Columnمحمد مبشر انوار

اڑانیں۔۔۔ محمد مبشر انوار( ریاض)

محمد مبشر انوار( ریاض)
اپنی گزشتہ تحریر بعنوان ’’ جمہوریت اور سیاستدان‘‘ کا اختتام جس سوالیہ فقرے پر کیا تھا کہ’’ کیا ایسے سیاستدان جمہوریت کے حقدار ہیں، جمہوریت کے رکھوالے یا جمہوریت کے وارث ہو سکتے ہیں؟، ‘‘ بدقسمتی دیکھئے کہ تحریر ادارے کو ارسال کرنے بعد، ابھی اشاعت کا مرحلہ بھی نہیں آیا تھا کہ ساون کی جھڑی یوں شروع ہوئی کہ تحریک انصاف کے اراکین نے تواتر کے ساتھ اپنی ہمدردیاں تحریک انصاف سے الگ کرنا شروع کر دیں۔ ابتلاء کا وقت آتے ہی، کئی ایسے اراکین اسمبلی کہ جن کی اسمبلی رکنیت کلیتا تحریک انصاف کی مرہون منت ہے، وزارتیں تحریک انصاف کی عطا رہی، ان کی وفاداریاں یک لخت تبدیل ہونا شروع ہو گئیں تو دوسری طرف بے پیندے کے سیاسی لوٹوں نے اپنا قبلہ تبدیل کرنے میں رتی برابر عجلت نہیں دکھائی۔ اراکین تحریک انصاف کی اکثریت نے 9مئی کے واقعات کو بنیاد بناتے ہوئے تحریک انصاف سے اپنی وفاداری ختم کرنے کا اعلان انتہائی رقت آمیز لہجے میں ایک بھرپور پریس کانفرنس میں کیا، ان اراکین نے واضح کیا کہ ان کی پہلی وفاداری ریاست پاکستان سے ہے جبکہ ان کی سیاسی وابستگی کا درجہ ریاست کے بعد آتا ہے۔ انتہائی خوبصورت بات اور جذبات ہیں، ہر پاکستانی کے ریاست پاکستان کے حوالے سے یہی جذبات و احساسات ہونے چاہئیں کہ وطن عزیز سب سے پہلے جبکہ دیگر تعلق اس کے بعد ہونا چاہئے۔ البتہ ان اراکین سے ایک سوال ضرور ہے کہ کیا ایک الزام کی بنیاد پر سیاسی وابستگی چھوڑنے کا فیصلہ درست ہو سکتا ہے؟ توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی سے قطعی انکار نہیں کہ نو مئی کو پاکستان میں ایسے واقعات ہوئے ہیں، جو نہیں ہونے چاہئیں، لیکن ان واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق کئے بغیر کسی ایک سیاسی جماعت پر الزام لگاکر اس سیاسی جماعت کی قطع و برید کرنا درست ہے؟ کہیں اس لاتعلقی کی پس پردہ ان اراکین کے اپنے گھنائونے کرتوت تو نہیں کہ جس کے ناقابل تردید ثبوت ’’ طاقتوروں‘‘ کے پاس رہے ہوں یا ایسے اراکین کی سیاسی وابستگی کا کنٹرول ہی طاقتوروں کے پاس ہے؟۔ اصولا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیاسی وابستگی سے بالا تر رہتے ہوئے، سب سیاسی جماعتیں اس توڑ پھوڑ کی نہ صرف مذمت کرتی بلکہ ایسے عناصر کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کا مطالبہ کرتیں لیکن اس سے قبل تحریک انصاف کے کارکنان پر اس الزام کے شواہد مانگتے، اس کی غیر جانبدارانہ تحقیق کا مطالبہ کرتے اور ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لئے بھرپور تعاون کرتے۔ لیکن بدقسمتی یہ کہ ایسا کوئی بھی مطالبہ کہ جو سو فیصد قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جا سکتا تھا، اس کے برعکس فی الفور راہیں جدا کرنے کے تواتر سے پورے پاکستان سے ہونے والے اعلانات اس امر کے غماز ہیں کہ درپردہ حقائق کچھ اور ہیں کہ جن کے باعث انتہائی تیزی کے ساتھ اراکین الگ ہو رہے ہیں۔ اراکین کا یہ رویہ، ایک طرف سیاسی کارکنان کی کمزور ترین سیاسی وابستگی کا مظہر ہے تو دوسری طرف اس شرمناک حقیقت کو چاک کرتا ہے کہ اکثریت قانون سے ناواقف ہیں، ایسی کمزور سیاسی وابستگی کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے منشور کو عملی جامہ پہنا سکے یا سیاسی اصولوں کی بقا کے لئے کھڑی ہو سکے؟ البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی ’’ مدت ملازمت میں توسیع‘‘ کے لئے اپنی پارلیمانی پارٹی کے اراکین کو بل کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کے لئے آمادہ کر لیتے ہیں اور کسی بڑے سے بڑے جمہوریت پسند رکن کی جرات نہیں کہ وہ پارٹی قیادت کے اس فیصلے کے خلاف لب کھولے۔ جبکہ دوسری طرف سیاسی قیادت اپنے اصولی موقف کی بنیاد پر فوج کے سیاسی کردار کے خلاف کھڑی ہونے کی کوشش کرے تو اس کے اراکین، نظریاتی نہیں بلکہ وہ اراکین جنہیں جماعت میں داخل کیا گیا ہوتا ہے، سیاسی قیادت کے موقف سے انحراف کرتے ہوئے فی الفور سیاسی وابستگی سے کنارہ کش ہو کر، ایسی کسی بھی کوشش کو زمین بوس کر دیتے ہیں۔
