Ali HassanColumn

سیاسی نظام میں استحکام کی ضرورت .. علی حسن

علی حسن

پاکستان کے صدر عارف علوی نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ 9مئی کے واقعات کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کی نہ صرف مذمت ہونی چاہیے بلکہ ان کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے مگر کارروائی میں انسانی حقوق کا خیال رکھنا چاہیے اور مار پیٹ نہیں ہونی چاہیے اور انہیں قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے۔ صدر عارف علوی نے بتایا کہ عمران خان نے جنرل عاصم منیر کی بحیثیت آرمی چیف تقرری کی مخالفت نہیں کی تھی۔ انکا کہنا تھا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ جنرل باجوہ کو کہہ دیں جس کو بھی ادارہ آرمی چیف بنائے گا عمران اسے قبول کرے گا۔ صدر پاکستان کے اس بیان سے قبل ایک دوست نے کہا تھا کہ پرندے اڑ اڑ کر جارہے ہیں۔ پرندوں سے ان کی مراد تحریک انصاف میں شامل ارکان تھے۔ واقعی پرندے اڑ کر نئے گھونسلوں کی تلاش میں جارہے ہیں۔ پرندے نئے گھونسلے کیوں تلاش کر رہے ہیں؟ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خود کہا ہے کہ سیاسی لوگوں پر آج بہت زیادہ دبائو ہے، ہر شخص دبائو برداشت نہیں کر سکتا ہے، سمجھنے کے لئے آسان سی بات ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں پارٹیوں میں شمولیت کے لئے ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کو تلاش کرتی رہیں گی، پرندے ان کی سیاسی جماعت کو درپیش کسی بھی امتحان کی صورت میں نئے گھونسلے تلاش کریں گے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ مانوس پرندے ٹہر جاتے ہیں۔ کراچی سے منتخب رکن قومی اسمبلی علی زیدی کا یہ کہنا کہ جب عمران خان پارٹی چھوڑیں گے تو وہ بھی پارٹی چھوڑ دیں گے۔ علی زیدی جیکب آباد جیل میں ناقابل برداشت حالت میں قید ہیں۔ کراچی سے ہی منتخب صوبائی اسمبلی کے رکن فردوس شمیم نقوی کہتے ہیں کہ پارٹی سے گند صاف ہو رہا ہے۔ جو جانا چاہتا ہے، جائے، ہم بخوشی انہیں دروازے تک چھوڑ کر آئیں گے۔ پی ٹی آئی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی سے جب پی ٹی آئی چھوڑنے کا سوال کیا گیا تو انہیں نے کہا کہ کیوں نہیں چھوڑیں گے، اب کسر کیا رہ گئی ہے۔
تمام سیاسی جماعتیں اس مرض کا شکار ہو گئی ہیں کہ الیکٹ ایبلز پارٹی میں لائے جائیں اور انہیں ہی امیدوار نامزد کیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں رفتہ رفتہ انتخابات میں حصہ لینا بہت مہنگا سودا ہو گیا ہے۔ یہ ایک طرح کی سرمایہ کاری ہے۔ کوئی قطعہ اراضی خرید کر سرمایہ کاری کرتا ہے، کوئی حصص خرید کر سرمایہ کاری کرتا ہے تو کئی لوگ سیاسی جماعتوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ آزاد جموں کشمیر کے حال ہی میں وزارت عظمی کے عہدے سے فارغ ہونے والے سردار یعقوب نے تو اعتراف کیا ہے کہ انہیں نے عمران خان کے کہنے پر پارٹی میں بہت پیسے لگائے تھے۔ الیکٹ ایبلز بھی ہر پارٹی میں نہیں جاتے ہیں۔ وہ ایسی پارٹیوں کا انتخاب کرتے ہیں جن کی قیادت عوام کے لئے پر کشش ہوتی ہے۔ عوام ان کے سحر میں گرفتار ہوتے ہوں۔ جو لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں یا پارٹی میں پیسہ بنانے کے لئے یا عہدہ حاصل کرنے کے لئے شمولیت کرتے ہیں، وہ قیادت یا پارٹی سے وفادار کم ہی ہوتے ہیں۔ جب پارٹی کسی مشکل کا شکار ہوتی ہے تو پرندے اڑ ہی جایا کرتے ہیں۔ یہ تو سیاسی جماعتوں کی قیادت کے سوچنے کا کام ہے کہ کس طرح کے لوگ پارٹی میں شامل کئے جارہے ہیں یا کس طرح کے لوگوں کو ہونا چاہئے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں نظریاتی نہیں ہیں، ان میں شامل ہونے والے تو کسی بھی انداز سے نظریاتی نہیں ہیں۔ عمران خان کی پارٹی طویل عرصے تک عوام کی قبولیت کی جدوجہد کرتی رہے۔ پہلے ایک دفعہ صرف عمران خان منتخب ہو سکے تھے۔ اس کے بعد 2013سے 2018کے دوران کچھ لوگ منتخب ہو سکے تھے۔ 2018میں اتنے لوگ منتخب ہو سکے تھے جس کی وجہ سے ڈھارس بندھی تھی کہ بھان متی کا کنبہ بنا کر پارٹی اقتدار میں آجائے گی، ایسا ہی ہوا۔ اس صورت میں بھی پارٹی کو مقتدر حلقوں کی عملا ً مدد کی ضرورت تھی جس کے بعد ہی پارٹی اس قابل ہو سکی تھی کہ اقتدار میں آ جاتی اور عمران خان وزیراعظم منتخب ہو جاتے بالکل ایسا ہی جیسا ذوالفقار علی بھٹو کے وقت میں ہوا تھا۔ محمد خان جونیجو تو تھے ہی کنگ کے آدمی، بے نظیر بھٹو کو بھی بادشاہ گروں کی مدد کی ضرورت تھی ، نواز شریف کو ہر بار بادشاہ گروں کی مدد کی ضرورت رہی۔ ظفر اللہ جمالی ہوں یا شوکت عزیز، یہ تو بادشاہ کے ہی نامزد افراد تھے۔ یوسف رضا گیلانی کو پیپلز پارٹی کی سپورٹ کے علاوہ بادشاہ گروں کی مدد کی ضرورت تھی۔ ان کی قسمت زور آور تھی وگرنہ آصف زرداری نے تو مخدوم امین فہیم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ یہ مستقبل کے وزیراعظم ہیں۔ کسی مرحلے پر آصف زرداری کو ذہن میں آیا کہ جب وہ ہی بادشاہ گر ہیں تو وہ خود صدر پاکستان کیوں نہ بنیں اور ایسا ہی ہوا۔
سیاسی جماعتوں میں برائے بنام مرکزی مجلس عاملہ ہوتی ضرور ہیں لیکن اب تک دیکھا یہ ہی گیا ہے کہ وہ صرف ہاں میں ہاں ملانے کے لئے ہوتی ہیں۔ انہیں سیر حاصل بحث کے بعد فیصلہ صادر کرنی کا اختیار ہی نہیں ہوتا ہے۔ بی بی کے دور میں تو کہا جاتا تھا کہ رائے بی بی کی ہوتی تھی اور اتفاق سب کا ہوتا تھا۔ پارٹی کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ جو لوگ بھی منتخب ہو کر آتے ہیں وہ قیادت کی جانب سے نامزدگی کے بعد ہی منتخب ہوتے ہیں۔ ان کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا جائے جس پر وہ منتخب ہو سکیں اور پانچ سال پارٹی کے ساتھ رہیں تاکہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے کام کر سکیں۔ پارٹی اگر اقتدار میں آگئی تو وارے نیارے وگر نہ وہ تو اسمبلی میں رہیں گے۔ تحریک انصاف سے پرندوں کا اڑ کر جانا پاکستانی سیاست کے لئے نئی بات نہیں ہے۔ 1977ء میں مار شل لا کے نفاذ اور بھٹو کی پھانسی کے بعد پارٹی کے بڑے بڑے رہنمائوں نے وفاداریاں تبدیل کر لی تھیں۔ ممتاز بھٹو، عبدالحفیظ پیر زادہ، رفیع رضا، مبشر حسن، رائو رشید، کوثر نیازی، حنیف رامے، ملک معراج خالد وغیرہ وغیرہ تو پہلے ہی پارٹی کو خیر باد کہہ چکے تھے۔1986ء کے بعد بھٹو کے ذاتی دوست، روز اول سے پارٹی سے وابستہ، سندھ کے بڑے زمیندار، پارٹی کے وزیراعلیٰ غلام مصطفے جتوئی1988ء کے انتخابات سے قبل پارٹی کے لئے زیرو قرار پائے تھے۔ پارٹی قیادت کی نظر میں وہ مشکوک ہو گئے تھے اور پھر معتوب ٹہرے کہ وہ جنرل ضیاء الحق سے ساز باز کر کے وزیراعظم مقرر ہونا چاہتے ہیں۔
1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے لائی گئی تبدیلی کے بعد نواز لیگ کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا رہا کہ پرندے اڑ اڑ کر جارہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے ارکان پر مشتمل پیٹریاٹ گروپ کھڑا کر دیا گیا تھا جس میں فیصل حیات اور رائو سکندر اقبال و دیگر شامل تھے ۔ رائو سکندر کو تو مشرف نے وزیر دفاع مقرر کر دیا گیا تھا۔ ان کا شمار الیکٹ ایبلز میں ہوتا تھا۔ یہ1988ء میں منتخب ہو کر بے نظیر کی کابینہ میں وفاقی وزیر مقرر ہوئے تھے۔ انسان کی ذاتی ضروریات، نفسیاتی کیفیات، وغیرہ اسے سیاسی سوچ تبدیل کر دینے کے علاوہ سیاسی جماعت تبدیل کرا دیتی ہیں۔ کہیں لالچ، کہیں خوف، کبھی دھمکی وغیرہ انسان کو وفاداری تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس رویہ کو تبدیل کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اقتدار حاصل کرنے کے لئے صبر سے کام لینا ہوگا، اسی صورت میں پاکستان کے سیاسی نظام میں استحکام پیدا ہو سکے گا۔
پیپلز پارٹی میں تو قیادت نے کسی کو بھی جانشین نامزد نہیں کیا تھا حالانکہ معراج محمد خان اور ملک غلام مصطفے کھر کے لئے باقاعدہ بھٹو نے اعلان کیا تھا لیکن انہیں باضابطہ جانشین نہیں بنایا گیا۔ بھٹو کی موت کے بعد بیگم نصرت بھٹو قائم مقام جانشین مقرر ہوئیں۔ بعد میں بے نظیر بھٹو اپنی والدہ کی جگہ پارٹی کی سربراہ مقرر ہو گئیں۔ نواز شریف نے بھی آج تک اپنے جانشین کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز پارٹی کی مرکزی آر گنائزر مقرر ہو گئی ہیں۔ شہباز شریف بحالت مجبوری وزیراعظم بنا دیئے گئے۔ اگر نواز شریف کی صاحبزادی قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوتی تو وہ ہی وزیراعظم مقرر ہوتیں۔ آصف زرداری کو اعلان کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ ان کے اکلوتے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ تحریک انصاف کے ڈھانچہ میں بھی ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ کسی کو نظر آئے کہ پارٹی کی متبادل قیادت کون کرے گا۔ شاہ محمود قریشی، اسد عمر، چودھری پرویز الٰہی، چودھری مونس الٰہی یا کوئی اور۔ موجودہ حالات میں عمران خان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں حتمی بات کوئی نہیں کر سکتا۔ عمران خان کا ممکنہ نااہل ہونا، ان کو ممکنہ سزا کا سامنا، وغیرہ کی صورت میں نااہل ہونا ہو سکتا ہے۔ جب کوئی نہیں ہوگا تو پارٹی کو ختم ہونے میں کتنی دیر لگے گی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button