ColumnImtiaz Aasi

فوجی عدالتیں اور قانونی تقاضے .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
سانحہ نو مئی میں حساس تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع ہونے کی بازگشت ہے۔ پنجاب حکومت نے سانحہ کی انکوائری کے لئے جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ مسلم لیگ نون کے سینیٹر عرفان صدیقی نے اس امر پر تشویش ظاہر کی ہے جے آئی ٹی بنی نہ کمیشن اور معاملہ صرف تقریروں تک محدود رہا۔ ہر کوئی جانتا ہے فوجی عدالتوں سے بری ہونے کی بہت کم امید ہوتی ہے تاہم یہ امر خوش کن ہے فوجی عدالتوں سے سزا یاب ہونے والوں کو ہائی کورٹس او ر سپریم کورٹ میں اپیل کی اجازت ہو گی۔ جے آئی ٹی بن جاتی تو سانحہ میں ملوث لوگوں کی صحیح طریقہ سے نشاندہی ہو نے میں مدد مل سکتی تھی۔ سانحہ نو مئی میں کئی ہزار افراد گرفتار ہوچکے ہیں جن میں خواتین کی خاصی تعداد شامل ہے۔ پی ٹی آئی کے جن ورکرز پر مقدمات بنائے گئے ہیں ان میں بہت سے ورکرز کے خلاف دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں جنہیں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں رکھا گیا ہے۔ جن ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے، انہیں عسکری ادارے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے مقدمات میں کوئی پبلک کا گواہ نہ بھی ہو تو پولیس ملازمین کی گواہی پر انحصار کرتے ہوئے ملزمان کو سزائیں ہو جاتی ہیں۔ جہاں تک فوجی عدالتوں میں مقدمات کے ٹرائل کی بات ہے لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق راست باز جج جناب عبادالرحمان لودھی سے ہم نے جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا سی سی ٹی وی فوٹیج اسی وقت بطور شہادت قابل قبول ہو سکتی ہے، جب کیمروں کوآپریٹ کرنے والا عدالت میں آکر شہادت دے اس نے یہ فوٹیج بنائی ہے، اس کے ساتھ اسے وکلاء کی جرح سے گزارے بغیر اس کی گواہی کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ ایک سوال پر جج صاحب نے بتایا آج کل جس کا جی چاہے اور جس کی وہ چاہے ویڈیو بنا سکتا ہے لہذا انصاف کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر ماتحت عدالتوں سے سزا ہونے والے ملزم اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کی بات ہے، دہشت گردی کے قوانین میں عام پبلک کی بجائے پولیس ملازمین کی گواہی کو قابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ ہمیں مارشل لاء دور کی یاد ہے فوجی عدالتوں میں میجر رینک کے افسر ملزمان کو سزائیں دیتے تھے، تاہم ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے سانحہ نو مئی کے ملزمان کا ٹرائل کرنے والے میجر رینک کے افسر ہوں گے یا اوپر رینک کے افسر ہوں گی۔ خبروں کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے جناح ہائوس پر حملہ عمران خان کے حکم پر ہوا ہے۔ عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے اور سویلین مقامات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کی عدالت میں مقدمات کی سماعت ہو گی۔ وزیراعظم کا یہ بیان کہ جناح ہائوس پر حملہ عمران خان کے کہنے پر ہوا ہے۔ قانونی طور پر اسے ثابت کرنے کے لئے حکومت کو ٹھوس شہادتوں کی ضرورت ہو گی، البتہ یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ ملزمان کی گواہی پر کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اسے سزا دی جا سکتی ہے لہذا حکومت کو سابق وزیراعظم کو اس سانحہ میں ملوث کرنے کے لئے ٹھوس قانونی جواز اور شہادتوں کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کی اتحادی جماعت کے ایک رہنما اور اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار نے کہا ہے فوجی عدالتوں کے حوالے سے فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے تھا۔ ہمارا ملک پہلے ہی خراب معاشی صورت حال کا شکار تھا کہ نو مئی کو پیش آنے والے واقعات نے ایک نیا بحران جنم لیا ہے۔ تعجب ہے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو بھلا حساس جگہوں پر گھیرائو جلائو کی کیا ضرورت تھی، عمران خان کے خلاف مقدمات حکومت نے بنائے تھے نہ کہ فوج نے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال نے حالات
کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے عمران خان کو ضمانت دے کر معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سپرد کر دیا۔ سپریم کورٹ سے عمران خان کو ضمانت نہ ملتی نہ جانے حالات کدھر کس طرف جاتے۔ حکومت خواہ کچھ کہے ہماری ناقص رائے میں اعلیٰ عدلیہ نے بروقت اقدام کرکے حالات مزید خراب ہونے سے بچا لئے۔ سانحہ وزیر آباد کے بعد جس رفتار سے عمران خان کے خلاف مقدمات درج ہوئے وہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ عمران خان نے جلوس کو اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے سے روک کا دانش مندی کا ثبوت دیا ورنہ وہ جلوس کے شرکاء کو وفاقی دارالحکومت میں داخل ہونے کا کہہ دیتے تو خون خرابہ ہو سکتا تھا۔ عمران خان کی گرفتار ی کے بعد جو کچھ ہوا اس کی غیر جانبدارنہ انکوائری ہائی کورٹ کے جج سے کرائی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکتا ہے۔ ہمارا عمران خان اور نہ تحریک انصاف سے کوئی واسطہ ہے، کسی کو اپنے مشاہدات لکھنے پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے نو مئی کے سانحہ میں پی ٹی آئی کے ورکرز شامل نہیں تھے۔ جب کبھی اس سانحہ کی غیر جانبدارنہ انکوائری ہوئی تو حقائق سامنے آجائیں گے۔ بس ایک سوال ہے کور کمانڈر ہائوس پر حملہ ہونے سے قبل اہلکار کہاں تھے؟۔ چھ عشروں سے زائد ہماری زندگی میں کئی حکومتیں آئیں اور مارشل لاء کا دور بھی دیکھا کسی سیاسی جماعت کے ورکر نے اسی توڑ پھوڑ نہیں کی جس طرح نو مئی کو کی گئی۔ عمران خان کو یہ کریڈٹ ضرور دینا پڑے گا اس نے عوام کو باشعور کر دیا۔ قومی خزانہ لوٹنے والوں کو عوام اچھی طرح جان چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں خواہ کچھ کہیں لیں یا عمران خان کے خلاف کتنے مقدمات قائم کر دیں، عوام مسلم لیگ نون اور نہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ سانحہ میں ملوث ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت اور معقول شہادتیں نہ پیش کی گئیں اور قانونی تقاضے پورے نہ کئے گئے تو ملزم ماتحت عدالتوں سے سزا یاب ہونے کے باوجود اعلیٰ عدالتوں سے بری ہو جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button