:
کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا نہیں معلوم
ہاتھ اٹھا لیے سب نے مگر دعا نہیں معلوم
موسموں کے چہروں سے زردیاں نہیں جاتیں
پھول کیوں نہیں لگتے خوشنما نہیں معلوم
رہبروں کے تیور بھی رہزنوں سے لگتے ہیں
کب کہاں پہ لٹ جائے قافلہ نہیں معلوم
آج سب کو دعویٰ ہے اپنی اپنی چاہت کا
کون کس سے ہوتا ہے کب جدا نہیں معلوم
منزلوں کی تبدیلی بس نظر میں رہتی ہے
ہم بھی ہوتے جاتے ہیں کیا سے کیا نہیں معلوم
ہم فراز شعروں سے دل کا زخم بھرتے ہیں
کیا کریں مسیحا کو جب دوا نہیں معلوم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button