Column

مائیں بچے کھا گئیں .. سید ہ عنبرین

سید ہ عنبرین

ہر دور کے انسان کی خواہشیں مختلف رہی ہیں، ان میں مثبت اور منفی دونوں قسم کی خواہشات شامل رہی ہیں، بعض خواہش پوری نہ ہوں تو ذہن و دل میں سلگتی رہتی ہیں، کبھی کبھی یہ انتقام کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، یہ انتقام دوسروں سے لیا جاتا ہے، کبھی کبھار اپنی ذات اسکا نشانہ بنتی ہے، مصر کے ایک گائوں میں رہنے والی عورت نے اپنی خواہشوں کے پورا نہ ہونے پر عجیب انداز میں انتقام لیا ہے، ایسا انتقام جس کا تصور کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، شرقیہ گورنری کے ناقوس پولیس سینٹر کے ذمہ داری کے علاقے گائوں ابو شبلی میں ایک عورت نے اپنے کمسن بیٹے کو ذبح کیا پھر اسکے ٹکڑے کئے پھر اہتمام کے ساتھ اسے پکایا اور بعد ازاں اسے کھایا، واقعہ رپورٹ ہونے کے بعد اس عورت کو گرفتار کر لیا گیا۔ پہلے خیال کیا گیا کہ شاید یہ عورت اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے اور اس نے یہ حرکت پاگل پن میں کی ہے لیکن دوران حراست اس عورت نے کوئی ایسی حرکت نہ کی جس سے اندازہ ہوسکے کہ وہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہے اور اس نے یہ فعل بیماری کے اٹیک کے دوران کیا ہے، ماہرین نفسیات نے اس کا معائنہ کیا اور اسے تندرست قرار دیا، عورت نے اقرار کیا کہ اس نے اپنے بچے کا سالن تیار کرنے کے بعد مزے لے لیکر کھایا۔
تفتیش کے بعد واضح ہوا کہ اسکی شادی تین برس قبل ہوئی، اسکے خاوند کی مالی حالت قابل رشک نہ تھی جبکہ اس کا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا۔ شادی کے بعد خدا نے اسے بیٹا عطا کیا جس کے بعد اس نے اپنے خاوند سے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنا گھر اپنی زمین چھوڑ کر اسکے باپ کے گھر منتقل ہوجائے اور اسکی زمینوں پر کاشتکاری کرے، خاوند نے کچھ عرصے سوچنے کیلئے وقت مانگا پھر اس نے ایسا کرنے سے معذوری ظاہر کی اور کہا کہ اسکے والدین اب عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں وہ انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتا، اسکے انکار کے بعد اسکے بیوی کے ساتھ تعلقات بگڑنا شروع ہوگئے۔ بیوی کی سرد مہری دیکھ کر اس نے اسے سمجھانے کی بہت کوششیں کی مگر وہ اپنی بات اور ضد چھوڑنے پر رضا مند نہ ہوئی پھر ایک روز اس عورت نے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ خاوند نے بھرپور کوششیں کی معاملہ کسی طرح سلجھ جائے مگر ایسا نہ ہوا جسکے بعد اس نے بیوی کی فرمائش کے مطابق اسے طلاق دے دی۔ دونوں خاندانوں میں تعلقات پہلے جیسے نہ رہے لیکن رابطہ برقرار رہا۔ طلاق میں رکھی گئی شرط کے مطابق خاوند نے اپنے بیٹے کی واپسی کا تقاضا کیا، بیوی نے کچھ ٹال مٹول کی پھر وعدہ کیا کہ وہ اگلے ہفتے اسے اسکا بیٹا واپس کر دے گی، مقررہ دن اور وقت پر جب خاوند اپنے بیٹے کو لینے کیلئے اسکے گھر گیا تو وہ دوپہر کا کھانا کھانے میں مصروف تھی، جب اس سے پوچھا گیا کہ بیٹا کہاں ہے تو اس نے ایک بڑے دیگچے کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں ہے، خاوند نے حیرانی سے پوچھا کہ اس بات کا کیا مطلب ہے تو بیوی نے نہایت اطمینان سے جواب دیا اسکا وہی مطلب ہے جو اس نے کہا ہے پھر اس نے دیگچے کا ڈھکن اٹھا کر اسے اسکے بیٹے کے ٹکڑے دکھائے جن کا سالن بن چکا تھا اور یہی سالن وہ روٹی کے ساتھ کچھ دیر پہلے مزے لے لیکر کھا رہی تھی۔ واقعے کی اطلاع پولیس کو دی گئی جس نے ملزمہ کو گرفتار کر لیا جس نے بعد ازاں اقرار کیا کہ وہ اپنے خاوند سے انتقام لینا چاہتی تھی لہٰذا اس نے اسکا عزیز از جان بیٹا ذبح کیا اور اسکا سالن تیار کیا۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جو منظر عام پر آیا ہے، یہ بلا شبہ ایسا واقعہ ہے، عقل انسانی جس کا تصور نہیں کر سکتی، بچے والدین کے ہاتھوں اور والدین بچوں کے ہاتھ قتل ہونے کی خبریں دنیا کے قریباً تمام ممالک سے آتی ہیں لیکن ماں کے ہاتھوں بچے کے قتل کے بعد اسکا قورمہ بنانے اور مزے لیکر کھانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
پاکستان میں خاوند کے ساتھ ناراض ہونے پر بیوی نہر میں چھلانگ لگا لیتی ہے اور اپنی جان ختم کر دیتی ہے، کبھی کبھار وہ انتہائی طیش کے عالم میں اپنے بچوں کو ساتھ لیکر ندی میں کود جاتی ہے، کبھی بچوں کو زہر دے کر خود بھی زہر کھا لیتی ہے اور کبھی نصف درجن بچے پیدا کرنے کے بعد خاوند اور بچوں سے بے وفائی کر کے کسی اور آشنا کے ساتھ فرار بھی ہو جاتی ہے، بعض واقعات میں اس نے بچوں اور خاوند کے قتل میں معاونت کی اور قانون کی گرفت میں آ کر باقی زندگی جیل میں گزاری۔ مشاہدے میں آیا کہ زیادہ تر ایسے جرائم کے پیچھے اخلاقی و جنسی بے راہ روی تھی یا معاشرتی ناہمواری، ملک بھر میں ترقی کے ساتھ جرائم کی شرح بڑھتی ہے، متمول گھرانوں میں گھنائونے جرائم سامنے آئے جہاں روپیہ پیسہ اور تعلیم موجود تھی مگر پھر بھی مرد اور خواتین جرائم کی طرف راغب ہوئے۔
جاری ماہ مئی میں سامنے آنے والی ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھی درجنوں مائوں بہنوں نے اپنے بچوں اپنے بھائیوں کو ایسے آگ کے الائو میں اپنے ہاتھوں سے دھکیلا جہاں وہ زندگی کا طویل عرصہ جلتے رہیں گے، کہنے کو تو انہوں نے فوجی اور قومی تنصیبات کو نذر آتش کیا لیکن در حقیقت انہوں نے ملک کو غیر مستحکم کرنے کے غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اپنی قومی املاک کو جلایا۔ اس قبیح فعل میں مائیں اپنے بچوں کے ہمراہ اور بہنیں اپنے بھائیوں کے ہمراہ تھیں جبکہ متعدد بیگمات اپنے شوہروں کے شانہ بشانہ اس تخریب کاری میں شریک تھیں۔ ان سب کے چہرے ریڈیوز اور تصاویر میں دستیاب ہیں۔ خواتین کے کچھ ایسے نئے نام سامنے آئے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان اپنا سر پکڑ لیتا ہے۔ ان میں کنول شوذب، ناہید، نسرین طارق جی ایچ کیو حملے میں ملوث نکلی ہیں۔ شہلا نیازی، نفیسہ خٹک، آمنہ بدر، طیبہ ابراہیم، فرزانہ، فرخندہ کوکب تحزیب کاری کے بعد اپنی جگہوں سے دوسرے ساتھیوں کو پیغامات اور لوکیشن بھیجتی دیکھی جاسکتی ہیں۔
مزید تکلیف اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان سیکڑوں خواتین میں جو تحزیب کاری کرتی نظر آئی ہیں ان میں بیشتر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امریکی، برطانوی شہریت رکھتی ہیں۔ انکے خاندان ملک سے باہر ہیں، یہ امریکی اور برطانوی شہریت رکھتے ہوئے ان لوگوں کو امریکہ و برطانیہ سے حقیقی آزادی دلانے کیلئے ہمارے پیارے وطن میں تخریب کاری کر رہی تھیں، حقیقی آزادی کا سبق انہیں پڑھایا جا رہا تھا جو نامساعد ترین حالات میں بھی پاکستان میں رہے، انہوں نے کبھی پاکستان چھوڑنے کا تصور تک نہ کیا۔
