ColumnImtiaz Ahmad Shad

معاشرتی دقیانوسی ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

ریاست مدینہ کے ساتھ ابدی تعلق قائم رکھنے کے لئے برصغیر کے مسلمانوں نے دنیا کی تاریخ کا جو بے نظیر کارنامہ سر انجام دیا وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ پاکستان کا قیام بالکل انہی اصولوں پر ہوا جن پر خرافات میں پڑے عرب میں ریاست مدینہ کا وجود قائم ہوا۔ انفرادی طور پر کی جانے والی خطائیں معاشرے کو شاید اس حد تک آلود نہیں کرتیں جتنا اجتماعی طور پر کی جانے والی غلطیوںسے معاشرہ پراگندہ ہوتاہے۔ جس معاشرے میں طاقت کا راج اور دولت معیار ٹھہریں، بداخلاقی ، بد عنوانی اور فحاشی بے پناہ دلائل کے ساتھ عروج پا جائیں، بدلحاظی، بدتمیزی اور بد گمانی کا کوئی ثانی نہ ہو اور سیاسی انا کے خول میں مقید بونی روحیں کسی مخالف کا سچ تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوں تو کوئی صورت نہیں رہتی کہ وہ معاشرہ تنزلی سے بچ سکے۔ گدھا ایک بے ضرر حیوان ہے، جس نے سماج کی بے مثال خدمت کی ہے۔ دوسری جانب شیر ایک وحشی درندہ ہے جس نے ہمیشہ انسان کو نقصان سے دو چار کر کے قتل اور زخمی کیا ہے۔ پھر بھی سماج کا دوغلا پن کہ گدھے کو نیچ اور شیر کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ طاقتور، جابر، ظالم کی قدر منزلت کرتا ہے اگرچہ ان سے نقصان کا خطرہ بھی ہو لیکن منافقت کی انتہا کہ کمزور و محکوم کی ہمیشہ تذلیل ہوتی آئی ہے۔ جو ایک بیمار معاشرے کی خوبی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان دقیانوسی روایات کے حامل معاشروں میں داخل ہو چکا۔ اسلامی اقدار کے منافی رسوم و رواج کو سینے سے لگا کے رکھا جاتا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب میڈیا میں کسی عورت ، بچے یا بچی کے ساتھ زیادتی اور اس کی بے حرمتی کا کوئی واقعہ ہونے کی تشہیر اور خبر نہ ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جس میں یہ قابلِ مذمت کام کسی فرد کے بجائے اجتماعی سطح پر ہوتا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی، جنسی اور سماجی لحاظ سے قوم لوط کا احوال بیان کر رہا ہے۔ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں صنف نازک اور معصوم بچے درندگی کا شکار نہ ہوتے ہوں۔ کوئی مکتبہ فکر اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں۔ ایک تو ویسے ہی جاگیرداری نظام میں خاندانی نام و نمود اور عزت کا انتہائی غلط تصور ان پڑھ اور کم علم عوام کو یہ ترغیب دیتا ہے کہ ان کی بہو بیٹیوں کے ساتھ اگر اس طرح کی زیادتی کے واقعات ہوں تو وہ پولیس اور قانون کی دہائی مت دیں، ان سے مدد نہ طلب کریں کیونکہ ایسا کرنے میں خاندان کی ناک کٹ جائیگی، بدنامی ہوگی اور برادری والے تھو تھو کرینگے، جبکہ دوسری طرف پڑھے لکھے اور باشعور لوگ اپنے پیشے کی ناموس کی خاطر غلط کاری کرنے والے کی تشہیر اس وجہ سے نہیں ہونے دیتے کہ معاشرہ ان کے پیشے کو برا نہ تصور کرے۔ جب کہ اسلام کا تو سب سے بنیادی فلسفہ بھی یہی ہے کہ غلط کو غلط کہا جائے، ظالم کے بجائے مظلوم کا ساتھ دیا جائے مگر افسوس ہمارا معاشرہ اس سے عاری ہو چکا۔ یہ کہتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے، بہت دکھ ہوتا ہے، لیکن ایسے واقعات یہ کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ ایسے معاشرہ پر خدا کیوں رحم کھاءے گا یا اس پر اپنی رحمتیں نازل کرے گا جس کے افراد کے اعمال درندوں جیسے ہوں؟ قرآن میں ان معتوب امتوں کا بار بار ذکر کیا گیا ہے جنہیں اللہ نے ان کے اعمال فاسق کے نتیجے میں تباہ و برباد کر دیا اور ان کے ناپاک وجود سے اپنی زمین کو پاک کردیا۔ اس عمل کو صرف جہالت سے معنون نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری نہیں کہ جو جاہل ہو، علم سے محروم ہو، وہ ایسا کرتا ہے۔ یہ درندگی ہے، بہیمت ہے، انسانی اقدار کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے جو ایسے جانوروں سے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کرواتا ہے۔ ایسے جرائم کی ذمہ داری صرف ان مجرموں پر ہی عائد نہیں ہوتی جو ان میں ملوٌث ہوتے ہیں بلکہ یہ اس معاشرہ کے اجتماعی جرائم کی صف میں شمار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ایسے بدکرداروں کو مختلف تاویلوں کے ذریعے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے قرآن پاک میں فرما دیا تھا کہ ’’ ہم نے اس بستی کو صریح عبرت کی نشانی بنا دیا، ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں‘‘۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اور لوط کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ‘‘ تم بے حیائی ( کے کام) کیوں کرتے ہو؟ کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت ( حاصل کرنے) کے لیے مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو‘‘۔ یہ بات بھی کسی المیے سے کم نہیں کہ عورت کے پردے کی بات کی جائے تو نام نہاد لبرل میدان میں اتر آتے ہیں، اگر بدکرداروں کو سزا کی بات کی جائے تو یہ انسانی حقوق کے علمبردار بن کر ابھر آتے ہیں جب کہ مذہبی طبقے کو ایسے کرداروں کی نشاندہی کی جائے تو وہ اسلام کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کینسر جیسا مرض اگر جسم کے ایسے حصے میں ہو جسے کاٹ کر جان بچائی جا سکے تو ہرگز تامل نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کی روح او ر پاکستانی معاشرے کے امیج کو بچانے کے لئے اگر ایسے لوگوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے تو اس گناہ کبیرہ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے آدھا تیتر آدھا بٹیر ٹائپ کا معاشرہ کبھی اس عروج کو نہیں پا سکتا جس کا خواب ہمارے آباء نے دیکھا۔ یقینی بات ہے کہ ہمیں اسلامی حدود کو اپنانا ہو گا ورنہ ایسے تماشے روز دیکھنے کو ملیں گے۔ بدقسمتی سے ہم نے نہ تو حقوق اللہ کی پاسداری کی اور نہ ہی حقوق العباد کا خیال رکھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج وطن عزیز میں اللہ کی برکت اور رحمت کا نزول ناپید نظر آتا ہے۔ ماہ رمضان ہے ہم دوسرے عشرے میں داخل ہو چکے۔ اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کی جائے، غلط کو غلط اور درست کو درست کہا اور مانا جائے، انصاف کو ہر حال میں قائم کیا جائے۔ خواتین کی حرمت کا خیال رکھا جائے اپنی نوجوان نسل کی تربیت کر کے آنے والی نسلوں کو محفوظ کیا جائے۔ یہ ہماری بدبختی ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں ہماری مائیں بہنیں مفت آٹا حاصل کرنے کے لئے لمبی قطاروں میں لگی بے بسی کی تصویر بنے گھنٹوں کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ ماہ رمضان میں ہم صدقہ و خیرات دل کھول کر کرتے ہیں جو کہ نہایت اچھی بات ہے، مگر جس انداز سے افراد کو اکٹھا کے کے مرد و زن کا اجتماع کیا جاتا ہے، دھکم پیل میں خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے وہ نہایت دلخراش ہے۔ چند ایسے واقعات ہیں جو رمضان شریف میں راشن کے لئے مختلف علاقوں میں آنے والی خواتین کے ساتھ پیش آئے جس سے معاشرے کی درندگی واضح نظر آئی۔ فحاشی یا بے حیائی کا مطلب صرف بے لباس ہو کر گلیوں میں آنا نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد وہ سوچ ہے جو کسی بھی معاشرے کو گندا اور بیمار کرتی ہے۔ یاد رہے بربادی ان معاشروں کا مقدر ہوا کرتی ہے جہاں اپنی تسکین کے لئے کمزوروں کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ایسے معاشرے بیمار معاشرے کہلاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button