ColumnJabaar Ch

آغا اقرار کی سپر کلاس! .. جبار چودھری

جبار چودھری

ہم اشرافیہ اور ایلیٹ کلاس جیسی اصطلاحات اپنے ملک میں سنتے آئے ہیں لیکن اس کلاس سے زیادہ تعارف نہیں رکھتے ۔ یہ ایلیٹ کلاس کہاں پائی جاتی ہے کیسے کام کرتی ہے۔ کیسے بنتی ہے اور کیسے خود کو برقرار رکھنے کے لئے اقدامات کرتی ہے یہ تفصیلات زیادہ تر سینہ بسینہ اور سنی سنائی کہانیوں تک ہی سامنے آتی ہیں لیکن میری یہ مشکل جناب آغا اقرار ہارون صاحب نے اس وقت حل کردی جب انہوںنے اپنی تازہ تصنیف How Does superclass rules the world,،a case study from Pakistan مجھے بھجوائی۔ میں نے ہنستے ہوئے آغا صاحب سے کہا کہ سر جی میں اردو پڑھنے اور لکھنے والا شخص ہوں اور آپ مجھے یہ انگریزی کی کتاب پڑھنے پر لگانا چاہتے ہیں تو آغا صاحب نے کہا کہ میری گارنٹی پر اس کتاب کو شروع کرو دس صفحے پڑھو اگر اگلے دو سو صفحات پڑھے بغیر کتاب چھوٹ گئی تو میں یہ پیشکش واپس لے لوں گا۔ میں نے چیلنج قبول کرلیا تو واقعی آغا صاحب جیت گئے۔ آغا اقرار ہارون سینئر صحافی ہیں، انیس سو اٹھاسی سے میڈیا میں ہیں۔ زیادہ کیریئر بطور رپورٹر گزارا۔ قومی اور بین الاقوامی اداروں میں کام کر چکے۔ افغان جنگ کور کر چکے ہیں۔ بین الاقوامی ایوارڈ اپنے نام کر چکے ہیں۔ صحافت سے تصنیف تک ان کا سفر انتہائی خوش کن رہا ہے۔ نیوز ایجنسی کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں اور پاکستان ٹیلی وژن پر باقاعدگی سے تجزیہ کار کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں۔ میرا آغا صاحب سے تعارف دو ہزار سات میں اس وقت ہوا جب میں نے وقت ٹی وی جوائن کیا۔ یہ وہ دور تھا جب میرا کیریئر پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا کی کروٹ لے چکا تھا۔ لاہور میں ہم نے کسی بھی ٹی وی کا پہلا نیوز روم بناکر رائل ٹی وی کا آغاز کیا۔ یہ ایک محدود اور چھوٹے پیمانے کا نیوز چینل تھا، جو سنگاپور سے اپ لنک ہوتا تھا۔ ہمیں پتہ چلا کہ لاہور میں دوسرا نیوز روم بن رہا ہے اور نوائے وقت گروپ کا ٹی وی چینل لانچ ہونے جارہا ہے۔ میں نے پتہ کروایا کہ وہاں انچارج کون ہے۔ معلوم پڑا کہ دی نیشن کی ایڈیٹر عائشہ ہارون صاحبہ ہیں ( اللہ ان کی مغفرت فرمائے)، میں نے ان کو فون کر دیا۔ ان سے بات کرکے بہت زیادہ تسلی ہوئی۔ بات کرکے ایسے لگا جیسے کسی اپنے بڑے نے چھوٹے کو تسلی دی ہو کہ کیوں نہیں یہ جاب آپ کا حق ہے۔ انہوں نے دو دن بعد مجھے آنے کا کہہ دیا۔ میں دو دن بعد وقت ٹی وی پہنچا۔ آنے کی وجہ استقبالیے پر بیان کی، عائشہ صاحبہ کا ریفرنس دیا تو دو منٹ بعد ایک صاحب آئے، مجھے ساتھ لیا، کہا کہ میرا نام آغا اقرار ہارون ہے۔ میں وقت ٹی وی میں چیف کنٹرولر نیوز ہوں۔ عائشہ ہارون اسلام آباد شفٹ ہوگئی ہیں اور مجھے آپ کے آنے کا کہہ کر گئی ہیں۔ میں نے سمجھا کہ نوکری شاید کارروائی ہی نکلی کہ جس نے بلایا وہ ہی یہاں موجود نہیں ہے۔ یہی سوچ رہا تھا کہ آغا صاحب نے کہا کہ میں نے آپ کا کام دیکھا ہے، مزید کسی انٹرویو کی ضرورت نہیں، آپ آج سے ہی جوائن کریں اور رن ڈائون سنبھالیں۔ یوں میں وقت ٹی وی کا پہلا رن ڈائون پروڈیوسر بن گیا۔ اس کے بعد میں نے آغا صاحب کو وقت ٹی وی کی لانچنگ کے لیے دن رات ایک کرتے دیکھا۔ آغا صاحب نے اس چینل کو کھڑا کر دیا۔ ہم نے پچیس نومبر دو ہزار سات کو میاں نوازشریف کی جلاوطنی کے بعد وطن واپسی والے دن یہ چینل لانچ کر دیا۔ چینل کی نشریات ابھی تجرباتی سطح پر ہی تھیں کہ ایک ماہ بعد محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کا سانحہ ہوگیا۔ یہ بڑی خبر وقت ٹی وی نے بریک کی۔ اس خبر کو بریک کرنا میرے صحافتی کیرئیر کا اہم ترین فیصلہ تھا۔ اتنا بڑا سانحہ ہوچکا تھا۔ تمام چینل محتاط تھے۔ اس خبر کو ویری فائی کرنا اور آن ایئر بھیجنا انتہائی بڑا اور اہم فیصلہ تھا۔ میں نے آغا صاحب سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ صحافتی ویری فیکشن کریں۔ میں نے رپورٹر نوشین یوسف کو فون کیا۔ لوکیشن پوچھی تو نوشین نے کہا میں خود اس وقت پنڈی کے ہسپتال میں ہوں۔ میرا حوصلہ بڑا کہ خبر کو بریک کرنے کی طرف جایا جاسکتا ہے۔ میں نے سورس سے متعلق بنیادی سوال پوچھے، تسلی ہوگئی۔ میں نے اپنی باصلاحیت رپورٹر پر اعتبار کیا اور آغا صاحب کو بتایا کہ میری تسلی ہے، انہوںنے کمال شفقت اور اپنے بھروسے کی مثال قائم کرتے ہوئے کہا کہ جبار اگر تم مطمئن ہو تو بریک کر دو۔ ایک سال بعد آغا صاحب نے وقت چھوڑا تو مجھے بھی ایکسپریس نیوز سے آفر آگئی اور وقت آگے کی طرف بڑھتا رہا۔ اس کے بعد میں نے اور آغا صاحب نے ایک جگہ نوکری نہیں کی لیکن آغا صاحب کی شخصیت ایسی ہے کہ تعلق کبھی نہیں ٹوٹا ۔ وہ ہمیشہ شفقت کرتے ہیں۔ بے تکلف دوستی اور احترام کا رشتہ ان کے ساتھ برقرار ہے۔ آغا اقرار نے اس کتاب میں دنیا میں حکومتوں اور طاقت کو اپنے پنجوں میں جکڑنے والی اشرافیہ یا سپر کلاس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور پاکستان کو ایک کیس سٹڈی کے طور پر لیا ہے۔ آغا اقرار لکھتے ہیں کہ یہ سپر کلاس صرف سیاستدانوں پر ہی محیط نہیں ہے بلکہ اس میں طاقت کا ہر مرکز اور اس سے جڑے لوگ شامل ہیں۔ میڈیا انڈسٹری سے باقی صنعتوں کے مالکان ، ججز، جرنیل اور مالدار صحافی بھی اس سپر کلب کا حصہ ہیں۔ اس کلاس کا واحد مقصد طاقت کو اپنے پاس رکھنا ہوتا ہے۔ ان کے سارے تعلقات، سارے رشتے ناطے صرف طاقت کے گرد گھومتے ہیں ۔ یہ کلاس سیاسی طورپر حکومت اور اپوزیشن میں تقسیم ہوسکتی ہے لیکن نجی زندگیوں میں ان کا آپس میں گہرا گٹھ جوڑ ہے۔ آغا صاحب نے ان باتوں کو ڈاکیومنٹ کر دیا ہے جو پہلے ہم صرف کہانیوں میں سنتے تھے۔ سازشی تھیوریوں کی صورت پڑھتے تھے۔ آغا صاحب نے بتایا ہے کہ یہ سپر کلاس آپس میں جڑتی کیسے ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ لوگ آپس میں شادیاں کرتے ہیں، ایک دوسرے سے رشتے جوڑتے ہیں۔ انہوں نے مثالوں سے سمجھایا کہ کون کس کا رشتہ دار ہے اور اس رشتے کے پیچھے کیا راز ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں نظر بھی آتا ہے کہ کسی طاقتور کی رشتہ داری کسی کمزور سے نہیں ملتی۔ آپ یوں کہہ لیں کہ شادیاں اور رشتہ داریاں اس سپر کلاس کی نشو و نما کے ہتھیار ہیں۔ آغا اقرار نے اس کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے کہ سپر کلاس کیسے بنتی ہے اور پھر کیسے پورے معاشرے کو اپنے غلام اور نوکر کی طرح ٹریٹ کرتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارے ڈی این اے کی خامی ہے کہ ہمیں ہمیشہ ہی طاقتور لوگ پسند ہیں۔ کسی کی تلاش میں رہتے ہیں کہ باہر سے آکر کوئی ہماری مدد کرے اس ڈی این اے کی خامی کو ہماری یہ سپر کلاس استعمال کرتی ہے۔ کتاب میں لکھا ہے کہ سپر کلاس کا تذکرہ پہلے اس طرح زیر بحث نہیں آتا تھا لیکن دو ہزار بائیس میں پراجیکٹ عمران کے خاتمے کے بعد پورا معاشرہ ہل کر رہ گیا۔ اس کے بعد کھل کر سپر کلاس کے بارے میں باتیں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ اب اسٹیبلشمنٹ ہو یا ججز اور جرنیل، سب پر تنقید ہورہی ہے ۔ ایک بات اور لکھی ہے انہوںنے کہ ہر ستر سال بعد یہ سپر کلاس ایک جگہ سے ہلتی ہے۔ معاشرہ ری سیٹ ہوتا ہے تو اس کلاس میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اس کلاس کے بریک ہونے کا وقت آجاتا ہے اور پاکستان میں یہ کلاس اپنے ستر سال پورے کر چکی ہے، اب اس میں تبدیلی آنا طے ہے، یہ تبدیلی کس طرح آئے گی، کب آئے گی، اس کا انتظار کرتے ہیں۔ آغا اقرار ہارون کی یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کتاب آن لائن بھی دستیاب ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button