Column

پاک فوج زندہ باد پاکستان پائندہ باد

پاک فوج زندہ باد پاکستان پائندہ باد

ندیم اختر ندیم
ایک صاحب پرائیویٹ سکول کے ٹیچر ہیں، خود کو وہ ایک مضمون کے ماہر بتاتے ہیں، لیکن جب کسی طالب علم کے والدین سے بات کرتے ہیں تو فرماتے ہیں انگریزی میں بہت اچھی پڑھا لیتا ہوں، اردو میں میرا کوئی ثانی نہیں، میتھ تو میں کمال پڑھاتا ہوں، کمیسٹری تو میرا پسندیدہ مضمون ہے، فزکس میری جیسی کوئی پڑھا کر تو بتائے، دیگر مضامین کے بارے بھی انکی رائے شاندار ہے اور قابل ذکر امر یہ ہے کہ وہ تمام مضامین میں مہارت تامہ رکھنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اپنے جس مضمون کے وہ خود کو ماہر بتاتے ہیں جسے پڑھاتے انہیں کئی سال گزرے اسی مضمون میں ان کے طالب علم فیل ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے ایک سینئر وکیل صاحب ہیں، قانون کی پریکٹس کرتے انہیں اک عمر ہوئی، ان کی نظر جس چیز پر پڑتی ہے تو فرماتے ہیں یہ کام میں بہت اچھا کر سکتا ہوں، کسی عمارت کو تعمیر ہوتا دیکھیں تو ساتھ والے سے کہیں گے اس عمارت کو ایسا نہیں بلکہ ایسا ہونا چاہئے تھا، اگر میں اس کی ڈیزائننگ کرتا تو یوں کرتا، کسانوں کو کھیتوں میں کام کرتا دیکھتے فرمائیں گے یہ جاہل مطلق ہے، بھلا اس کھیت میں اس فصل کا کیا کام، اس میں اگر فلاں فصل ہو تو کمال کی ہو، ایسی ہی رائے ان کی ہر معاملہ میں ہوتی ہے۔ میں نے کہا ہے حضور مجھے خدشہ ہے وکیل صاحب کسی رکشہ والے کو دیکھ کر یہ نہ کہہ دیں میں رکشہ بہت اچھا چلاتا ہوں، کسی فروٹ والے کو دیکھ کر یہ نہ کہہ دیں میں فروٹ بہت اچھا بیچ سکتا ہوں۔ ایسے ہی ہمارے معاشرے میں پھیلے جعلی لوگ خود کو ہر فن مولا سے تعبیر کرتے دکھائی دیتے ہیں، جیسے ہمارے بعض سیاستدانوں کو زعم ہے کہ وہ ملک بہت اچھے سے چلا سکتے ہیں اور ہر شعبہ میں مہارت رکھتے ہیں اور اگر انکی حکومت آگئی تو وہ ہر شعبہ میں انقلابی اقدامات اٹھائیں گے اور وہی ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ عوام کو خوشحال کر سکتے ہیں حالانکہ تقدیریں بدلنا میرے اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے، خوشحالی بھی میرے اللہ کی مدد سے آتی ہے اور سیاست دانوں کو صرف باتیں کرنی آتی ہیں اور باتوں کے پیچھے انہوں نے عوام کو لگا رکھا ہے ۔
ان دنوں ایک سیاسی کھلاڑی نے ملک میں اودھم مچا رکھا ہے، اسے زعم ہے کہ پاکستان کا وہ اکیلا وارث ہے اور پاکستان کے لئے جو وہ کر سکتا ہے کوئی اور نہیں کر سکتا۔ یہ درست بھی ہے کہ اس کے پکڑے جانے پر 9مئی کو مبینہ طور پر اس کے ایماء پر جو کیا گیا وہ کوئی نہ کر سکا حتیٰ کہ دشمن کو اس کی توفیق نہ ہوئی، اس کی جماعت میں شامل عقل کے اندھوں نے اپنے ہی محسنوں پر یلغار کردی۔ بانی پاکستان سے لے کر شہیدان وطن تک کی یادگاروں، رہائشوں تک کو نذر آتش کر دیا گیا۔ پاکستان کے اداروں پر ایسی چڑھائی کردی جیسے یہ ان کے ابا حضور کی جاگیر ہو ، دھرتی ماں کے سینے پر ایسا زخم لگا دیا گیا جس کا داغ ہمیشہ تازہ رہے گا اور وطن کے بیٹوں کو استعمال کرنے والوں کے مکروہ چہروں پر تاریخ بے وفائی لکھتی رہے گی کہ پاکستان کا نام پا کر دنیا میں شہرت حاصل کرنے والوں نے کیسے اپنے وطن سے بے وفائی کی۔ میں تو الطاف حسین کو پاکستان کا بڑا بے وفا سمجھتا رہا، کیا معلوم تھا یہاں اس کا بھی سردار بیٹھا ہے۔ ہماری باتوں کو ہمیشہ قنوطیت سے تعبیر کیا گیا ہے، ہم ہمیشہ ایک بات کئی طریقوں سے کرتے رہے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان، بھارت اور اسلام دشمنوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور وہ روز اول سے پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہوگئے۔ بھارت کی طرف سے کبھی گولہ و بارود سے کام لیا گیا تو کبھی آبی دہشت گردی کی گئی۔ امریکہ بھی پاکستان پر آئے روز بلا وجہ پابندیاں لگاتا رہا ہے کہ پاکستان کہیں استحکام حاصل نہ کر جائے۔ دہشتگردوں نے بھی پاکستان کو ہر ممکن نقصان پہنچانے کی سعی ناکام کی لیکن وہ پاکستان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے کہ افواج پاکستان دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی۔ پاکستان کی وہ افواج کہ جس کا اعتراف دنیا نے بھی کیا لیکن 9مئی کے روز افواج پاکستان پر براہ راست حملہ آور ہو کر بتا دیا گیا کہ جو کام بیرونی قوتیں نہ کر سکیں وہی کام ہمارے اندر سے کر دکھایا گیا۔ اسی لئے کہتے ہیں گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ ہمیں اپنے دیگر سیاستدانوں سے بھی شکوے ہیں، ایسا نہیں کہ باقی دودھ کے دھلے ہیں، لیکن باقی سیاستدانوں اور اس شخص میں ایک فرق یہ ہے باقی کرپشن کرتے رہے، انہوں نے لوٹ مار کی ہوگی، لیکن وہ پاکستان کے خلاف ایسے چڑھ نہیں دوڑے یا انہوں نے پاکستان کے محافظوں پر ایسے ہلا نہ بولا ہوگا۔ جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام شروع کیا تو بعد ازاں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن اپنے ایٹمی پروگرام پر کسی نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ آپ یقین کیجئے اگر پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے پہلے کہیں اس عاقبت نا اندیش کی حکومت بن جاتی تو شائد یہ دھماکے ہی نہ کرنے دیتا، یہ اپنے ورکرز کو ایٹمی دھماکوں کے خلاف سڑکوں پر لے آتا، جیسے 9مئی کو چاغی کے ماڈل کو آگ لگا دی گئی۔ ایم ایم عالم کے جہاز کو جلا دیا گیا، ایسے بے مروت لوگوں کے سامنے جناح ہائوس کیا معنی رکھتا ہے؟۔
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ خدا خدا کیجئے
ہماری صحافتی تاریخ گواہ ہے ہم نے ہر حکمران کو آئینہ دکھایا ہے، ہم کسی جماعت سے وابستہ نہیں ٹھیک ہے، ہر بندہ کوئی قلبی میلان رکھتا ہے، لیکن پاکستان تو سب سے پہلے ہے اس لئے جو دکھ سانحہ 9مئی کی ذمہ دار جماعت نے دیا ہے وہ دکھ لاثانی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر جھول گیا، بے نظیر بھٹو دہشت گردوں کا شکار ہوگئی، نواز شریف بھی جلا وطن ہوا، لیکن کبھی ایسی صورتحال نہ بنی جو اس کھیلنے کودنے والے نے کردی۔ اس نے سیاست کو بھی کھیل کا میدان ہی سمجھا ہے لہذا کھیل اور سیاست کو علیحدہ ہونا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button