Column

مزدور اور قلمکار کے شب و روز

چودھری غلام غوث

اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات انسان کے لئے دُنیا میں بے شمار اور لاتعداد نعمتیں پیدا کی ہیں۔ اگر انسان ان کو شمار کرنا چاہے تو احاطہ کرنا اس کے بس کی بات نہیں اور اگر اس کی تمام نعمتوں میں سے اپنی زندگی گزارنے کے لئے ناگزیر نعمتوں کا چنائو ترجیحی بنیادوں پر کرے تو روٹی، کپڑا اور مکان اس کے لئے بے حد ضروری ہیں اور اس کی تاکید آئین پاکستان میں بھی موجود ہے۔ ان نعمتوں کا حصول اور زندگی گزارنے کے لئے ان کی ضرورت از حد ضروری ہے اس کے لئے انسان کو محنت و مزدوری کرنی پڑتی ہے اور ان کے حصول کو ممکن بنانے کے لئے اسے روزگار کا کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اگر بغور جائز ہ لیا جائے تو پوری دینا میں مزدور ، محنت کشن اور قلمکار لوگوں کی تعداد باقی شعبہ ہائے زندگی سے زیادہ ہے بلکہ دنیا بھر کی بڑی بڑی معیشتوں میں مزدوروں اور محنت کشوں کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کا ہر ملک اپنے شہری کے لئے جن ضرورتوں کو از حد ضروری گردانتا ہے ان میں شہری کی صحت، تعلیم، کھانے پینے کی ضروری اشیاء اور روزگار کی فراہمی سر فہرست ہیں۔ اپنے شہری کے لئے ان سہولیات کی فراہمی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہر ملک کے لئے ضروری قرار دی گئی ہے۔ میرے ملک کا شمار دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں ہوتا ہے جو کہ بیرونی قرضوں کے بل بوتے پر اپنی معیشت کو سہارا دے کر چلا رہا ہے۔ ان ضروری سہولتوں کی عدم دستیابی اس ملک کا شروع دن سے اہم مسئلہ رہا ہے۔ میرے ملک کے مزدوروں قلمکاروں کو روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ صحت کے معاملے کو دیکھ لیں پچھلے دنوں ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی اس مسئلہ پر حکومت نصیحتیں کرتے ہوئے اور اصلاحات لانے کے لئے احکامات دیتی نظر آتی اور اس کو انسانی بنیادی حقوق قرار دیا اور کہا کہ اس پر عدلیہ آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی حکومت اس کو سنجیدگی سے لے ورنہ ہم احکامات جاری کریں گے۔ چونکہ راقم محنت کشوں، قلمکاروں کی تنظیم کا اہم عہدیدار ہے۔، یہ بات میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر اوقات محنت کشوں، قلمکاروں کو اپنے پیاروں کا علاج کروانے کی غرض سے اپنا جی پی فنڈ نکلوانا پڑا جس سے اپنے بیٹے ، بیٹی، ماں یا باپ کا ضروری علاج کروانا پڑا جس کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا ۔کم از کم 25000/-ہزار روپے تنخواہ لینے والے مزدور کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اپنے پیاروں کی معمولی سرجری بھی کروا سکے۔ ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر تین چار مریض پڑے ہیں ادویات کی فراہمی ناممکن ہے۔ سرجری کے لئے تین تین چار چار ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے اگلی سہولت مزدور کے بچوں کی تعلیم کی ہے اس کی حالت یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے معیار پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں حکومتی عدم توجہی اور سہولیات کی عدم فراہمی، سٹاف کی کمی جیسے مسائل سرکاری سکولوں میں معیاری تعلیم کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں۔ مزدور کے بچوں کے لئے سکولوں کا معیار اور سلیپس علیحدہ جبکہ امراء اور ریئسوں کے بچوں کے لئے سکولوں اور سلیپس کا معیار یکسر علیحدہ ہے۔ طبقاتی نظام نے عام آدمی کو اس نظام کہن سے متنفر کر دیا ہے مزدور کا بیٹا ٹاٹ پر بیٹھ کر بھی پڑھنے سے قاصر ہے۔ اعلیٰ تعلیم تو مزدور کے بچوں کے لئے خواب بن کر رہ گئی ہے۔ محنت کش، مزدور اور قلمکار کا بچہ آج بھی نامساعد حالات میں اپنی بقاء کی جنگ پارٹ ٹائم مزدوری کر کے لڑتا نظر آتا ہے اور اپنی پڑھائی کو جاری رکھنے کے لیے پارٹ ٹائم جاب کرتا ہوا صرف آپ کو اس محروم طبقے کا لعل ہی نظر آئے گا۔ اشرافیہ کے بچوں کی ایک مثال بھی آپ نہیں ڈھونڈ سکیں گے کہ وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کے لیے پارٹ ٹائم نوکر ی کرتے ہوں، طبقاتی نظام ان کے ناز نخرے اور چونچلے پورے کرنے میں سرگرداں ہے اور مزدور کا بچہ اپنے مستقبل کے لئے محنت کے ہتھیار سے لیس ہوکر معاشرے کے نا کارہ نظام سے نبردآزما ہے ۔ اگلی سہولت کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی ہے کم از کم 25000/-ہزار روپے تنخواہ لینے والے مزدور کے صرف پانچ افراد پر مشتمل خاندان کا بجٹ بنائیں تو اسے صرف عید کے عید ہمسایوں کے گھر سے بکرے کے گوشت کی اُمید ہوتی ہے۔ دال، سبزیاں، چکن، چینی، بناسپتی گھی، گندم کا آٹا اس کی پہنچ سے باہر ہوتا جارہا ہے اس کے بچے فروٹ کو صرف دیکھ سکتے ہیں کھانے کی صرف خواہش کر سکتے ہیں۔ موجودہ شدید مہنگائی کی لہر نے مزدور اور قلمکار سمیت عام آدمی کا بھرکس نکال دیا ہے اور اُسے دن میں تارے نظر آتے ہے۔ اپنے بچوں کو میں باتوں میں لگا لیتا ہوں جب بھی راہ میں کھلونوں کی دُکان آتی ہے کے مصداق مزدور صرف اپنے بچوں کا پیٹ باتیں سنا کر تو بھر سکتا ہے عملی طور پر اتنی تنخواہ میں اس کے لئے ناممکن ہے ۔ میں دُنیا کے ماہر بجٹ سازوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ 5افراد کے کنبے کا 25000/-ہزار روپے میں ماہانہ بجٹ بناکر دکھا دیں تو میں سمجھوں گا کہ وہ ملک چلا سکتے ہیں۔25000/-ہزار روپے میں فی زمانہ ایک کنبے کا ماہانہ بجٹ بنانا کے شوکت ترینوں اور اسحاق ڈاروں کے بس کی بات نہیں ۔ یہ صرف قدرت کا کمال ہے کہ مزدور کی محنت کی عظمت کے طفیل اس کے بچوں میں صبر و استقلال اور استقامت جیسی صفات پیدا کر دیتی ہے۔ یہ 25000/-ہزار روپے لینے والے لوگ اللہ کے صابر اور شاکر بندے ہیں جو کہ اپنی ضروریات زندگی روک کر اپنے اوپر جبر کر کے استقامت کا پہاڑ بن کر شب و روز گزار رہے ہیں ۔ جس سے قدرت معاشرے میں توازن پیدا کر دیتی ہے ورنہ اس طبقاتی نظام کا منطقی انجام صر ف اور صرف تباہی اور بربادی ہے۔ مزدوری نہ ملنے پر شاعر نے یوں تبصرہ کیا ہی:
موت سے جو ڈرتا نہ تھا بچوں سے ڈر گیا
اک روز جب مزدور خالی ہاتھ گھر گیا
اس سے اگلی سہولت روزگار کی فراہمی ہے جس پر آج تک توجہ نہیں دی گئی اور یہ مسئلہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جوں کا توں رہا ہے۔ ہمیشہ اس مسئلہ کی وجہ سے خودکشیوں کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے اگر مزدور کا بچہ قدرت کی کرشمہ سازی سے اچھا پڑھ لکھ جاتا ہے تو اس کوا روزگار حاصل کرنے میں جس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ ہمیشہ طاقتور میرٹ اس کے آڑے آتا ہے ، مایوسی بعض اوقات مزدور کے بچوں کو جرائم پیشہ افراد میں دھکیل دیتی ہے اپنا جائز حق نہ ملنے پر ان کی ساری صلاحیتیںاور توانائی منفی سرگرمیوں میں صرف ہوجاتی ہیں جس سے معاشرے میں بگاڑ پید ا ہوتا ہے اس کی تمام تر ذمہ دار ریاست ہے جس کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کو بنیادی سہولتیں فراہم کرے۔ مزدور اور قلمکار لوگوں کے بچوں کی آج بھی سب سے بڑی ضرورت صحت، تعلیم ، کھانے پینے کی ضروری اشیاء اور باعزت روزگار کی فراہمی ہے اس مزدور کے بچوں کی جس کے بارے میں اللہ نے کہا ہے کہ وہ محنت کرنے والے کا دوست ہے ۔ اللہ کے اس دوست کے لئے آج بھی ریاست صحت، تعلیم، کھانے پینے کی ضروری اشیاء اور روزگار کی فراہمی کو یقینی بنا کر خوش کر سکتی ہے ( حدیث نبویؐ کا مفہوم ہے کہ مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُسے ادا کردی جائے) اللہ کا دوست خوش ہوگا تو یقینا اللہ بھی خوش ہوگا اور اس کی رحمت ، فضل وکرم اور مدد و نصرت اترے گی اور خوشحالی آئے گی ( ان شاء اللہ) جس سے ملک میں ترقی کا بول بالا ہوگا ۔ حکومت اگر آج یہ تہیہ کر لے کہ وہ اپنے ملک کے مزدور اور قلمکار کی عزت کرے گی اور اس کو ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنائے گی تو حکومت کو اس کے لئے لمبے چوڑے اخراجات کر نے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ ہی بلند و بانگ دعوے کرنے کی، جن کو کبھی بھی پورا نہیں کیا جاسکتا صرف داغا جاسکتا ہے۔ حکومت آج سے اس پالیسی کا نیک نیتی سے اعلان کرے اور اس پر عملدرآمد کی قسم اٹھائے کہ آج کے بعد سرکاری سکولوں میں مزدوروں اور قلمکاروں کے بچے اور حکمران طبقے کے بچے اکٹھے بیٹھ کر تعلیم حاصل کریں گے۔ وزیر اعلیٰ اور سیکرٹری کا بچہ اور عام مزدور اور کلرک کا بچہ ایک سکول ، ایک مادر علمی میں پڑھے گا ۔ مجھے بتائیں اس کے لئے کون سا بجٹ اور دیگر اخراجات درکار ہیں صرف نیک نیتی کا ہتھیار درکار ہے۔ آج کے بعد مزدوروں اور قلمکاروں کے پیاروں اور حکمران طبقوں کے پیاروں کا علاج و معالجہ صرف سرکاری ہسپتالوں میں ہوگا اور وہ اکٹھے اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں گے تو مجھے بتائیے اس کے لئے کونسا اضافی بجٹ درکار ہوگا۔ آج سے یہ اعلان کر دیا جائے کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری سمیت دیگر تمام مقتدر حلقے کھانے پینے کی ضروری اشیاء کی خود خریداری کیا کریں گے اور ان کے لئے روزمرہ کی ضروری چیزیں خود خریدنے کی پابند ہوگی تو اس کے لئے کونسا بجٹ درکار ہوگا جبکہ میرٹ پر روزگار کے مواقع تما م شہریوں کے لئے یکساں ہوںگے اور میرٹ ہر حال میں قائم ہوگا جبکہ رشوت اور سفارش کو نکال دیا جائے تو مجھے بتائیں اس کے لئے کونسا علیحدہ غیر معمولی بجٹ درکار ہوگا۔ آج کے بعد کھانے پینے کی اشیائے خوردونوش سب سے پہلے پاکستانی شہری کو ازراں نرخوں پر فراہم کی جائیں گے اس کے بعد ایکسپورٹ ہوسکیں گی۔ ان تمام اقدامات کا نفاذ صرف اور صرف نیک نیتی اور ا علی ملکی مفاد میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ سے کیا جاسکتا ہے ۔ حکمران طبقے کو اپنے وجود کی نفی کرکے اس پر عملدرآمد کروانا پڑے گا۔ عام مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کردی جائے تو وہ موجودہ ہوشربا مہنگائی میں بھی روز مرہ زندگی کو بآسانی گزار سکتا ہے۔ یہ یوم مئی کا حقیقی پیغام ہے جو اس روح کے مطابق ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button