Ahmad NaveedColumn

دی کیرالہ سٹوری .. احمد نوید

احمد نوید

انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے لاپتہ ہو کر اسلام قبول کرنے والی لڑکیوں کی کہانی پر مبنی فلم ’ دی کیرالہ سٹوری‘ بھارت میں سپرہٹ ہو چکی ہے۔ یہ فلم پانچ مئی کو ریلیز ہوئی تھی۔ فلم کا ٹریلرپانچ مئی سے چار روز قبل جاری کیا گیا تھا اور اسے بھی کروڑوں بار دیکھا گیا تھا۔
کیرالہ سے 32ہزار لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی اس فلم نے بھارت میں سیاست اور معاشرے کو بھی دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طبقہ اس فلم کو پروپیگنڈا قرار دے رہا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ اسے کیرالہ کی حقیقت بتا رہا ہے جس پر اب تک کھل کر بات نہیں ہوئی اور اس پروپیگنڈا پر بات ہونی چاہئے۔
کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے ’دی کیرالہ سٹوری‘ بنانے والوں پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ فلم ساز ’ لو جہاد‘ کا مسئلہ اٹھا کر سنگھ پریوار کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ لو جہاد‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جسے عدالتوں، تحقیقاتی ایجنسیوں اور یہاں تک کہ وزارت داخلہ نے بھی مسترد کر دیا ہے۔وزیر اعلیٰ وجین نے کہا ہے کہ فلم کے ٹریلر سے پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد ریاست کے خلاف پروپیگنڈا اور فرقہ وارانہ تقسیم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا ’ لو جہاد‘ کا مسئلہ ایسا ہے کہ اسے تحقیقاتی ایجنسیوں، عدالتوں اور یہاں تک کہ مرکزی وزارت داخلہ نے بھی مسترد کر دیا ہے۔ یہ مسئلہ اب کیرالہ کے بارے میں اٹھایا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد ریاست کو دنیا کے سامنے بدنام کرنا ہے۔ ایک بیان میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایسی پروپیگنڈا فلم اور اس میں مسلمانوں کو جس طرح دکھایا گیا ہے اسے ریاست میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی سنگھ پریوار کی کوششوں سے جوڑا جانا چاہیے۔ انہوں نے سنگھ پریوار پر ریاست کی مذہبی ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔ فلم کی ریلیز سے چند روز قبل کیرالہ کی حکمراں جماعت سی پی آئی ( ایم) اور اپوزیشن کانگریس نے اس متنازعہ فلم ’ دی کیرالہ سٹوری‘ پر تنقید کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کا مطلب معاشرے میں زہر پھیلانا نہیں ہے۔ کیرالہ قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر وی ڈی ساتھیسن کا بھی خیال تھا کہ فلم ’ دی کیرالہ سٹوری‘ کو نمائش کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
دی کیرالہ سٹوری فلم کا دعویٰ ہے کہ کیرالہ کی 32000لڑکیوں نے اسلام قبول کیا اور نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی رکن بنیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ فلم بین الاقوامی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا، حکمران سی پی آئی ( ایم) کے کیرالہ یوتھ ونگ نے بھی فلم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فلم سے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) نے اس فلم کی حمایت کی ہے۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کیرالہ کی کہانی حقیقی زندگی کی کہانیوں پر مبنی ہے۔ یہ ایک چونکا دینے والی اور پریشان کن فلم ہے۔
