CM RizwanColumn

نو مئی کے سیاہ کار سختی کے سزاوار

نو مئی کے سیاہ کار سختی کے سزاوار

سی ایم رضوان
سخت اخلاقی و شعوری بخار کی وجہ سے وفات پا جانے والے باجوہ ڈاکٹرائن کا گزشتہ کئی برس تک خیال تھا کہ عمران خان کی صورت میں انہیں ملک کا نجات دہندہ اور حق گو سیاست دان مل گیا ہے لیکن اس حماقت کی حد تک خوش فہمی کو خود عمران خان کی ساڑھے تین سالہ ناقص حکومتی پالیسیوں، حقائق سے فرار اور عمرانی ٹولے کی پہلوں سے زیادہ اور بے دردی سے کی گئی لوٹ مار نے باجوہ کو واپس 2011ء والی پالیسی پر جانے پر مجبور کر دیا۔ باجوہ نے انتہائی فراخ دلی اور حقائق پسندی سے صورت حال کا اعتراف کیا، ملک کو اس عمرانی آفت سے نجات دلوانے کا تہیہ کیا اور ادارے کو ایک حقیقت پسندانہ پالیسی دے کر گھر چلے گئے۔ ملک کی خوش قسمتی کہ ایک مثبت اور تعمیری سوچ رکھنے والے ٹاپ آف دی لسٹ جرنیل جنرل سید عاصم منیر اب آرمی چیف کی حیثیت سے اسی پالیسی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ تیرہ جماعتوں کی حمایت اور معیت رکھنے والے وزیر اعظم شہباز شریف بھی حقائق سے آشنا اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار تعمیر وطن کی خاطر دن رات کام کر رہے ہیں۔ شدید معاشی مشکلات کے باوجود ڈیفالٹ اور دیوالیہ ہونے کے خطرات ٹل چکے ہیں۔ تاہم اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان اپنے بدنام زمانہ قول کے مطابق ملک و قوم کے لئے ایک مستقل خطرہ بنے ہوئے ہیں اور آئی ایم ایف اور امریکہ تک کو پاکستان مخالف اقدامات پر اکسانے کی ترغیبات اور تراکیب فراہم کر رہے ہیں۔ اندرون ملک روزانہ کی بنیاد پر نت نئی سازشی تھیوری لا رہے ہیں یہاں تک کہ ان کی سازشی چالوں سے ان کی اپنی حامی خواتین کے صنفی تقدس بھی شرمناک الزامات کی زد میں آ گئے ہیں۔ ان کی طرف سے جاری رکھے جانے والے مسلسل مکر، فریب اور جھوٹے الزامات نے پورے ملک کو صرف ایک ہی کام پر لگا دیا ہے کہ وہ صبح سے شام تک ان کی حرکات کو دیکھتے رہتے ہیں اور پھر سنسنی خیزی کا سلسلہ اگلے روز تک بھی جاری رہتا ہے۔ مجال ہے کہ ملک بھر میں کسی کو عمران خان کے علاوہ کوئی پراجیکٹ نظر آتا ہو۔ یہاں تک کہ ملک کو اس حد تک مفلوج کر دینے والے عمران خان اقتدار سے ہٹنے کے ایک برس بعد آج بھی ایک ایسے خطرے کے طور پر موجود ہیں جو خدا نخواستہ کھل کر کھیل گیا تو نتیجتاً ریاست کی ناکامی اور ملک کے زوال کی وجہ بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مجبور ہو کر فوج خود کو عمران خان جیسے فتنہ سے بچانے کے لئے سخت اخلاقی و قانونی چارہ جوئی کا استعمال کر رہی ہے۔ جس کے تحت عمران خان کی جماعت کو اس وقت ایک ملک گیر کریک ڈائون کا سامنا ہے اور پاکستان بظاہر اس کے نتیجے میں جمود کی سی کیفیت کا شکار ہے۔ دوسری طرف ملک میں اس وقت مہنگائی عروج پر ہے اور گزشتہ سال یہاں تاریخ کے سب سے گرم ترین موسمِ گرما کی تباہ کاریاں بھی ہو چکی ہیں اور سیلاب زدگان کی بحالی کا کام ہنوز مکمل نہیں ہو سکا جبکہ مزید تباہی کی پیش گوئی بھی کی جا چکی ہے۔ اس ساری صورت حال کے درمیان پورا ملک اس سوچ میں الجھا ہوا ہے کہ عمران خان جیسی آفت سے کیسے جان چھوٹے گی۔ مقام شکر کہ اب طاقت ور حلقوں نے ہر صورت اس ملک دشمنی کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کر لیا ہے۔
ایک برس قبل جب عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تھا تو ان کے حامیوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ عمران خان ہماری ریڈ لائن ہیں اور اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو ملک جلے گا۔ عمران خان کو گرفتار کرنی کی کئی ناکام کوششوں کے بعد رینجرز کی جانب سے نو مئی کو بالکل ایسا ہی کیا گیا۔ نتیجے میں ملک بڑے پیمانے پر جلا تو نہیں لیکن عمران خان کے حامیوں نے فوجی چھانیوں کا رخ کیا۔ فوج کا ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو، جسے بلاشبہ پاکستان میں سب سے محفوظ جگہ تصور کیا جاتا ہے، اس کا دروازہ توڑ دیا گیا اور عمرانڈوز نے فوجی لوگو والے سائن بورڈز تک کو روند ڈالا۔ لاہور میں کور کمانڈر ہاس کو نذر آتش کر دیا گیا اور عمران خان کے حامیوں نے قائد اعظم کے گھر میں فرنیچر اور گاڑیوں کو آگ لگاتے ہوئے ویڈیوز بھی بنائیں۔ مظاہرہ کرنے والے ایک شخص نے جنرل کا یونیفارم پہن لیا اور ایک نے گھر سے پالتو مور اٹھا لیا۔ اس پاگل پن میں انقلاب کی تمام علامات تو موجود تھیں لیکن یہ مثبت انقلاب نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ وہی عمران خان جس سے ابتداء میں فوج کو محبت تھی لیکن بعد میں عمران خان نے خود کو اس کا اہل ثابت نہیں کیا اسی بنا پر اسے نظرانداز کیا گیا اور اب اس کے حامی حساب برابر کر رہے تھے۔ یہ مجرمانہ اور وطن دشمنی پر مبنی روش کسی طور بھی انقلابی نہیں بلکہ سازشی تھی۔ جو لوگ عمران خان کا تقابل سابق وزراء اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے کرتے ہیں، ان کی بیٹی بینظیر بھٹو اور نواز شریف سے کرتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ ان منتخب وزرائے اعظم کو بھی اقتدار سے ہٹایا گیا، جیل بھیجا گیا۔ پھانسی دی گئی اور ملک بدر کیا گیا اسی طرح عمران خان کو بھی فوجی عتاب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو یہ بھی ایک پراپیگنڈا ہے۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ دنیا اور ریکارڈ گواہ ہے کہ فوجی سربراہان کو غدار، میر جعفر، میر صادق اور ملک دشمن سازشوں میں ملوث قرار دینے والے عمران خان کسی یک طرفہ انتقامی کارروائی کی زد میں نہیں ہیں بلکہ خود اپنے ہی جاری شدہ وطن دشمن پراپیگنڈے کی وجہ سے اصولی انضباطی کارروائی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں جبکہ سابق وزراء اعظم کے زمانوں میں حالات و واقعات کچھ اور تھے۔ اس کی وضاحت صرف اس امر سے ہی ہو جاتی ہے کہ موجودہ فوجی سربراہ نے عمران خان کے خلاف کوئی سازش یا سیاست نہیں کی مگر اس کے باوجود وہ اور ان کے حواری انتہائی بدتمیزی، بے شرمی اور بدتہذیبی کے ساتھ فوج کے موجودہ سربراہ کے خلاف ڈھٹائی کی حد تک ہرزہ سرائی کر رہے ہیں کہ وہ بلیک میل ہو کر پھر سے اس آفت کو ملک پر مسلط کرنے پر مجبور ہو جائیں جس آفت کا ایجنڈا ہی ملک کو بدنام اور ناکام کرنا ہے۔ عوام نے دیکھا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے حامیوں نے وہ کیا جو آج تک کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکنوں نے نہیں کیا تھا۔ سڑکوں پر احتجاج کرنے کی بجائے انہوں نے چھائونیوں پر حملہ کیا اور عوام کو دکھایا کہ پاکستانی جنرل کیسی زندگی گزارتے ہیں۔ ملک دشمن ایجنسیوں کو پاکستان کو بدنام کرنے اور افواج پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کے جواز اور بھونڈے القاب فراہم کئے۔ پھر یہ کہ گرفتاری سے کچھ ہی وقت پہلے عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر ان کی جماعت کو کچلنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو بھی غدار کہا تھا جنہوں نے اسے اقتدار میں لانے اور اس دوران مدد فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ عمران خان نے ایک آئی ایس آئی جنرل کو بھی کھلا جھوٹ بولتے ہوئے اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا جس میں وہ مبینہ طور پر زخمی ہوئے تھے۔ وہ اور ان کے حامی اس جنرل کو بھی عوامی اجتماعات میں ڈرٹی ہیری کے لقب سے پکارتے رہے۔
ماضی میں بھی کئی سیاست دانوں نے پاکستانی فوج پر بطور ادارہ یا کسی افسر کا نام لے کر الزامات لگائے ہیں لیکن پاکستانیوں نے کم از کم کور کمانڈر ہاس نذرِ آتش ہوتے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، نہ ہی خواتین مظاہرین کو جی ایچ کیو کے گیٹ کو جھنجھوڑتے دیکھا تھا اور نہ ہی اعلیٰ فوجی اعزاز حاصل کرنے والے شہید فوجیوں کے مجسموں کو اکھڑتے ہوئے اور ٹوٹتے ہوئے دیکھا تھا۔ ان سب عوامل نے پی ڈی ایم کی موجودہ اتحادی حکومت کو ایک بھرپور قانونی چارہ جوئی کا اصولی جواز فراہم کیا ہے۔ اس کارروائی میں اگر کل کلاں نو مئی کے ان سیاہ کاروں کو سزائے موت یا اس سے کم عمر قید وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ ہر گز بے جا نہیں ہو گا بلکہ قانون کی حکمرانی کی قابل فخر مثال ہو گا۔ نو مئی کے واقعات کے بعد فوج کی اعلیٰ کمانڈ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب بہت ہو چکا۔ موجودہ آرمی چیف نے بھی اس دن کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا ہے۔ یقیناً یہ سیاہ کار سخت سزائوں کے سزاوار ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button