شیریں مزاری نے آخری گرفتاری کے بعد تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے، اس سے قبل وہ ضمانت پر رہا ہوئیں تو انہوں نے وکٹری کا نشان بنانے کے لیے ہاتھ بلند کرنا چاہا تو انکی بیٹی ایمان مزاری نے انکا ہاتھ نیچے کرتے ہوئے ان سے کہا کہ خدا کیلئے اب یہ سب کچھ چھوڑ دیں لیکن انہوں نے بیٹی کے نہ چاہنے کے باوجود وکٹری کا نشان بنایا، بعد ازاں انہوں نے ذاتی وجوہات کے تحت تحریک انصاف اور سیاست سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ فیاض الحسن چوہان انصافی سیاست کا کچا چٹھا بیان کرتے ہوئے پارٹی کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ گئے۔ مجموعی طور پر مختلف اوقات میں تحریک انصاف کو چھوڑنے والوں کی تعداد چالیس کے قریب ہے جبکہ آئندہ ہفتے کے دوران مزید اتنی ہی تعداد میں نامور شخصیات تحریک انصاف اور عمران خان سے علیحدگی کا اعلان کرنے والی ہیں۔ پارٹی چھوڑنے والی کسی بھی شخصیت نے وقت رخصت اپنے قائد کیلئے خوبصورت لفظوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ انہیں اور انکے فیصلوں کو ملک اور قوم کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔
تازہ ترین اور اہم ترین گرفتاری تخریب کاری میں ملوث اعلی تعلیم یافتہ اور غیر ملکی شہریت رکھنے والی خدیجہ عمر کی ہے جو انکے افعال کی ویڈیو سامنے آنے اور شناخت ہونے کے بعد سے مفرور تھیں، وہ ٹھکانے بدلتی رہیں اور اسکے ساتھ اپنی معافی کیلئے اعلی ترین سطح پر کوششیں کرتی رہیں۔ اندازہ فرمائیے وہ بھی اہل پاکستان کو حقیقی آزادی دلانے کیلئے ان جتھوں کے ساتھ امریکہ سے پاکستان آئی تھیں۔ ذرائع بتاتے ہیں انہیں کاروبار کیلئے انصافی حکومت کے زمانہ اقتدار میں بلا سود کروڑوں کا قرض دیا گیا۔ اس فہرست میں اور بھی خواتین کے نام سامنے آ رہے ہیں جو مختلف غیر ملکی این جی اوز کے پلیٹ فارم سے اس مہم کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھیں۔
خدیجہ عمر کا کیس حکومت اور اسکے ذمہ دار اداروں کیلئے ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے، انکی رہائی، ضمانت معافی کیلئے جس سطح پر رابطے کئے گئے ہیں عام آدمی اسکا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ ڈیل بھی کرنے کی کوشش ہوئی کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے لیکن آرمی ایکٹ کے بجائے کسی اور عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ ان تمام کوششوں کی ضرورت اس لئے پیش آرہی ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت مقدمے میں ثبوت موجود ہیں پس سزا سے بچائو کی کوئی گنجائش نہیں جبکہ پاکستان کے سول عدالتی نظام کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بڑے سے بڑا مجرم واردات کے بعد حتیٰ کے تین افراد کو قتل کرکے ثبوت موجود ہونے کے باوجود ہمارے قانون کی آنکھوں میں مرچیں جھونک کر وکٹری کے نشان بناتا چارٹر فلائٹ لے کر بچ نکلتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کیس کو یاد کر لیجئے۔ کوئی نیا یا خاتون ریمنڈ ڈیوس سامنے نہ آجائے، ٹیسٹ کا نتیجہ زیادہ روز نہ سہی دو ماہ کے اندر آجائے گا دیکھتے ہیں کون پاس کون فیل ہوتا ہے۔ مائیں بچے کھائیں گی یہ کبھی سوچا نہ تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button