CM RizwanColumn

آئین سے کھلواڑ، بس کرو یار ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

پاکستان میں دو طرح کے لوگ ہمیشہ سے پائے گئے ہیں۔ ایک قسم محبان وطن کی ہے اور دوسرے ملت کے غدار ہیں۔ اس ضمن میں 1948ء سے 2023ء تک کے حالات کے تناظر میں اگر کوئی فہرست تیار کرنا ہو تو وہ بھی کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ آج گئے گزرے دور میں بھی تاریخ سب کے چہروں سے نقاب الٹنے کی سکت رکھتی ہے۔ اس تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ہر دور میں محب وطن رہنمائوں نے قربانیاں دیں اور وطن کے غداروں نے ہر موڑ پر جرائم کئے۔ وہ بھی بے نقاب ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ متعدد ججز نے بعد میں اعتراف کیا کہ نظریہ ضرورت کے تحت کئے گئے فیصلے اور بھٹو کا عدالتی قتل حتیٰ کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے والا جج ارشد ملک ( مرحوم) بھی اقرار کر کے اس دنیا سے رخصت ہوا ہے کہ اس غلط فیصلے کا اس کے ضمیر پر بوجھ ہے۔ آج عمران خان بھی اقراری ہے کہ اس نے جنرل باجوہ کے ساتھ مل کر ملک و قوم کے ساتھ جو زیادتی کی ہے وہ اس کی سب بڑی غلطی تھی۔ ابھی تو اس نے عدلیہ کے حوالے سے اپنی دو نمبری کا اقرار کرنا ہے اور آج جس جج اور عدلیہ کے لئے اظہارِ یک جہتی کی ریلیاں نکل رہی ہیں انہی کے خلاف تنقیدی اور سب و شتم والی مہم بھی کل کلاں انہی لوگوں نے چلانی ہے۔ میرے وطن کا قیام آقائے عرب و عجم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی نیک تمنائوں اور روح پرور احادیث کے تناظر میں ایک خالص عطائے ربانی کے مثل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وطن کے سادہ لوح اور مخلص عوام کے حقوق اور ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے والے ہمیشہ اعتراف جرم کر کے، نشان عبرت بن کر اور سزائیں اسی جنم میں ہی بھگت کر اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ جیسا کہ ریٹائرڈ جنرل باجوہ نے اعتراف کیا کہ اس کی سربراہی میں ادارہ نے غلطیاں کیں۔ اس نے یہ بھی ارادہ ظاہر کیا کہ آئندہ ادارہ سابقہ غلطیاں نہیں دہرائے گا۔ الحمدللہ نئی قیادت سختی کے ساتھ اصولوں پر گامزن ہے دنیاوی عدالتیں بلا شبہ تفتیش نہ کر سکیں لیکن سابقہ جرائم کی تحقیقات کا ایک نظام قدرت نے جاری رکھا ہوا ہے اور آنکھ والوں کو ان تحقیقات اور ان کے نتیجے میں سزاں کا تسلسل بھی نظر آرہا ہے اور آتا رہے گا۔ ابھی تو کشمیر کے مجرموں کو بے نقاب ہونا ہے۔ ابھی تو کئی پردہ نشین عزت والی کرسیوں پر براجمان ہیں جو بالآخر کرسیوں سے اتار دیئے جائیں گے اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گا۔ اسی تناظر میں اگر حب الوطنی اور غداری کی فہرست تیار کی جائے تو ایسے ناموں کی فہرست بھی مرتب کی جا سکتی ہے جو ایک زمانے میں تو بظاہر یا درحقیقت محب وطن تھے جبکہ بعد ازاں دوسرے زمانے میں غدار ہو گئے۔ حالات و واقعات گواہی دیں گے کہ جب یہ محب وطن تھے تو کیوں تھے اور جب غدار ہوئے تو کیونکر ہوئے؟ دونوں زمانوں کے واقعات پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ حب الوطنی والے زمانے میں وہ آئین کے خلاف کھلے عام مہم جوئی کرتے تھے اور صدارتی نظام حکومت کے قیام کے ارادے اور آئین کی معطلی کے اشارے دے رہے تھے جبکہ اب غداری والے زمانے میں وہ آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ پچھلے پانچ سال انہیں ایک دفعہ بھی آئین کی بات کرتے نہیں سنا گیا اور اب صبح و مسا ان کا ورد زباں ہی آئین کی بالادستی بن گیا ہے حالانکہ اب بھی وہ آئین کی حقیقی بالادستی کی بات نہیں کر رہے بلکہ آئین کا محض نام لے کر ایک مرتبہ پھر اپنے ادھورے پراجیکٹ کی تکمیل کے لئے اختیار کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔ آئین کی بالادستی کا مروڑ انہیں اب اس لئے اٹھ رہا ہے کہ اس میں نوے دن کے اندر اندر انتخابات کی تلقین کی گئی ہے۔ جبکہ آئین میں لکھی دیگر شقیں تو یہ بھی کہتی ہیں کہ محض اپنے اقتدار کی طوالت اور سیاسی زندگی کے لئے آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے والا وزیر اعظم آئین دشمن ہے۔ ایران جا کر اپنے ملک کی سرزمین کے ہمسایہ ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے کا اقرار کرنے والا سربراہ مملکت وطن دشمن ہے۔ آئین تو یہ بھی کہتا ہے کہ اسلامی شعائر سے نابلد اور اسلامی احکام کا باغی شخص مملکت اسلامیہ پاکستان کا حکمران یا اسمبلی کا ممبر یا امیدوار نہیں ہو سکتا۔ آئین تو یہ بھی کہتا ہے کہ انتخابی گوشواروں میں دروغ گوئی کی بناء پر اپنی اولاد کے بارے میں معلومات دینے والا امیدوار قابل گردن زدنی ہے۔ آئین تو یہ بھی کہتا ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے اپنے ملک کے حساس اداروں کے اہلکاروں پر اپنے اس قتل کا الزام لگانا جرم ہے جو ابھی ہوا ہی نہیں۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ اس جھوٹے الزام کی بنیاد پر دشمن طاقتوں کو ملک کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کا موقع مل جائے۔ آئین دراصل اجتماعی شعور سے جنم لینے والا ایک پلیٹ فارم اور دستور عمل ہوتا ہے، جس کی تعمیر و ترتیب میں ملک کے ہر طبقے کی فلاح و عافیت اور نمائندگان کی وساطت سے حقائق پر مبنی مشاورت شامل ہوتی ہے۔ اس آئین کے زیر اثر معاشرے اور زیر عمل سرزمین کو ملک یا ریاست کہتے ہیں۔ کچھ بھی ہو آئین کی بنیادی اہمیت عوام اور عوامی مفاد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اسی بناء پر اس میں لچک اور گنجائش رکھی جاتی ہے کہ حالات و واقعات کے مطابق تبدیلی، ترمیم کی جا سکے یا پھر شعوری طور پر حالات و واقعات کے مطابق اس کا درست استعمال کر کے ملکی مفاد کا حصول یقینی بنایا جا سکے لہٰذا جب آئین کی حیثیت عوامی مفاد سے بڑھا دی جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ آئین پر اشرافیہ قابض ہو چکی ہے اور چونکہ اشرافیہ کے مفادات عوام کے مفادات سے بالاتر اور بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ضرورت پڑے تو آئین کو وہ اپنے مفادات کے لئے تو استعمال کر لیتی ہے لیکن اکثر وہ اسے اپنے راستے میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ اس کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ وہ آئین کے مقابلے میں ایک بیانیہ مرتب کرے اور پھر اسے تقدس کا ایک جامہ پہنا دے۔ یہ تقدس ہی ہے جو عام لوگوں کے لئے بیانیے کو آئین سے زیادہ خوش نما بنا دیتا ہے۔ یاد رہے کہ آئین یقین ہے اور بیانیہ گمان ہے۔ آئین بندوبست کرتا ہے اور بیانیہ خواب دکھاتا ہے۔ بیانیے میں انسانی حقوق اور بنیادی انسانی ضرورتوں کا سوال ہی نہیں ہوتا جبکہ آئین میں حب الوطنی، مذہب پسندی، غیرت، شجاعت اور شہادت جیسے ماورائی حوالے ہوتے ہیں، آئین میں بنیادی سوال ہی انسانی حقوق اور بنیادی ضرورتوں کا ہوتا ہے۔ اس میں روٹی، کپڑے، تعلیم، صحت، روزگار، امن، انصاف اور خوش حالی جیسے منطقی حوالے ہوتے ہیں، جنہیں آپ دیکھ بھی سکتے ہیں اور چھو بھی سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہمیشہ سے مقابلہ بیانیے اور آئین کے بیچ ہی چلا آرہا ہے۔ اس وقت ملکی سیاست کے میدان میں تنہا ایک شخص اگر محب وطن ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ اوپر بیان کئے گئے مفروضے کے مطابق ایک نام نہاد محب وطن رہنما حقیقت میں آئین کے ساتھ کھڑا ہو جائے، یہ کیسے ممکن ہے۔ ان کے غیر سیاسی، غیر جمہوری اور غیر آئینی مزاج کو اس حوالے سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یا تو طاقت ور حلقوں کی ڈکٹیشن پر حکومت کی یا پھر ان حلقوں کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد دوبارہ پاور میں آنے کے لئے انہی حلقوں کے آگے دست سوال دراز کیا۔ اب بھی ڈرٹی ہیری اور دیگر اصطلاحاتِ کا استعمال ان کی اسی چاہ کا شاخسانہ ہے۔ ان کے جمہوری مزاج کی نوعیت یہ ہے کہ جب جنرل مشرف نے 1999ء میں منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو عمران خان نے مسرت کا بھرپور اظہار کیا تھا۔ تجربات بتاتے ہیں کہ حکومت بنانے کے لئے ان کے حصے میں وہی اتحادی آئے، جو جنرل مشرف نے اپنے لئے چنے تھے۔ کابینہ تشکیل دیتے وقت بھی انہوں نے منتخب اراکین کو یکسر نظر انداز کیا۔ کاروبار مملکت بھی بعد ازاں ایسے افراد کو سونپا، جن کا کوئی انتخابی حلقہ نہیں تھا، ان میں سے نصف کی تو سرے سے پاکستان میں رہائش ہی نہیں تھی بلکہ حکومت کے لئے بلائے گئے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اٹھارہویں ترمیم کے خلاف مہم چلائی گئی۔ محب وطن لوگ جانتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کی مخالفت ہو یا پاکستان میں صدارتی نظام کے نفاذ کی بات، یہ سب اقتدار میں عوامی شمولیت اور مشاورت سے فرار کے راستے اور ضابطے ہیں۔ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا اور مشرف نے اپنے اپنے وقت میں آئین توڑا تھا۔ آئین کا سوال اٹھا کر اِیوب خان کے مقابلے میں آنے والی مادر ملت فاطمہ جناح، بعد ازاں مرحلہ وار شیخ مجیب، ذوالفقار علی بھٹو، صمد خان، خیر بخش مری، بینظیر بھٹو، عطااللہ مینگل، ولی خان اور نواز شریف آئین کے تحفظ اور پاسداری کے لئے میدان میں اترے سبھی نشان عبرت اور غدار ٹھہرائے گئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب ان آئین دوستوں کو جرم حق گوئی پر مختلف ادوارِ میں سزائیں دی گئیں تو ان اوقات میں کچھ لوگ سازشوں کی تیز آندھیوں کی وجہ سے سمجھ نہیں پائے تھے کہ کہاں کھڑے ہونا ہے۔ وہ خلوصِ نیت کے ساتھ ’’ پاکستان کی سلامتی‘‘ کے لئے ڈکلیئرڈ محب وطن قیادتوں کے ساتھ کھڑے ہوتے رہے۔ آج جب وہ تاریخ کے جھروکے سے جھانک کر پیچھے دیکھتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ غلط سمت میں کھڑے تھے۔ ان میں سے کچھ تو اعتراف گناہ کر لیتے ہیں اور کچھ جرات اظہار سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں لیکن سمجھ سب کو لگ جاتی ہے یا لگ گئی ہے۔ آج سمجھ لگ رہی ہے کہ آئین کی رٹ لگا کر انتخابات مانگنے والوں کا آئین سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ آئین کے کھلے دشمن رہے ہیں مگر اب اس مقدس کتاب کو اپنے وقتی مفاد کے لئے بیان کر رہے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ایک جھوٹا قرآن کی قسم اٹھا کر اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک، معیشت اور سیاست جزوی انتخابات کے متحمل نہیں۔ ابھی تو بجٹ انا ہے، ابھی تو آئی ایم ایف کا طوق جو گلے میں لٹکا ہوا ہے اسے کسی حد تک ہلکا کرنا ہے ابھی تو ڈوبی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینا ہے، ابھی تو جھوٹوں کے کئی جھوٹ بے نقاب ہونے ہیں، ابھی تو جھوٹوں کی بنیاد پر ملک سے کھلواڑ کرنے والے گروہ کا حساب کتاب ہونا ہے۔ ابھی تو نواز شریف کے خلاف جھوٹے فیصلوں کی واپسی باقی ہے، ابھی تو کشمیر کا سودا کرنے والوں اور بھارت کو بیانیے کی ہمنوائی دینے والوں کو راہ راست پر لانا ہے۔ اس سے پہلے انتخابات اور انتخابات کے نام پر قوم کو ایک اور دھوکہ دینا ظلم ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button