ColumnNasir Sherazi

گھپ اندھیروں کے بعد سحر

ناصر شیرازی

مہنگائی نے ہر شخص کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، بڑے گھروں میں رہنے والے بڑھتے ہوئے اخراجات سے پریشان ہوکر چھوٹے گھروں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ جہاں چار نوکر ہوا کرتے تھے وہاں ڈائون سائزنگ کرکے دو کر دیئے گئے ہیں۔ بڑی لگژری گاڑیاں بند کرکے چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ چھوٹی گاڑی والے اب ایک اضافی سواری یعنی موٹر سائیکل خریدنے اور چلانے میں سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں، موٹر سائیکل والوں کو اب یاد آیا کہ سائیکل چلانا کتنی بڑی اور مفید ورزش ہے جبکہ سائیکل سوار اب سڑک سوار ہیں۔ فربہ اور فریگی کی طرف مائل بیگمات کبھی اپنی کام والیوں کی کمر کو نگاہ رشک سے دیکھا کرتی تھیں، ان کی دیکھا دیکھی بعض شریف شوہروں نے بیگم کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہاں میں ہاں ملائی اور رشک قمر نہیں رشک کمر کو بغور دیکھنا شروع کیا تو گھر میں ایک نیا فساد کھڑا ہوگیا جس کا واحد علاج سمجھا گیا کہ کام والی کی چھٹی کرا دو اور خود گھر کے کاموں پر توجہ دو۔ کچھ روز تو ذوق و شوق سے معاملہ چلتا رہا پھر ہاتھ اور چہرے پر مضر اثرات پڑنے کے جعلی لیکچر کانوں میں پڑے تو یو ٹرن لیتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ کام والی کے بغیر کام نہیں چل سکتا لیکن کل تک اس کا جو میرٹ ہوا کرتا تھا وہ اب ڈی میرٹ بن چکا ہے پس نظر یہ ضرورت کے تحت نیا میرٹ بنایا گیا جس کے مطابق اب میڈ وہ رکھی جائے گی جو عمر رسیدہ ہوگی، عمر رسیدہ نہ ہو تو کم از کم فربہ ضرور ہو، خواتین کے اس فیصلے سے اب غیر سمارٹ ملازمائوں کو نوکری مل سکے گی اور بجھے ہوئے ہوئے چولہے جل اٹھیں گے جبکہ کئی کھلے ہوئے چہرے اب سنجیدہ نظر آیا کریں گے۔ مہنگائی نے پیر خانوں اور مرشدوں کے لائف سٹائل پر کاری ضرب لگائی ہے۔ پٹرول ڈیڑھ سو روپے لٹر اور ڈالر پونے دو سو روپے میں دستیاب تھا تو مہنگے مرشد توجہ کا مرکز تھے، اب وقت کا تقاضا ہے کہ ایک مرشد درجہ اول کے ساتھ ساتھ دوسرا مرشد درجہ دوم بھی ہو، ایک دور ہو تو دوسرا گھر کے قریب ہو، اسی فارمولے کے تحت میں نے اپنے دو نمبر مرشد کے در پر حاضری دی۔ وہاں پہلے سے تقریباً دو درجن پروانے اور تین درجن پروانیاں موجود تھیں۔ مرشد کا بیان جاری تھا وہ کہہ رہے تھے کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے لہٰذا حالت عیش اور حالت طیش میں فیصلے نہیں کرنے چاہئیں، ایسے فیصلے دیر پا نہیں ہوتے، میں نے ذہن پر زور دیا تو مجھے یاد آیا کہ میرے دو نمبر مرشد نے زندگی میں اکثر فیصلے حالت عیش میں کئے یا حالت طیش میں۔ مجھے سوچوں میں گم پاکر مرشد کی آواز کچھ بلند ہوگئی میں ان کی طرف متوجہ ہوا وہ کہہ رہے تھے کھڑے انسان کو غصہ آئے تو اسے بیٹھ جانا چاہیے اگر وہ بیٹھا ہوا ہے تو اسے لیٹ جانا چاہیے اور اگر وہ
لیٹا ہوا ہے اور غصہ آجائے تو اسے کسی اور کے ساتھ لیٹ جانا چاہئے۔ مرشد کے بیان کا یہ حصہ سن کر میں بہت حیران ہوا کیونکہ اس سے قبل میں نے غصہ نکالنے کا یہ طریقہ نہ سنا تھا، میں نے ہمت کی اور عرض کی اعلیٰ حضرت آپ کی بیشتر باتیں بجا ہیں لیکن غصہ نکالنے اور جی ہلکا کرنے کی جو آخری ترکیب آپ نے بتائی ہے وہ اس سے پہلے کبھی کہیں سننے میں نہیں آئی۔ مرشد نے میرا سوال سن کر کچھ ایسی شکل بنائی جیسے بادام کھاتے کھاتے کوئی بادام کڑوا نکل آئے، انہوں نے قریب رکھی بوتل سے پانی کا گھونٹ پی کر اچانک محفل برخاست کرتے ہوئے کہا کہ وہ کچھ دیر لیٹنا چاہتے ہیں، میں نے عرض کیا جناب ہم سب کی رہنمائی کیلئے سوال کا جواب دیتے جائیے۔ میرے روکنے اور دوبارہ سوال کرنے پر مرشد کا رنگ سرخ ہوگیا اور کہنے لگے تم دنیا دار انسان ہو، تمہارا روحانیت سے کوئی واسطہ نہیں، تمہیں کسی مرد کامل کی صحبت میسر نہیں آئی مزید یہ کہ تم کم علم بھی ہو، جو میں نے کہنا تھا وہ کہہ دیا وہی حق ہے وہی سچ ہے، انہوں نے مزید فرمایا کہ جو میں کہتا ہوں وہ کیا کرو جو میں کرتا ہوں اس پر نظر نہ رکھا کرو، مرشد جوگر سمیت آلتی پالتی مارے قالین پر بچھی چاندنی پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے اٹھتے اٹھتے، چائے بنانے والی اور روٹیاں تھاپنے والی کو اشارہ کیا اور ان کے ہمراہ اپنے کمرہ خاص میں منتقل ہوگئے، یہ معلوم نہیں ہوسکا مرشد کو اس وقت بھوک ستا رہی تھی یا انہیں چائے کی طلب تھی، مرشد نے اندر جانے کے بعد مریدوں کیلئے بغیر چینی کا لال شربت بھجوا دیا جس کا پہلا بدمزہ گھونٹ بھرتے ہی ہر شخص نے ایسی ہی شکل بنائی جیسی مرشد نے میرا سوال سن کر بنائی تھی، مرشد کی ایک پرائیویٹ سیکرٹری نے مجھے بعد ازاں مطلع کیا
کہ آپ کا سوال دراصل سوال نہیں اعتراض تھا، مرشد اعتراض کرنے والوں سے ناراض ہوجاتے ہیں اور اپنے ایسے مریدوں سے تو عرصہ دراز تک ناراض رہتے ہیں جن کی زندگی پر مہنگائی کے اثرات نمایاں ہوں، جو بڑے گھروں سے چھوٹے گھروں، بڑی گاڑیوں سے چھوٹی گاڑیوں، چھوٹی ترین گاڑیوں سے موٹر سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں سے سائیکلوں پر آ رہے ہوں یا آ چکے ہوں۔ مرشد کی ایک معتمد خاص نے مجھے وارننگ دی کہ آپ جب آتے ہیں خالی ہاتھ لٹکائے چلے آتے ہیں اور کچھ نہیں تو کہیں سے ایک میگنیم سائز کی شہد کی بوتل ہی پکڑ لایا کریں، مرشدوں کے ڈیرے پر حاضری کا شوق ہے تو ان جگہوں پر آنے جانے کے آداب بھی سیکھیں، انہوں نے میرے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ مرشد منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی آیا ہے تو کیا لے کر آیا ہے اور جائے گا تو کیا دے کر جائے گا، باقی رہا معاملہ مرشد کی طرف سے کسی کو کچھ ملنے کا تو ان کی طرف سے صرف دعائیں ہی مل سکتی ہیں اور دعائیں بھی ان کے منہ سے اس وقت نکلتی ہیں جب وہ خوش اور ترنگ میں ہوں۔ مرشد چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ دنیاوی کے بجائے روحانی شخصیت بنتے جارہے ہیں بس وہ دنیا داری پر کم یقین رکھتے ہیں یوں وہ کسی کو چائے کی پیالی پلانے کے روادار نہیں۔ البتہ کچھ مرید سپانسر شپ سکیم کے تحت موجود مریدین کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ مرشد نے چند روز قبل صوبائی اسمبلی پنجاب کی ٹکٹیں بانٹی تھیں۔ اچانک انہیں خیال آیا کہ ان سے کچھ ناہنجار لوگوں نے غلطیاں سرزد کرائی ہیں اس بات کا احساس ہوتے ہی انہوں نے پہلے ریویو کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی بتایا کہ ریویو کے پر مسرت موقع پر مریدوں کیلئے انٹرٹینمنٹ کا سامان بھی مہیا کیا جائے گا۔ دیئے گئے دن سے پہلے ہی احتجاجی جتھوں کی آمد شروع ہوگئی لہٰذا بادل نخواستہ درجنوں دیئے گئے ٹکٹ واپس لیکر زیادہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیئے گئے۔ چند روز بعد ان سے ٹکٹ لے کر مزید بڑے ضرورت مندوں میں بانٹ دیئے جائیں گے۔ مرشد نے زندگی میں بہت کچھ سیکھا ہے سوائے اپنی بات پر قائم رہنے کے۔ وہ تغیر اور تبدل پر یقین رکھتے ہیں، خاتون سوئم کو تبدیل کرکے خاتون چہارم کی طرف مائل ہیں نام ان کا سحر ہے گھپ اندھیروں کے بعد سحر کا انتظار کیجئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button