Editorial

غریب عوام کے مصائب میں کمی لائی جائے

ملک عزیز میں پچھلے 5سال سے بدترین مہنگائی کا دور دورہ ہے۔ گرانی میں ریکارڈ اضافے ہوتے رہے جب کہ محنت کش طبقے کی آمدن وہی پُرانی رہی، جس سے اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔ سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث بدترین مہنگائی کا سیلاب آیا، جس سے اشیاء خورونوش کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ سابق حکمراں عوام کے لیے ’ گھبرانا نہیں ہے‘ کے راگ الاپتے ہوئے ملکی معیشت کا بیڑا غرق کرنے میں لگے رہے۔ وسائل کو بروئے کار لانے کے بجاءے قرض در قرض پر انہوں نے اکتفا کیا۔ کروڑ نوکریاں دینے کے دعوے کرنے والوں کی عوام دشمن پالیسیوں کے باعث لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا عذاب جھیلنا پڑا۔ ملکی معیشت کے ساتھ سنگین کھلواڑ کیے گئے۔ پاکستانی روپے کو تاریخ کی بدترین بے وقعتی کی کھائی میں دھکیلا گیا۔ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو بگاڑا گیا، اُنہیں ناراض کیا گیا، پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی مذموم سازش رچائی گئی۔ سب سے بُرا وار اس حکومت نے غریب عوام پر مہنگائی کا بدترین عذاب مسلط کرکے کیا۔ مہنگائی کو دعوت دینے کے اقدامات تواتر کے ساتھ کیے جاتے رہے۔ غریبوں کے ساتھ سنگین مذاق کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ سفید پوش طبقے کو غربت کی لکیر کے نیچے دھکیل دیا گیا۔ پچھلے پانچ سال میں غربت اور بے روزگاری کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافے دیکھنے میں آئے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر محنت کش طبقہ ہوا، جس کے لیے آج زیست کسی عذاب سے کم نہیں، اُس کے لیے اپنے گھر کا معاشی نظام چلانا ازحد دُشوار گزار بنادیا گیا۔ بچوں کو تعلیم دلائے، بجلی اور گیس کے بھاری بھر کم بل بھرے یا اپنا اور اپنوں کا پیٹ۔ اُس کی قلیل آمدن پلک جھپکتے تتر بتر ہوجاتی ہے۔ وہ روز نئی آس کے ساتھ مزدوری کرتا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اُس کے حالات مزید ابتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔وزیراعظم میاں شہباز شریف کو غریب محنت کش کے مصائب اور آلام کا بخوبی ادراک ہے۔ وہ غریبوں کا دُکھ درد سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہ ان مصائب میں کمی لانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مہنگائی کے باعث محنت کش طبقہ معاشی طور پر شدید دبا میں ہے، عالمی منڈیوں میں اُتار چڑھائو نے محنت کش طبقے کی معاشی مشکلات میں شدید اضافہ کیا۔ ترقی کی عمارت کی تعمیر کرنے والوں کو ثمرات سے محروم رکھا گیا تو یہ عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں شہباز شریف نے کہاکہ آج جب کہ ہم محنت کشوں کے عالمی دن پر انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی منڈیوں میں اُتار چڑھائو نے محنت کش طبقے کی معاشی مشکلات میں شدید اضافہ کیا ہے، اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے وہ معاشی طور پر شدید دبا میں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مزدوروں کے حقوق کو پورا کرنا اور ان کو معاشی ترقی میں حصہ دار بنانا میرے خیال میں عالمی معیشت کے لیے ایک بنیادی چیلنج ہے۔ مزید برآں وزیراعظم نے بارشوں کی صورت حال پر وفاقی و صوبائی اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے عوام سے احتیاطی تدابیر اپنانے کی اپیل کی ہے۔ موجودہ حکومت ملکی معیشت کی بحالی کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کر رہی ہے۔ اُسے چند مشکل فیصلے بھی کرنے پڑے ہیں، جن کے باعث مہنگائی میں ہوش رُبا اضافہ ہوا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ رواں برس کے تیسرے مہینے بھی جاری رہا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں امسال مارچ میں مہنگائی کی شرح میں 35.37فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو گزشتہ پچاس برسوں میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔ یہ اعداد و شمار تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہء فکریہ ہیں۔بلاشبہ اس وقت غریبوں کے لیے زندگی کو گزارنا انتہائی کٹھن اور دشوار ہے۔ مذکورہ بالا حقائق کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت محنت کش طبقے کی زندگی کو سہل بنانے کے لیے موثر حکمت عملی ترتیب دے۔ اُن کے مسائل اور مشکلات میں کمی لائی جائے۔ اس حوالے سے راست اقدامات ممکن بنائے جائیں۔ معیشت کی بہتری کے ساتھ غریب عوام کی فلاح و بہبود پر بھی خصوصی توجہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مانا حکومت کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں، لیکن غریبوں کی مشکلات بھی کسی طور نظرانداز کیے جانے کے قابل نہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقدامات ممکن بنائے۔ آٹا، چینی، چاول، دالوں اور دیگر اشیاء خورونوش کے نرخوں میں معقول کمی یقینی بنانے کے لیے کوششیں کی جائیں۔ غریبوں کی آمدن بڑھانے کے لیے سوچا جائے۔ اس حوالے سے آج کی مہنگائی کے تناسب سے اُن کی کم از کم تنخواہ کا ناصرف تعین کیا جائے، بلکہ اُس پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔ مجوزہ پٹرول سکیم کو جلد از جلد رواج دیا جائے تاکہ خلق خدا کی بڑی تعداد اس سے مستفید ہوسکے۔ اس سے اُن کے کچھ دلدر دُور ہوسکیں گے۔ سستے آٹا، چینی، چاول، دالوں، دودھ، پتی اور دیگر اشیاء کی فراہمی سے اُن کے کئی مصائب کا حل برآمد ہوگا۔ حکومت کو اس جانب بلاتاخیر قدم بڑھانے چاہئیں۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ہونے کے ساتھ غریب محنت کشوں کے لیے بھی خوش گوار ہوا کا تازہ جھونکے ثابت ہوں گے۔

بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات
والدین ذمے داری دکھائیں

بچوں کو پھولوں سے تشبیہہ دی جاتی ہے، ان کے دم سے کائنات کی رونق ہے، دُنیا کے رنگ انہی کی مسکراہٹ کے دم سے ہے۔ وہ معاشرے کسی طور بہتر نہیں ٹھہرائے جاسکتے، جہاں معصوم پھولوں کو مسلنے اور بُری طرح روندنے کی روایت مضبوط ہوں۔ پاکستان میں عرصۂ دراز سے معصوم پھولوں کے حوالے سے صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ آئے روز ان کو مسلنے اور ان سے ان کی معصومیت چھین لینے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان معصوموں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات تواتر سے پیش آتے رہتے ہیں۔ یہ امر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ ہمارے سماج میں ایسے سفاک اور درندہ صفت عناصر بھی پائے جاتے ہیں، جو معصوم پھولوں پر جنسی تشدد کرنے کی ناپاک حرکت کرنے میں ذرا بھی تامل کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یہ معاشرے میں عزت کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور معصوم بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کا گھنائونا کھیل کھیلتے ہیں۔ اُن کو ڈرا دھمکا کر رکھتے ہیں وہ ان باتوں کو راز میں رکھیں، ورنہ انہیں سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ اس حوالے سے تازہ اعداد و شمار خاصے ہوش رُبا ہیں۔ پچھلے برس 4 ہزار 2 سو سے زائد بچوں کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں جنسی تشدد کے واقعات پیش آئے۔ اخباری اطلاع کے مطابق بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کی سال 2022 کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی جاری کردہ رپورٹ ’’ظالم اعداد’’ کے مطابق 4253 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، سال 2022 کے دوران 2325 بچیاں جب کہ 1928 بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے، رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادی کے 46 واقعات جب کہ 3 واقعات میں بچیوں کو ونی کیا گیا۔ 55 بچوں اور بچیوں کو مدرسہ جات میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ تو صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے اور منظرعام پر آگئے، اس سے کتنی ہی زیادہ تعداد میں وہ واقعات بھی ہیں، جو رپورٹ نہ کیے جاسکے اور پوری قوم سے پوشیدہ ہیں۔ مذکورہ بالا اعداد و شمار کو انتہائی تشویش ناک ٹھہرایا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ معاشرے میں پھولوں کو مسلنے کی اس گھنائونی ریت کو توڑنے کے لیے سنجیدہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ حکومت اس ضمن میں سخت ترین قانون سازی کرے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ معصوم پھولوں کے ساتھ گھنائونا کھیل کھیلنے والوں کو کسی طور بخشا نہ جائے، بلکہ عبرت کا نشان بنادیا جائے، تاکہ آئندہ کوئی اس قسم کی ناپاک حرکت کرنے کا تصور بھی نہ کر سکے۔ اس کے علاوہ والدین کو بھی اپنے معصوم پھولوں کو درندہ صفت اور سفاک لوگوں کے شر سے بچانے کے لیے اُن پر ہر وقت کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اُن کی ہر حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھی جائے۔ اس معاملے میں واقف کاروں اور رشتہ داروں پر بھی ہرگز بھروسہ نہ کیا جائے کہ ایسے کیسز میں اکثر ملزم انہی میں سے کوئی ہوتا ہے۔ بچوں کے دوستوں اور میل جول رکھنے والوں کا بغور مشاہدہ کیا جائے۔ بچوں کو والدین کی جانب سے مکمل تحفظ فراہم کردیا گیا تو ضرور بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں خاطرخواہ کمی ممکن ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button