Columnمحمد مبشر انوار

محاذ آرائی کا آخری رائونڈ! ۔۔ مبشر انوار

محمد مبشر انوار( ریاض)

جمہوری روایات کے مطابق، سیاستدانوں سے ہمیشہ یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ بدترین حالات میں بھی اپنے لئے، اپنے ملک و قوم کے لئے دستیاب حالات میں بہترین نتائج کشید کرنے والے لوگ تصور کئے جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک ملک و قوم کا مستقبل، ان کے ذاتی مفادات سے کہیں اعلیٰ و ارفع ہوتا ہے، حصول اقتدار کے لئے، حقیقتا ’’ ووٹ کو ترجیح‘‘ دیتے ہیں اور بدترین حالات میں بھی ان کی نظر بہتر مستقبل پر رہتی ہے۔ اصولوں پر محاذ آرائی اور فقط حصول اقتدار کے لئے محاذ آرائی میں واضح فرق ان کے لائحہ عمل میں نظر آتا ہے، کردار کشی کی بجائے اپنے وژن اور نظریات کی بنیاد پر اپنی مقبولیت کو یقینی بناتے ہوئے سیاست کو ایک ادارہ بنا دیتے ہیں، جس میں موروثیت نام کی چیز کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی حالات اس کے برعکس رہے ہیں اور ماسوائے بابائے قوم کہ جنہوں نے پاکستانی سیاست میں موروثیت کو روز اول ہی پنپنے سے روکنے کی کوشش کی، تاہم بعد ازاں پاکستانی سیاستدانوں نے اس امر کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا بلکہ موروثیت کو فروغ دینے کے لئے ہر ممکن کوششیں کی ہیں۔ جس کی خاطر، قوم کو تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے دور رکھا تا کہ عوام میں شعور ہی بیدار نہ ہو سکے اور وہ اپنے حقوق کو جان ہی نہ سکیں کہ ان کے حقوق ہیں کیا مبادا یہ کمی کمین، حشرات الارض کہیں اپنے نمائندہ وڈیروں، جاگیرداروں کے مقابل بیٹھنے کا حق ہی نہ مانگ لیں یا کم از کم اپنے دئیے ہوئے ووٹ پر سوال نہ اٹھا سکیں کہ ان منتخب نمائندوں نے عوام کے لئے کیا کیا ہے؟۔ عوامی حقوق کو سلب کرنے کے لئے آمروں کیا مشہور زمانہ لقب ’’ بلڈی سویلین‘‘ نے عوام اور اس کے نمائندوں کو نہ صرف پسپائی پر مجبور کیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کو شعور و طاقت و اختیار کے حوالے سے آج تک احساس کمتری میں مبتلا کئے رکھا ہے۔ انہوں نے ایک ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ کسی بھی صورت حقیقی عوامی طاقت پنپ ہی نہ سکے، اس کا ثبوت ایک طرف ایبڈو ایکٹ ہے تو دوسری طرف شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ آمروں کا رویہ رہا ہے کہ کس طرح انہیں ایک عبرتناک مثال بنا دیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمان کا بنگلہ دیش، آج ’’ بلڈی سویلین‘‘ کی زد سے نکلنے کے بعد، آمروں کی تضحیک و تذلیل سے آزاد ہونے کے بعد، جمہوری و معاشی لحاظ سے، موجودہ پاکستانیوں کے ’’ بلڈی سویلین‘‘ رہنے کے باوجود، عالمی سطح پر کہیں آگے جا چکا ہے، وہاں جمہوریت بھی اپنی جڑیں پختہ کر چکی ہے، جبکہ آمروں کو ان کی آمریت سمیت دفن کیا جا چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی سیاسی شطرنج پر ہنوز عقل کل کے دعویدار قابض ہیں اور مسلسل اپنے تجربات کرتے جا رہے ہیں، عوام کو کسی بھی صورت آزادی دینے کے حق میں نظر نہیں آتے اور نہ انہیں معاشی آزادی دینا چاہتے ہیں، اپنی ناگزیریت کو ثابت کرنے کے لئے غلطیوں پر غلطیاں کرنے پر اصرار جاری ہے، جس کا نتیجہ یقینا پاکستان کے حق میں نہیں نکلے گا لیکن انہیں اس کی کوئی پروا نظر نہیں آتی۔ جنرل ضیا کے دور میں اتنا ضرور ہوا کہ مسلسل عوامی دبائو کے نتیجہ میں تجربے کا رخ تھوڑا سا تبدیل ہوا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ کسی طرح پیش منظر میں ایسا عوامی چہرہ رکھا جائے جو نہ صرف پاکستانیوں کے لئے بلکہ عالمی برادری میں بھی قابل قبول ہو جبکہ اس کے لگام بہر طور مقتدرہ کے ہاتھ میں رہے۔1986ء میں محترمہ بے نظیر کی وطن واپسی پرگو جنرل ضیا معترض رہے لیکن وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اس کی پروا نہ کی اور ملک میں جمہوری عمل کو پروان چڑھانے کی اپنی کوشش جاری رکھی، سندھڑی کے اس روادار، وضع دار اور سیاسی رموز کو سمجھنے والے سیاستدان پر پنجاب کے ایک ’’ تاجر‘‘ کو ترجیح دی گئی۔ ضیا دور میں اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر، لسانیت و فرقہ واریت کو فروغ دینے کے باوجود جب جان سمیت اقتدار بہاولپور کی مٹی میں بکھر گیا، تب جانشینوں نے اس تاجر کو ’’ جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا بدترین متعصب نعرہ دے کر پاکستانیت کو مزید کاری ضرب لگانے کی کوشش کی۔ قوم نے اس وقت اس متعصب نعرے کو زیادہ اہمیت نہ دی لیکن جانشینوں نے بے نظیر کو انتخابات میں اتنی بھی اکثریت نہ لینے دی کہ کسی طرح وہ بیساکھیوں سے جان چھڑا کر حکومت سازی کر سکتی۔ تاجر سیاستدان اس وقت مقتدرہ کے سیاسی پالنے میں اپنا سبق یوں یاد کرتا نظر آتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مخالفین کی کردار کشی بڑے زور شور سے کرتا ہے بلکہ حکومتی آداب سے نابلد کسی بھی طور وفاقی حکومت سے ورکنگ ریلیشن شپ بنانے کے لئے قطعی آمادہ نہیں کہ اسے بخوبی علم ہے کہ اقتدار کی ’’ اصل غلام گردشوں‘‘ میں اس کے سہولت کار موجود ہیں، جو اسے بچانے کی اہلیت و طاقت رکھتے ہیں۔ تا ہم بعد ازاں یہی تاجر سیاستدان بالآخر اس وقت اپنے سابقہ روئیے پر پشیمان نظر آتا ہے جب اسے بھی بعینہ اسی طرح اقتدار سے باہر کیا جاتا ہے جیسا کہ پیپلز پارٹی کو کیا جاتا رہا تھا، تب بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہاتھ ملا کر اپنے لئے ممکنہ طور پر اقتدار کے راستے ڈھونڈتا ہے۔ اس عمل میں بے نظیر کو شہید کر دیا جاتا ہے جبکہ تاجر کے لئے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے لئے پھر پیپلز پارٹی راستہ ہموار کرتی ہے، محاذ آرائی کا چمپئن یہاں بھی پیپلز پارٹی کو دھوکہ دینے سے باز نہیں آتا اور مسلسل پیٹھ میں چھرا گھونپتا نظر آتا ہے۔ ’’ جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ گو کہ سندھ کے سیاستدانوں کے خلاف لگا کر اس تاجر کو بطور پنجابی سیاستدان کے طور پر قابل قبول بنانا تھا، جس کے لئے اسے ہر طرح کی آزادی دی گئی، پیپلز پارٹی کو پنجاب سے ختم کرنے کے لئے نہ صرف اداروں میں قواعد و ضوابط کے خلاف بھرتیاں کی گئی بلکہ ذاتی وفاداریوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے آئینی اداروں میں منظور نظر افراد کو نوازا گیا تاوقتیکہ وہاں کے قواعد و ضوابط تبدیل نہیں ہو گئے۔ رہی سہی کسر زرداری کی مفاہمانہ پالیسی سے پیپلز پارٹی پنجاب میں بالکل ختم ہو گئی لیکن یہاں زرداری کو داد نہ دینا زیادتی ہو گی کہ ایک ایسے کھیل میں بنیادی کردار یوں ادا کیا کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں بکھرتی نظر آ رہی ہے، ویل ڈن زرداری۔ اس دوران نہ صرف تاجر نے بلکہ اس کے خاندان نے ملکی وسائل کو بھرپور طریقے نچوڑا، عوامی و ملکی وسائل کو عالمی اداروں کے سامنے گروی رکھتے ہوئے، ذاتی تجوریوں کو بھرا جبکہ عوامی و ملکی مسائل کا انبار لگا دیا، عوام کو تعلیم و صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا اور اقتدار کی غلام گردشوں میں خود کو قابل قبول رکھنے کے لئے، انہی کے پڑھائے ہوئے سبق پر عمل کرتے ہوئے محاذ آرائی بھی جاری رکھی۔ یہی سیاسی وراثت اپنی اولاد کو بھی منتقل کی جس کا مظاہرہ آج پاکستان کے سیاسی افق پر بخوبی دیکھا جا سکتا ہے البتہ کردار کشی کے طریقہ کار میں ٹیکنالوجی کے باعث واضح تبدیلی دیکھنے کو ضرور ملی ہے۔ سیاسی وراثت بہر طور عملا بھائی کو منتقل ہو چکی ہے کہ حالات و واقعات یہ بتاتے ہیں کہ خواہ ووٹ تاجر کا ہے لیکن بھائی کا رویہ نسبتا زیادہ فدویانہ ہے لہذا اقتدار بانٹنے والوں نے بھی دست شفقت بدل دیا ہے، جس میں فریقین بظاہر خوش و مطمئن نظر آتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں اصل حقیقت اسی فدویانہ روئیے کی ہے کہ جو زیادہ سے زیادہ خدمت گزار ہو سکتا ہے، اقتدار کے پالنے میں اسے جھولا جھلایا جا سکتا وگرنہ مسئلہ اگر سندھ یا بلوچستان یا کے پی کے سیاستدانوں کا ہوتا یا ایسے فدوی سیاستدان چھوٹے صوبوں سے میسر ہوتے تو انہیں بھی اقتدار کا جھولا دیا جا سکتا تھا یا اگر پنجاب کو جگانا ہی مقصود تھا تو عمران خان نہ صرف پنجاب سے ہے بلکہ تاجر سیاستدان سے کہیں زیادہ حقیقتا عوام میں مقبول ہے، اسے بھی قبول کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا ہونا ممکن صرف اس لئے نہیں کہ معاملہ قطعا صوبوں کا نہیں بلکہ تابعداری کا ہے۔ بہرحال اس وقت یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ ایک طرف اقتدار کے رسیا اپنے فدویانہ روئیے پر اقتدار کے خواہشمند ہیں تو دوسری طرف حقیقی عوامی رہنما اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر اقتدار کے خواہاں ہیں، جبکہ تیسری طرف محاذ آرائی کے چمپئن اپنی آخری اننگز کھیلتے نظر آتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button