ColumnTajamul Hussain Hashmi

اب ہونا کیا چاہئے .. تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی

تعلیم نظام میں بہتری، نظام صحت اور روزگار کی فراہمی سے ملکی معیشت میں بہتری ممکن ہے، تین کام پورے معاشی صورتحال کی عکاسی ہیں ، لوگ مجموعی ملکی پیداوار ( جی ڈی پی ) کی کہاں سمجھ رکھتے ہیں۔ جنہوں نے شعبہ کامرس سے تعلیم حاصل کی ہو وہ حکمرانوں کی پالیسیوں کو سمجھتے ہیں، معاشی سرکل کو سمجھنا عام آدمی کے لیے آسان نہیں اور اگر معاشی پالیسیاں سیاست زدہ ہوں تو مجموعی ملکی پیداوار میں اضافہ انتہائی مشکل ہوتا ہے، سیاست سے پاک معاشی نظام ملکوں کو بیرونی قرضوں سے نجات دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسی کوئی سیاسی جماعت نہیں جس نے غیر سیاسی بنیادوں پر معاشی پالیسی مرتب کی ہو۔ جی ڈی پی کی گروتھ ملک کے لیے اتنی اہم کیوں ہے اس حوالے سے ہم نے بحریہ کالج کے شعبہ کامرس کے ڈیپارٹمنٹ ہیڈ اسسٹنٹ پروفیسر منور علی سے رابطہ کیا اور موجودہ معاشی صورت حال اور جی ڈی پی کی گروتھ کے حوالہ سے حکومتی کردار اور جاری پالیسیوں پر تبادلہ خیال کیا ۔ جی ڈی پی کی گروتھ کے حوالے سے کہنا تھا کہ جی ڈی پی کو انتہائی سادہ الفاظ میں سمجھا جا سکتا ہے ’’ کسی بھی ملک میں ایک سال میں پیدا ہونے والی قابل استعمال یعنی فننشنگ گڈز مصنوعات؍ اشیا کو جی ڈی پی کہتے ہیں‘‘ یہ بہت سادہ اور آسان تعریف ہے جو قابل فہم ہے، 2022کے ڈیٹا کے مطابق جی ڈی پی 376.49بلین ڈالر تھی، 1965میں جی ڈی پی کی سالانہ گروتھ 10.42 فیصد اضافہ دیکھا گیا ،1970میں گروتھ 11.35فیصد رہی ، اس کے بعد ملکی پیداوار میں اضافہ کے لیے ملکی انڈسٹری کو سبسڈی دی جانے لگی تاکہ دنیا کا مقابلہ کریں اور ایکسپورٹ میں اضافہ ہو
جی ڈی پی میں کتنے فیصد اضافہ ہوا یہ سب کے سامنے ہے لیکن حکومت کی طرف سے سبسڈی ابھی تک جاری ہے، کیا حکومت انڈسٹریل سیکٹر کو مراعات دے کر پیداوار میں اضافہ کروانے میں کامیاب رہی۔ کیا حکومت گندم چینی پر سبسڈی دے کر غربت ختم کر سکی ؟ احساس پروگرام پر اربوں خرچ کئے گے ہیں عوام کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی ؟ یقینا ایسی سیاسی پالسیوں سے تبدیلی نہیں اے گی بلکہ لوٹ مار میں اضافہ ہی نظر آئے گا، افراد کی quality of life میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ وزیر مملکت مصدق ملک خود حکومتی پالیسی پر تنقید کر رہے تھے، کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے کوئی مہارت حاصل نہیں کی اور نہ ہی بجلی پیدا کرنے میں مہارت حاصل ہوئی، ٹیکسٹائل انڈسٹری 400فیصد منافع کما رہی ہے۔ گیس پر سبسڈی لے کر اپنا منافع کما رہی ہے۔ لیکن ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوا۔ میں نے تو پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ سبسڈی کو ختم کریں اور اسی پیسے سے چھوٹی صنعتوں کو متعارف کروائیں، نئے طریقوں پر کام کرنا ضروری ہے ملک اب ایسے نہیں چلے گا، نوجوان نسل کی ایک فوج بے روزگار کھڑی ہے، یہ طوفان کسی سیاسی جماعت کو کھڑا نہیں رہنے دے گا۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے روڈز اور موٹر ویز کی تعمیر کے نعرے ایک لمبے عرصے سے سن رہے ہیں لیکن عوامی شعور میں کمی رہی کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اجناس کی مندی تک رسائی بہت ضروری ہے اس کے لیے روڈز کا جال صرف پنجاب میں بچھایا گیا لیکن شعبہ زراعت میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی، کاشتکاری کا پرانا نظام ، کوئی ریسرچ انسٹیٹیوٹ نہیں بنائے گئے، قبضہ مافیا زرعی زمین خرید کر سوسائٹیاں بناتا جا رہا ہے، شعبہ زراعت ہی سے ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے جو کہ اب روک گیا ہے، روڈز کی تعمیر صرف نعروں کے لیے استعمال ہوتی رہی اربوں روپے کا سالانہ بجٹ روڈز کی تعمیر پر خرچ ہوتا رہا لیکن انڈسٹریل سیکٹر اور شعبہ زراعت پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں رہی، گندم میں خود کفیل پاکستان آج گندم امپورٹ کر رہا ہے، دنیا بنجر زمینوں کو کاشتکاری کے لیے آباد کر رہے ہیں اور ہمارے ہاں قبضے کروا کر سوسائٹیاں آباد کروائی جا رہی ہیں، ان ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں روزگار کی کمی ہے، روزگار کی عدم فراہمی سے عوام میں بچت کا فقدان ہے، بچت نہ ہونے سے مزید نئے کاروبار ممکن نہیں رہے، سیاست دانوں کی پلاننگ میں نیشنل انٹرسٹ کی بہت کمی رہی ملک میں ان پراجیکٹس پر کام کیا گیا جو کچھ عرصہ بعد ملکی مفاد میں مہنگے ثابت ہوئے ، رینٹل بجلی گھر جیسے منصوبوں ملکی نقصان کا واضح ثبوت ہیں، بجلی کے کارخانے آئل اور امپورٹڈ کوئلے پر لگائے گئے، ونڈ اور پانی سے بجلی پیدا کرنے والے پراجیکٹ پر کام نہیں کیا گیا، پراجیکٹ کی فزیبلٹی پر سالوں ضائع کئے گئے ہیں۔ زیر تعمیر پراجیکٹ سیاست کی نذر ہوئے، ان کی لاگت میں اربوں روپے اضافہ ہوا قوم کو برداشت کرنا پڑا۔ ملکی انڈسٹری، شعبہ زراعت کو نقصان کا سامنا ہے، مشرف دور میں زمینوں کی قیمتوں میں اضافہ سے ملک میں دولت کی تقسیم میں اضافہ ہوا، حکومت وقت اس کو ترقی سمجھتی رہی، سرکاری ادارے لوٹ مار سے مال بناتے رہے، نیب میں دو طرح کے کیس رجسٹر ہیں ، زمینوں کی لوٹ مار اور دوسرے سرکاری خزانہ کی لوٹ مار، قومی نہیں ذاتی مفادات میں ان شعبوں کو پروان چڑھایا گیا جو ویلیو ایڈڈ نہیں تھے، ٹیکنالوجی منسٹر کی کوئی پلاننگ نظر نہیں آئی ٹیکنالوجی سے ڈالر کمانے کے بجائے زمینوں پر انویسٹمنٹ ہوتی رہی، جب ملک کا ٹرینڈ ایسا سیٹ کر دیا جائے گا تو پھر کاروباری تاجر نے بھی اپنے سرمایہ انڈسٹری سے نکال کر رئیل اسٹیٹ میں انویسٹ کرتا رہا، رئیل اسٹیٹ سیکٹر ملک کے چند لاکھ افراد کی دولت میں اضافہ کرتا رہا لیکن جی ڈی پی کی سپورٹ کے دونوں بڑے شعبوں کو کمزور کر رہا ہے، زراعت کے شعبہ سے وابستہ افراد اپنی زمینوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ ملک کو اجناس امپورٹ کرنا پڑھ رہا ہے، ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، جس سے ملکی جی ڈی پی کمزور ہو رہی ہے ، شعبہ زراعت سے وابستہ خواتین بھی جی ڈی پی کا حصہ تھیں لیکن رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں خواتین کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے، گھر بیٹھی خواتین کا ملکی پیداوار میں کوئی کردار نہیں ہے لیکن ٹیکنالوجی کی مدد سے گھر بیٹھی خواتین بھی ملکی معیشت میں اپنا حصہ ملا سکتی ہیں۔ کھیتی باڑی میں ان کا کردار ملکی ترقی میں شامل رہا، ملک میں 22فیصد خواتین کام کرتی ہیں جن میں زیادہ تر زراعت سے وابستہ ہیں۔ بنگلہ دیش 36.8فیصد، سری لنکا 34.7خواتین ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، اس وقت 62فیصد نوجوان فارغ ہیں، ان کے لیے روزگار کا بندوبست ملک کی جی ڈی پی کے فگر میں تبدیلی لا سکتے ہیں، ریٹائرمنٹ کے قانون کو تبدیل کیا جائے اس کو 45سال تک لے کر آئیں، ریٹائرڈ افراد کو دوبارہ سرکاری کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجز پر ملازمت پر پابندی نافذ کریں اور نوجوانوں کو بھرتی کریں، ان فارمیشن ٹیکنالوجی پر بے جا پابندیوں کو ختم کریں، مہنگی امپورٹڈ گاڑیوں کو بند کریں، چھوٹی صنعتوں کو دوبارہ بحال کریں ،سرکاری اداروں کو اپنا کردار مثبت رکھنا ہو گا، نئے کاروبار کے لیے قانونی پیچیدگیاں ختم کریں، اداروں کو کاروباری برادری سے بھر پور تعاون کرنا ہو گا، اربوں کے فلاحی فنڈز بند کریں اور گھریلو انڈسٹری پر توجہ دیں۔ حکومت سمال انڈسٹری کو پرموٹ کرے، یونیورسٹیز، کالجز میں ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کرے، نئی نسل کو ہنر مند بنائیں، اگلے دس سال کی پالیسی بنائیں، سیاسی طوفان بند کریں، سیاسی معاہدے بند کریں، الیکشن کو صاف شفاف ہونے دیں، ملک میں قانون کی عمل داری ہونے دیں، رشوت ستانی پر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button