ColumnImtiaz Ahmad Shad

افسوس! ہمیں سیرت نبویؐ کا پاس نہیں ۔۔ امتیاز احمد شاد

 

امتیاز احمد شاد
پاکستان کے موجودہ حالات ہماری ضد انا اور خود فریبی کا نتیجہ ہیں، ہر شخص غصے اور بدلے کی آگ بھڑکائے مد مقابل کو بھسم کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ مخالفین کی پکڑ دھکڑ ،چادر و چار دیواری کی حرمت کی پامالی ہمارا وتیرہ بن چکی۔ امت محمدیؐ کے دعویدار اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینے والوں کا حال یہ ہے کہ سیرت نبویؐ کا مطالعہ تک نہیں۔ جن کا ہم کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے ہیں اور جن کی غلامی پر ہم کو ناز ہے، وہ ہمارے پیارے نبی پاک صاحب لولاک اللہ کے محبوب کریم حضرت محمد مصطفیٰؐ کا حسن سلوک مخالفین اور ظالم دشمنوں تک کے لیے بھی اس قدر وسیع اور عام ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ایک بار ایک یہودی اور ایک مسلمان کا مقدمہ حضور پاکؐ کی خدمت اقدس میں پیش ہوا، آپؐ نے مذہب اور عقیدے کا لحاظ کیے بغیر حقائق کی بنا پر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ عدل و انصاف پر زور دیتے ہوئے آپؐ نے قرآن کریم کی یہ تعلیم پیش فرمائی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم بے انصافی سے کام لو، ہمیشہ عدل و انصاف کو قائم کرو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور پاکؐ نے مشرکین مکہ سے معاہدہ کیا تھا کہ اگر مکہ سے کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ حضورؐ کے پاس پہنچے گا تو اسے واپس کیا جائے گا اور اگر کوئی مسلمان مدینہ سے واپس مکہ چلا جائے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ یہ شرط مسلمانوں کو اس وجہ سے سخت ناگوار تھی کہ بہت سے اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں کو مکہ میں دُکھ دئیے جاتے تھے اور وہ مجبور تھے کہ مکہ سے ہجرت کرکے حضور پاکؐ کے پاس مدینہ آجائیں، ایسے ہی لوگوں میں ابوجندلؓ اور سہیلؓ بھی شامل تھے، جن کو مکہ میں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے سخت تکالیف دی جاتی تھیں، وہ مدینہ آگئے تھے۔ حضور پاکؐ کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپؐ نے دشمن قوم سے بھی معاہدہ کی اس حد تک پابندی کی کہ ابوجندلؓ کو واپس مکہ بھجوا دیا، حالاں کہ انہیں وہاں سخت اذیتیں دی جاتی تھیں۔ فتح خیبر کے موقع پر مفتوح یہودیوں نے درخواست کی ہمیں یہاں سے بے دخل نہ کیا جائے، ہم نصف پیداوار مسلمانوں کے حوالے کر دیا کریں گے۔ حضور پاکؐ نے ان کی درخواست کو بھی قبول فرما لیا، مگر افسوس یہودیوں نے اس احسان کے باوجود حضور پاکؐ سے یہ سلوک کیا کہ ایک یہودی عورت نے حضور پاکؐ کو زہر ملا گوشت کھلا کر شہید کرنے کی کوشش کی۔ حضور پاکؐ کو جب اس خوف ناک سازش کا علم ہوا تو آپؐ نے اس کو طلب فرمایا تو اس نے اقرار کیا کہ بے شک میری نیّت آپؐ کو قتل کرنا تھی۔ آپؐ نے فرمایا مگر اللہ کی منشاء نہ تھی کہ تیری آرزو پوری ہوجائے۔ صحابہؓ نے اسے قتل کرنا چاہا تو آپؐ نی منع فرما دیا۔ حضور پاکؐ نے جب اس سے پوچھا کہ تمہیں اس ناپسندیدہ فعل پر کس بات نے آمادہ کیا تو اس نے جواب دیا کہ میری قوم سے آپؐ کی لڑائی ہوئی تھی، میرے دل میں آیا کہ آپؐ کو زہر دے دیتی ہوں، اگر واقعی آپؐ نبیؐ ہوئے تو بچ جائیں گے۔ رسول پاکؐ نے جب اس کی یہ بات سنی تو اسے معاف فرما دیا۔ جان لیوا دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک یقینا عفو کی روشن مثال ہے جو تاریخ میں کہیں اور نہیں مل سکتی۔ جنگ خیبر میں سرکار دو عالمؐ کے اسوہ حسنہ کا ایک اور عجیب اور ایمان افروز واقعہ بھی پایا جاتا ہے۔ ابھی محاصرہ جاری تھا کہ ایک یہودی رئیس کا گلہ بان جو اس کی بکریاں چرایا کرتا تھا، مسلمان ہوگیا۔ مسلمان ہونے کے بعد اس نے کہا: یا رسولؐ اللہ! اب میں ان لوگوں کے پاس تو جا نہیں سکتا اور یہ بکریاں اس یہودی رئیس کی امانت ہیں، اب میں کیا کروں؟ سرکارؐ نے فرمایا: بکریوں کا منہ قلعہ کی طرف پھیر دو اور ان کو پیچھے سے ہانک دو، اللہ خود ان کو مالک کے پاس پہنچا دے گا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس چلی گئیں، جہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کر لیا۔ اس واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ نبی پاکؐ کس قدر امانت و دیانت کے اصولوں پر عمل فرمایا کرتے تھے۔ کیا آج کل کے نام نہاد مہذب زمانے میں بھی اس کی کوئی مثال مل سکتی ہے کہ دشمن کے جانور ہاتھ آجائیں اور پھر انہیں واپس لوٹا دیا جائے۔ آپؐ جنگ میں مشغول تھے، دشمنوں نے مسلمانوں کی صفوں میں کچھ بدنظمی پائی اور ایک اعرابی تلوار سونت کر آپؐ کے سر پر آگیا اور کہنے لگا: یا محمد ؐ تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا، اللہ ! یہ سن کر اس پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی، آپؐ نے فورا اسے اٹھا لیا اور فرمایا: اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ وہ کافر بولا آپؐ نے مجھے اسیر کر لیا، اب دوسرے قید کرنے والوں سے بہتر سلوک مجھ سے کیجیے۔ آپؐ نے اسے معاف کرکے رہا فرما دیا۔ جب وہ اپنے لوگوں میں واپس آیا تو کہنے لگا: میں اس وقت دنیا کے سب سے عظیم آدمی کے پاس سے آرہا ہوں۔ جس کسی نے حضورؐ کو آزار پہنچایا اگرچہ آپؐ ذی مقدرت تھے تاہم آپؐ نے اسے معاف فرما دیا۔ آپؐ سب سے زیادہ حلیم اور معاف کرنے والے تھے باوجود مقدرت دوسروں پر ہمیشہ رحم فرماتے۔ غزوہ بنو مصطلق میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی سلول نے سرکار دو عالم ؐ کی شان میں گستاخی کا یہ فقرہ کہا کہ مدینہ جا کر میں جو سب سے زیادہ معزز ہوں سب سے زیادہ ذلیل شخص کو مدینہ سے نکلوا دوں گا ( نعوذباللہ)۔ ایسی گستاخی پر صحابہ کرامؓ نے چاہا کہ اسے قتل کر دیا جائے کیوں کہ یہ گستاخ رسولؐ ہے۔ مگر حضور پاکؐ نے انہیں اس سزا کی اجازت نہیں دی۔ گستاخی کے اس فقرے کا جب اس کے مخلص بیٹے کو علم ہوا تو اس نے حضورؐ سے اپنے گستاخ باپ کو خود قتل کر دینے کی اجازت طلب کی تو آپؐ نے اسے بھی منع کیا اور فرمایا کہ ہم تمہارے باپ سے نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے اس کے باوجود غیرت مند بیٹے نے مدینہ میں داخل ہونے سے قبل اپنے باپ کو گھوڑے سے اتار لیا اور اس سے جب تک یہ کہلوایا کہ وہ خود مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل ہے اور محمدؐ سب سے زیادہ معزز ہیں، اس کو چھوڑا نہیں۔ یہی عبداللہ بن ابی سلول جب فوت ہوا تو اس کے مخلص بیٹے نے حضور پاکؐ سے جنازہ پڑھنے کی درخواست فرمائی تو حضورؐ نے فرمایا کہ میں جنازہ پڑھ دیتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ خدا پاک نے قرآن میں منافق کا جنازہ پڑھنے سے منع کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر آپ ستّر بار بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں تو پھر بھی اللہ ان کی مغفرت نہیں کرے گا۔ یہ سن کر سراپا رحمتؐ نے فرمایا کہ میں اس کے لیے اکہتّر بار مغفرت کی دعا کروں گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب اپنے نبی پاکؐ کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور آپس میں پیار و رواداری و محبت بھائی چارہ قائم کریں۔ اللہ اپنے محبوب پاکؐ کے صدقے پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button