مالویہ لکھتے ہیں: فلم میں کیرالہ میں تیزی سے اسلامائزیشن کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح معصوم لڑکیوں کو شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا رکن بننے کے لیے پھنسایا جا رہا ہے۔ لو جہاد ایک حقیقت ہے اور یہ خطرناک ہے۔ اس خطرے کو تسلیم کرنا ہوگا۔ فلم کی کاسٹ اور پروڈیوسر نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب کو پہلے فلم دیکھنی چاہیے اور پھر اس کے بارے میں رائے قائم کرنی چاہیے۔
دوسری جانب فلم کے ہدایت کار سودیپتو سین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس فلم کی کہانی پر سات سال تک کام کیا ہے اور اس دوران انہوں نے متاثرہ لڑکیوں سے ملاقات اور انٹرویو کئے ہیں۔
ڈائریکٹر کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اصل تعداد جاننے کے لیے عدالت میں معلومات کے حق کے تحت درخواست دائر کی ہے لیکن ابھی تک رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔ اس فلم کو وپل شاہ نے پروڈیوس کیا ہے۔
پروڈیوسر وپل شاہ نے اپنی فلم کا دفاع کرتے ہوئے اسے برسوں کی تحقیق اور محنت کا نتیجہ قرار دیا۔ وپل شاہ نے کہا ہے کہ یہ فلم ایسی سچی کہانی بیان کرتی ہے جو پہلے کسی نے بتانے کی ہمت نہیں کی۔
فلم اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح بنیاد پرستی ہماری قوم کی خواتین کے لیے خطرہ ہے اور یہ انڈیا کے خلاف رچی جانے والی اس سازش کے بارے میں بیداری بھی پیدا کرتی ہے۔ فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان خواتین کا برین واش کیا گیا۔ بنیاد پرست بنایا گیا اور انھیں انڈیا اور دنیا کے دیگر ممالک میں دہشت گردی کے مشن پر بھیجا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ حربے ہیں جنہیں برسراقتدار فرقہ پرست حکمران طاقتیں بڑی چابک دستی سے استعمال کر رہی ہیں۔ بی جے پی حکمران ٹولے کے پاس عوام سے ووٹ مانگنے کے لیے کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں ہے۔ سوائے ہندو مسلم کرنے کے۔ انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں ایسے میں لامحالہ فرقہ وارانہ جذبات بھڑکا کر اکثر یتی طبقہ کو متحد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
بھارت میں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار عرصہ سے مسلم مخالف جذبات کو ہوا دینے کے لیے میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اور فلموں کا استعمال کرتا آیا ہے۔ اس وقت مین سٹریم میڈیا کہلانے والے سب چینلز حکومت کی گود میں بیٹھے ہیں۔ اس وقت حکومتی ناکامی سی متعلق بڑی سے بڑی خبر نظر انداز کی جا رہی ہے لیکن مسلم مخالف پروپیگنڈہ کے حوالہ سے رائی کو پہاڑ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
سنگھ پریوار اپنے مذموم مقاصد کے لیے فلم انڈسٹری کا بھی بھر پور استعمال کر رہا ہے۔ حقائق پر مبنی فلمیں جن میں فرقہ پرستوں کی درندگی اور مسلم مخالف فسادات کی ہولناک داستان پیش کی گئی ہو۔ جب ریلیز کی جاتی ہیں تو یہی سنگھ پریوار آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے اور اس کی سخت مخالفت کی جاتی ہے۔ جبکہ گزشتہ دنوں بی بی سی کی جانب سے گجرات فسادات کے حقائق پر مبنی دستاویزی فلم منظر عام پر آئی تو فرقہ پرستوں کی جانب سے جم کر مخالفت کی گئی اور اس پر طرح طرح کی پھبتیاں کسی گئیں، عام آدمی سے لیکر وزیر اعظم تک اس کی مخالفت پر اتر آئے۔ لیکن گجرات فسادات پر مبنی فلم کی مخالفت کرنے والا یہی فرقہ پرست ٹولہ کشمیر فائلز جیسے مسلم مخالف اور یکطرفہ حقائق پر مشتمل فلم کی خوب پذیرائی کرتا نظر آیا۔ کشمیر فائلز جو محض مسلمانوں کے خلاف اکثریتی فرقے کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے یکطرفہ حقائق کو پیش کرتی ہے۔ ( جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button