ColumnM Riaz Advocate

یوم تکبیر۔۔۔ کامیابی کا دن .. ریاض ایڈووکیٹ

محمد ریاض ایڈووکیٹ
برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی جانی، مالی، سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں بننے والی نئی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ورثہ میں بہت سے وسائل و مسائل اور علاقائی تنازعات ملے وہیں پر پاکستان کو ورثہ میں اک ازلی دشمن بھارت بھی ملا۔ بھارت نے روز اول ہی سے پاکستان کے وجود کو حقیقی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ آج بھی بھارت کے ہندو انتہاء پسند رہنما و تنظیمیں اکھنڈ بھارت کا نعرہ بلند کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ 1947ء سے پاکستان کو اپنے وجود کا دفاع کرنے کے لئے متعدد جنگیں لڑنی پڑی، چاہے وہ جنگ اپنے قیام کے ٹھیک ایک سال بعد 1948ء میں پاک و بھارت جنگ کی صورت میں ہو یا پھر 1965ء اور 1971ء کی جنگیں۔ اس کے علاوہ سیاچن اور کارگل جیسے معرکے بھی پاک بھارت تاریخ کا حصہ ہیں۔ پاک بھارت ازلی دشمنی ہی کی بناء پر پاکستان کو اپنے وجود کے ٹھیک 24سال بعد اپنے ایک بہت بڑے حصہ ( یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت) سے محروم ہونا پڑا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے موقع پر ہی بھارتی وزیراعظم نے تکبر کے انداز میں کہا تھا کہ آج بھارت نے برصغیر میں دو قومی نظریہ کو سمندر میں پھینک دیا ہے۔ بہرحال مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بچ جانے والے مغربی پاکستان ( موجودہ پاکستان) کو اپنی بقاء کے دفاع کے لئے اپنے ازلی دشمن بھارت سے پہلے سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہوچکے تھے۔ اکھنڈ بھارت کے نعرے اور دو قومی نظریہ کو سمندر میں پھینکنے والے بیانات دیتی ہوئی بھارتی قیادت نے اپنے جارحانہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے مئی1974 ء کو ( امریکی اور کینیڈین پلانٹ اور مواد کو استعمال میں لاتے ہوئے) ایٹمی دھماکے کئے جسکا اصل ہدف پاکستان تھا۔ یہ وہ لمحات تھے جب پاکستان کو اپنے ازلی دشمن بھارت سے اپنی بقاء کے دفاع کے لئے بھرپور اور بروقت اقدامات اُٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔ اگر بات کی جائے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تو اس کے پس منظر میں چند تاریخی حقائق کو پڑھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن 1956ء میں قائم ہوا تھا لیکن اس کا مقصد کسی طور بھی ایٹم بم بنانا نہیں تھا۔ 60کی دہائی میں پاکستان کو مصدقہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ بھارت بھا بھا ایٹمی تنصیبات میں ایٹم بم کی تیاری کی کوشش کر رہا ہے۔ جنرل ایوب کی کابینہ کے کئی طاقتور وزیر ایٹمی صلاحیت کے خلاف تھے۔ وزارت خارجہ کو خفیہ اطلاع مل چکی تھی کہ بھارت اعلانیہ طور پر ایٹمی ٹیکنالوجی کی مخالفت کر رہا ہے مگر خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کے پروگرام پر گامزن ہے۔ اس وقت کے وزیر خارجہ مسٹر بھٹو نے 11دسمبر 1965ء کو لندن کے ایک ہوٹل میں صدر ایوب خان اور ڈاکٹر منیر احمد کی ایک ملاقات کروائی اور دونوں نے مل کر ایوب خان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان حالات میں، ایٹمی اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہونا پاکستان کی مجبوری بن چکا ہے مگر ایوب خان قائل نہ ہوسکے۔ بدقسمتی سے اس کے بعد ہماری قوم نے 1971ء دیکھا۔ پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بھارت دعویٰ کر رہا تھا کہ اس نے دو قومی نظریے کو ختم کر دیا ہے۔ اس تمام صورتحال نے آخر کار پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں پر یقین کرنے کی بجائے اپنے زور بازو سے کچھ کرنا ہو گا۔ اس میں اہم ترین کردار بلا شبہ بھٹو کا بھی تھا جو اب مملکت کے حکمران کی حیثیت سے فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ 20جنوری 1972ء کو، ملتان میں پاکستان کے سرکردہ سائنسدانوں اور انجینئرز کی ایک میٹنگ بھٹو کی زیر صدارت ہوئی، جسے ملتان میٹنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میٹنگ میں پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے کسی بھی قیمت پر ایٹم بم بنانے کا اصولی فیصلہ کیا۔ اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے اس وقت کے سربراہ منیر احمد کی سربراہی میں سائنس دانوں نے اس سلسلے میں کام کا آغاز کیا۔ ان میں ریاض الدین، فیاض الدین اور فہیم حسین سمیت بہت سے سائنس دان شامل تھے۔ اسی دوران 1974ء میں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا جبکہ پاکستان کو اس سلسلہ میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔ اسی سال یعنی 1974ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور کہوٹہ ریسرچ لیباٹریز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پھر ڈاکٹر عبدلقدیر خان کے زیرقیادت ہونے والی انتھک کوششوں کے ثمرات پاکستان سمیت پوری دنیا نے 28مئی 1998ء کی سہ پہر دیکھ ہی لئے تھے۔ پاکستان نے متعدد مواقع پر بھارت کو برصغیر پاک و ہند کے خطہ کو ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ سے بچنے کئے بہت سی تجاویز پیش کیں جیسا کہ پاکستان نے 1974ء میں یہ تجویز پیش کی کہ جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دیا جائے لیکن بھارت نے پاکستان کی تجویز رد کر دی۔ 1978ء میں پاکستان نے یہ تجاویز دیں کہ پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا اعلان کریں اور جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دیا جائے۔ 1979ء میں پاکستان نے تجویز پیش کی کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ NPTپر دستخط کر دیں اور ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت بھی دے دیں۔ 1987ء میں پاکستان نے تجویز کیا کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا مشترکہ اعلان کریں۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی ان کوششوں کو رد کیا کیونکہ اس کے پس پردہ عزائم کچھ اور تھے۔ 1974ء کے ایٹمی دھماکوں اور اس کے بعد کے بھارتی ایٹمی عزائم کے جواب میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کے لیے ایٹم بم بنائے۔ یہ اقدام اس کی بقا کے لیے ناگزیر ہو چکا تھا۔ بھارت نے جب 1998ء میں آپریشن شکتی کے نام سے پوکھران کے مقام پر مزید پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو شاید اسے گھمنڈ تھا کہ پاکستان انڈیا کی اس بلا جواز اشتعال انگیزی کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ عالمی برادری خاص طور پر امریکہ اور مغربی دنیا نے بھارت کی اس عالمی جارحیت کا کوئی زیادہ برا نہ منایا اور بھارت کے ساتھ انکے تعلقات معمول کے مطابق ہی چلتے رہے۔ جبکہ دوسری طرف عالمی برادری کی تمام تر توجہ کا مرکز پاکستان بن چکا تھا، چونکہ عالمی برادری کے بہت سے اہم ممالک کی انٹیلی جنس اداری یہ خبر رکھتے تھے کہ پاکستان بھی ایٹمی دھماکے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے عالمی برادری خصوصا امریکہ، برطانیہ و دیگر عالمی طاقتور ممالک کی ہر ممکن کوشش تھی کہ کہیں پاکستان بھی بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے نہ کر دے۔ دوسری طرف پاکستانی عوام اور حکام بھی جنگی عزائم اور علاقہ میں تھانیدار بننے کے دعوے دار بھارت کو منہ توڑ جواب دینے میں دن رات اپنی توانیاں صرف کر رہے تھے۔ پاکستان کی حکومت اور اداروں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو آخر کار وہ پاکستان کی بقا اور حفاظت کے لیے اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں اور پاکستان نے بھارتی دھمکی کا جواب 28مئی 1998ء کو اپنے پہلے ایٹمی دھماکے چاغی اول کی شکل میں دیا۔ 30مئی تک پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کئے اور اسطرح پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں محمد نواز شریف کے1998ء کے دور تک تمام حکمرانوں، سائنسدانوں اور پاک فوج کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ اور اسی طرح ایٹمی قوت بنانے اور پھر ان ایٹمی ہتھیاروں کو دشمن کے علاقہ تک پہنچانے کے لئے میزائل ٹیکنالوجی کو بیرون ممالک سے پاکستان تک منتقلی میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے۔ یہ پاکستان کا جوہری پروگرام ہی تھا کہ جس کی پاداش میں پاکستان کے سب سے مقبول عوامی لیڈر ذولفقارعلی بھٹو کو تختہ دار پر جھولنا پڑا۔ کیونکہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جو کلمات ادا کئے آج وہ پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی تاریخ کا حصہ ہیں۔ We will make horrible example of Bhutto if he continue nuclear program. اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ بھٹو کو پوری دنیا کے لئے نشان عبرت بنادیا گیا۔ اور اک خود ساختہ قتل کے مقدمہ میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ لاہور ہائیکورٹ میں اپنے خلاف چلنے والے ٹرائل کے دوران بھی ذوالفقار علی بھٹو نے درج ذیل بیان قلمبند کروایا تھا کہ مجھے اگست 1976ء میں ڈاکٹر ہنری کسنجر ( امریکہ کے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ) کے ذریعے بتایا گیا تھا کہ اگر آپ ( بھٹو) دوبارہ پروسیسنگ پلانٹ معاہدے کو منسوخ، اس میں ترمیم یا ملتوی نہیں کرتے ہیں تو ہم آپ کو ایک خوفناک مثال پیش کریں گے۔ میرے ملک کی خاطر، پاکستان کے عوام کی خاطر، میں نے اس بلیک میلنگ اور دھمکیوں کا مقابلہ کیا ، بھٹو نے لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ کے سامنے بیان کیا تھا، جس نے بالآخر انہیں سزائے موت سنائی۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 28نومبر 1972ء کو کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کا افتتاح کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک موقع پر یہ بیان دیا تھا کہ ’’ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘ ۔ 1976ء امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو خصوصی دورے پر پاکستان بھیجا گیا، جنہوں نے بھٹو کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ایٹمی پالیسی ترک نہ کی تو ان کو عبرتناک مثال بنا دیا جائے گا۔ تاہم بھٹو نے امریکی دھمکی کو مسترد کر دیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مکمل سرپرستی کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے اور عالمی دنیا کے سامنے ایٹمی قوت کا اظہار کرنے کے حوالے سے امریکہ کا دباؤ قبول نہیں کیا اور دونوں کو عالمی سازشوں کے پیش نظر آمریت کے بے رحم تازیانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کے دشمنوں کی نظر میں بھٹو کی جرائم کی فہرست جیسا کہ پاکستان کو پہلا متفقہ آئین دینا، اسلامی دنیا کے تمام لیڈران کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا، ختم نبوتؐ کو آئین پاکستان کا حصہ بنانے کیساتھ ساتھ انکا پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لئے تگ و دو کرنا بھی اک جرم ٹھہرا، بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا جبکہ میاں نواز شریف کو قید و بند کی صعوبتوں اور خود ساختہ جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا۔ آج ہم یومِ تکبیر منانے جارہے ہیں تو ملک کے تین بار وزیراعظم منتخب ہونے والے نواز شریف عدالتی ٹرائلز و قید اور اب خود ساختہ جلاوطنی کاٹ رہے ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق: ایٹمی ٹیکنالوجی لانے والے بھٹو کو پھانسی دی گئی، ایٹم بم بنانے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو پوری دنیا میں بدنام اور رسوا کیا گیا، پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی مہیا کرنے والی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کروادیا گیا۔ ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف کو قید کر دیا گیا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہی لوگ عبرت کا نشان بنے جو اس پروگرام کا حصہ رہے؟ مئی 1998ء میں پاکستان پر کس قدر دبائو تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی برادری کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو متعدد مرتبہ ٹیلی فون کالز کیں اور دھمکیوں کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر مفت میں دینے کا لالچ بھی دیا۔ وطن عزیز میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کا جواب دینے کے لئے عوام الناس اور حکام تقریبا ایک ہی صفحہ پر نظر آئے۔ نواز شریف نے میڈیا کے سنیئر تجزیہ کاروں اور کالم نویسوں کو مدعو کیا، اس موقع پر سینئر صحافی مجید نظامی کا یہ بیان تاریخ کا حصہ بن چکا ہے کہ میاں صاحب دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت پاکستان آج بھی عالمی استعماری قوتوں کی آنکھوں کا کانٹا بنی ہوئی ہے۔ دفاعی محاذ پر ناقابل تسخیر اسلامی قوت اسلامی جمہوریہ پاکستان آج ورلڈ بینک، آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں گروی نظر آتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر، فلسطین جیسے عالمی تنازعات میں جہاں پوری دنیا کو پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں سے ڈرنے کی ضرورت تھی مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ باوجود اک ایٹمی قوت ہونے کے پاکستان کو کئی مواقع پر عالمی قوتوں کے ہاتھوں یرغمال ہونا پڑا۔ جسکی سب سے بڑی مثال 9؍11کے واقعہ کے بعد امریکہ کے وزیر خارجہ کی اک فون کال پر اُس وقت کے پاکستانی آمر صدر مشرف نے امریکہ کا کھل کر ساتھ دیا جس کا خمیازہ پاکستان کو 100ارب ڈالر سے زائد مالی نقصان اور ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں کی شہادت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ بلکہ آج تک پاکستان کو اُس وقت کے فیصلوں کے نقصانات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے اپنے آرٹیکل 370 کو خاتمہ کرکے وادی کشمیر کی خصوصی متنازعہ حیثیت کو ختم کر دیا، مگر دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت سوائے جمعہ کے جمعہ آدھے گھنٹے کا احتجاج کے کچھ نہ کر سکی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایٹمی قوت پاکستان کا خوف اس کے تمام دشمنوں کی نیندیں حرام کر دیتا مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے پاکستان جیسے دلفریب نعرے لگا کر عالمی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہوگئے۔ کل تک پاکستان کو اپنی مشرقی سرحد بھارت سے خطرات لاحق رہتے تھے مگر 9؍11کے بعد امریکی ہاتھوں میں استعمال ہونے کے بعد پاکستان کی مغربی سرحدیں افغانستان کی طرف سے بھی غیر محفوظ ہوتی گئیں۔ حقیقت حال تو یہ ہے پاکستان ایٹمی قوت تو بن گیا مگر پاکستان میں مسلسل سیاسی عدم استحکام اور بیرون طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کی وجہ سے معاشی قوت نہ بن سکا۔ بہرحال 28مئی کی سہ پہر پاکستان نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کا بھرپور جواب دیکر بھارتی سورمائوں اور عالمی برادری پر یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان اپنے دفاع کی خاطر کسی بھی قسم کا عالمی دبائو قبول نہیں کرے گا۔ پوری دنیا میں پاکستان کے ایٹمی بم کو اسلامی بم کا نام دیا گیا۔ جہاں عالمی طاقتیں پاکستان کے اسلامی بم پر خفا نظر آئیں وہیں پر عالم اسلام اور امت مسلمہ ء نے پاکستان کی اس عظیم کامیابی پر بھرپور جشن منایا۔ اس وقت کی حکومت نے 28مئی کو قومی دن کے طور پر منانے اور اس دن کو مخصوص نام دینے کے لئے سینئر ترین صحافیوں اور parliamentarian پر مشتمل کمیٹی قائم کی، اس کمیٹی نے پورے پاکستان میں نام تجویز کرنے کے لئے ایک مقابلے کا انعقاد کروایا اور بالآخر28مئی کو یوم تکبیر کا نام دیا گیا۔ مگر بدقسمتی سے یوم تکبیر صحیح معنوں میں صرف 1999 ء میں منایا گیا اسکے بعد آمر مشرف کے دور میں سرکاری سرپرستی میں اس دن کو منانے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ اک انتہائی افسوس ناک پہلو یہ بھی کہ اس دن کو سرکاری سطح پر منانے کا اہتمام تب تب ہی ہوا کہ جب جب پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی۔ آج بھی حالت یہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن تو اس دن کو سرکاری اور بحیثیت پارٹی کے بھرپور طریقہ سے منانے کا انتظام کرتی آرہی ہے مگر دیگر سیاسی پارٹیاں اس دن کو منانا تو دور کی بات اس دن کو منانے کے بارے میں سوچتی بھی نہیں ہیں۔ یاد رہے 28مئی یعنی یوم تکبیر کسی خاص سیاسی پارٹی کا دن نہیں ہے بلکہ یہ دن پوری پاکستانی قوم کے لئے فخر کا دن ہے اور یہ دن صرف اسلئے نہ منایا جائے کہ اس دن کی نسبت سے مخالف سیاسی پارٹی کے قائد یعنی نواز شریف کا ذکر آتا ہے تو یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہوگی۔ کیونکہ یہ دن تمام پاکستانیوں کا دن ہے یہ دن تمام سیاسی پارٹیوں کا دن ہے۔ تو پھر آئوبغیر کسی سیاسی بغض اور سیاسی وابستگی ہمیں اس دن کو نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے قومی دن کے طور پر بھرپور طریقہ سے منائیں۔ اللہ کرے کہ جس طرح پاکستان اک عالمی ایٹمی قوت بنا ہے اسی طرح سے پاکستان اک عالمی معاشی قوت بھی بن جائے اور دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کشمیر و فلسطین جیسے علاقوں کو کفار کے پنجے سے چھڑانے میں کامیاب ہوجائے۔ آمین ثم آمین۔ پاکستانی قوم ہمیشہ کے لئے زندہ باد۔۔ پاکستان ہمیشہ کے لئے پائندہ باد۔

یوم تکبیر۔۔۔ کامیابی کا دن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button