پاکستانی سیاسی حرکیات پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہی کہ سیاسی افق پر چند سیاسی خاندان ایسے مضبوط ہو چکے ہیں کہ ان کے حلقہ میں رہنے والے عوام، ان خاندانوں کی سیاسی حرکات کے تابع نظر آتے ہیں۔ وہ خواہ کسی بھی سیاسی چھتری کے تلے جا سمائیں، ان کے ووٹرز ان کے پیچھے، ان کے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ درحقیقت یہی وہ چند خاندان ہیں کہ جنہوں نے سیاست کو یرغمال بنا رکھا ہے اور سیاسی قائدین کی اکثریت کو مجبور کر رکھا ہے کہ وہ اس بھیڑ چال کا شکار رہیں، سٹیٹس کو کے خلاف جانے کی سوچ بھی ان کے ذہن میں پھٹکنے نہیں پائے کہ اس سے نقصان سراسر ان کا اپنا ہے، جس کو برداشت کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔ بدقسمتی سے جب بھی کوئی ایسا سیاسی قائد پاکستانیوں کو نصیب ہوا، جس نے عوام میں اپنی جڑیں بنانے کی کوشش کی، اس کی صفوں میں ایسے الیکٹ ایبلز کو شامل کروایا گیا تا کہ اگر کوئی بھی سیاسی قائد اپنے قد سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرے تو یہ بیساکھیاں اس کی بازوئوں سے کھینچ لی جائیں اور اسے منہ کے بل زمین پر گرا دیا جائے۔ یہ مشق مسلسل پاکستان میں جاری ہے اور ہر وہ سیاسی قائد جو اپنے قد سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے، مرحلہ وار اس کے پر کاٹے جاتے ہیں، اگر وہ نوشتہ دیوار پڑھ لے تو بیرون ملک جانے میں عافیت سمجھتا ہے کہ زندگی رہی تو دوبارہ موقع مل سکتا ہے وگرنہ لیاقت علی خان سے بے نظیر بھٹو تک کا دردناک انجام ان کے سامنے ہے۔ سیاسی قائدین میں سے اس سبق کو بخوبی میاں نواز شریف نے ہی پڑھا ہے اور اسی لئے وہ ابتلاء کے موسم میں دو مرتبہ اپنی جان بچا کر بیرون ملک جا بیٹھے ہیں، ایک مرتبہ تو قسمت یاوری کر چکی اور انہیں تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب نصیب ہو چکا لیکن اب نوشتہ دیوار کچھ اور ہے۔
بات کہیں سے کہیں جا نکلی بہرکیف موجودہ صورتحال میں عوامی پذیرائی کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچے عمران خان بھی مسلسل پاکستان میں رہنے کی گردان کر رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف مرحلہ وار انہیں سمجھانے کی کوششیں بھی جاری ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ وہ عوامی پذیرائی کی ضد چھوڑ دیں کہ اقتدار عوامی حمایت سے ملنے والا نہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف پر مسلسل کریک ڈائون جاری ہے، اس کے کارکنان اور متوقع امیدواران انتخابات کو ناکوں چنے چبوائے جا رہے ہیں، ان کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں، تحریک انصاف سے علیحدگی کے بیانات آ رہے ہیں لیکن عمران خان ابھی تک بضد ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ حالانکہ ’’ آئین بچائو۔ ملک بچائو‘‘ کی کال پر غیر متوقع طور پر عوام کی انتہائی کم تعداد باہر نکلی، البتہ عمران خان کی تقریر آج بھی عوام میں پورے زور و شور کے ساتھ سنی جاتی ہے۔ عمران خان کی حالیہ موریسن مور کے ساتھ آڈیو لیک پر جو ہاہاکار مچی ہے، جس طرح عمران خان کو مطعون کیا جارہا ہے، حیران کن ہے کہ عمران خان نے ایک ایسی ریاست سی جو انسانی حقوق کی علمبردا ر و چمپئن ہے، کو پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا ہے، کیا عمران ریاض خان کی گمشدگی/اغوا اس کا ثبوت نہیں۔ کیا عمران خان پر ڈیڑھ سو مقدمات، جن حالات میں کئے جارہے ہیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟ جب ریاست کسی بھی سیاسی قائد کی عوامی مقبولیت کو اس طرح کم کرنے کے درپے ہو، تو یقینی طور پر اقتدار پرست پرندے، ایسے آشیانے پر نہیں ٹک سکتے بلکہ یہی وہ موسم ہوتا ہے جب وہ اپنے آقائوں کے اشارہ ابرو پر اڑان بھرنے کے تیار ہوتے ہیں، یہی اس وقت بھی ہو رہا ہے، موسمی پرندوں کی اڑانیں اپنے عروج پر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button