Columnمحمد مبشر انوار

حب رسولؐ اور انتظامی تقاضے ۔۔محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار( ریاض)

رمضان المبارک اپنی رحمتیں، برکتیں بکھیرتا ہوا اختتام پذیر ہوا، امت مسلمہ کے بے شمار افراد اس مقدس مہینہ کی فیوض و برکات سے مختلف انداز میں مستفید ہوئے، کسی نے عبادت میں انتہا کی تو کسی نے فیاضی و سخاوت میں اپنا مال لٹایا، کوئی حرمین کی زیارت کو پہنچا تو کسی نے اپنے قرب و جوار میں حق داروں کے لئے آسانیاں پیدا کی اور یوں اس ماہ مقدس سے رحمت الٰہی کو سمیٹنے کی سعی کی۔ ماضی میں کہ جب سفر کے لئے اتنی آسانیاں میسر نہیں تھی، شمع توحید کے پروانے پوری دنیا سی جوق در جوق، قافلوں کی صورت جانوروں پر یا پیدل سفر کرتے ہوئے، مہینوں بعد حرمین کی زیارت کو پہنچتے، لبیک اللہم لبیک کی صدائیں بلند کرتے، بیت اللہ کی حاضری دیتے اور اپنے دکھڑے اللہ کے حضور پیش کرتے اور اسی طرح قافلوں کی صورت روضہ رسول پر حاضری دے کر اپنے ایمان کی تکمیل کرتے کہ کسی بھی مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا سینہ نبی اکرمؐ کی محبت سے لبریز نہ ہو، امتی ہونے کا حق ہی ادا نہیں ہوتا کہ جب تک کوئی مسلمان اپنے جان و مال و اولاد سے بڑھ کر نبی اکرمؐ سے محبت نہ کرے بعینہ وہی جذبہ جو آپؐ کے صحابہ کرامؓ کا آپ ؐ سے تھا کہ صحابہ کرامؓ سرکار دو عالمؐ سے مخاطب ہی یوں ہوتے تھے کہ فداک امی و ابی یا رسول اللہ، کسی شخص کو اپنے والدین سے زیادہ محبت اور کس سے ہوگی اور صحابہ کرامؓ آقائے دو جہانؐ کو مخاطب کرتے وقت واشگاف الفاظ میں فرماتے کہ آپؐ پر ہمارے والدین قربان، یہ جذبہ تاریخ میں کسی اور شخصیت کو نہ نصیب ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ بہرکیف، ماضی کی نسبت حرمین کا سفر آج نسبتاً آسان ہے اور مہینوں کا سفر فقط چند گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے اور عازمین سفر کے لئے فرائض عمرہ و حج ادا کرنے کے بعد انتہائی سہولت ہے کہ وہ چند دنوں میں یہ امور سرانجام دے کر واپس اپنے وطن چلے جاتے ہیں جبکہ ماضی میں ایسا بھی ہوتا کہ حب رسول میں معمور اگر کوئی شخص حجاز مقدس آیا تو پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا کہ تب شہریت کے حوالے سے قوانین کا نفاذ اس قدر سخت نہیں تھا، ویزہ وغیرہ کی سختی نہ تھی اور نہ ہی کسی دوسرے ملک میں سکونت اختیار کرنا ایک دشوار گزار مرحلہ تھا لیکن اب معاملات مختلف ہے، کسی بھی دوسرے ملک میں سفر کرنے کے لئے، مسافر کو پہلے اس ملک کا ویزا درکار ہے جو کلی طور پر مذکورہ ملک کے سفارتخانے کا استحقاق ہے کہ ویزا جاری کرے یا نہ کرے، اگر مسافر سفارتخانے کو مطمئن نہیں کر پاتا تو ممکنہ طور پر اسے ویزا کا اجرا نہیں کیا جاتا جبکہ ترقی یافتہ ممالک بالعموم ویزا جاری کرتے وقت انتہائی سخت طریقہ کار اختیار کرتے ہیں اور بالعموم ترقی پذیر ممالک کے افراد کو ویزا جاری کرنے سے پہلے سخت چھان بین کرتے ہیں۔
حرمین کی زیارت کے حوالے سے اب معاملات انتہائی تبدیل ہو چکے ہیں، ایک طرف سعودی حکومت مسلسل عازمین کے لئے سہولیات کا جال بچھانے میں مصروف ہے تو دوسری طرف ایک مربوط نظام تشکیل دینے کے عمل سے گزر رہی ہے، جس میں حالات کے مطابق مسلسل تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں، یوں ہر سال بلکہ چند مہینوں بعد ہی نئے قوانین متعارف ہوتے رہتے ہیں اور عازمین کے لئے سہولیات کے ساتھ ساتھ نئی پابندیاں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ بہر طور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی، ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کچھ افراد ایسے منظر عام پر آتے ہیں کہ جو میسر سہولیات کے برعکس ماضی کے روایات کو زندہ کرنے کی سعی کرتے ہیں، کچھ بائیسائیکلوں پر، کچھ موٹر بائیکس پر اور کچھ پیدل حجاز مقدس کا سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ بقول ان افراد کے وہ آج کے دور میں منفرد انداز میں حاضری دینے کی سعی کرتے ہیں تو کچھ ماضی کی روایت کو زندہ کرنے کی بات کرتے ہیں، حقیقتاً ان کی نیت اور ارادہ کیا ہے، اس کے متعلق یا وہ خود جانتے ہیں یا اللہ رب العزت کی ذات واقف ہے، ہم دنیا داروں کے لئے وہ کافی ہے جس کا اظہار وہ اپنی زبان سے کرتے ہیں۔ قارئین، اپنی گزشتہ تحریر میں عرض کیا تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے کچھ ایام روضہ رسول پر گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی اور اس دوران ایسے ہی ایک عاشق رسولؐ سے ملاقات ہوئی جو حضرت اویس قرنیؓ سے متاثر ہو کر لاہور سے پیدل عمرہ کی غرض سے حجاز مقدس پہنچا۔ غازی شان، پنجاب پولیس کا ایک مضبوط جسم والا جوان جس سے مسجد نبویؐ میں اتفاقاً ملاقات ہوئی اور اس سے گفتگو کرنے کا موقع ملا، دوران گفتگو جس رقت سے اس جوان نے اپنے سفر کی روداد سنائی، کئی ایک مواقع پر اس نے مجھے بھی آبدیدہ کیا۔ حضرت اویس قرنیؓ کی روایت کو زندہ کرنے کی جستجو میں اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑا، کیسے اپنے والدین کو منایا، کیسے اپنی بہنوں کے فرض سے عہدہ برآء ہوا، کس طرح کی جذباتی گفتگو کے بعد اسے اپنے والدین سے پیدل عمرہ کرنے کی اجازت ملی، اس کے عاشق رسولؐ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ کن محکمانہ مجبوریوں کا سامنا اسے کرنا پڑا، حتی کہ اپنی خواہش کی تکمیل میں جب محکمہ سے رخصت نہ ملی تو اس نے اپنی نوکری قربان کرنے کی بھی ٹھان لی تاہم اس کے اعلی و با اختیار افسر نے باالآخر اس کی رخصت منظور کر لی ۔ مکرر عرض ہے کہ ہم دنیا داروں کو کسی کی نیت جانچنے کا اختیار قطعی نہیں اور نہ ہی ہم کسی کے عمل پر ازخود فیصلہ دے سکتے ہیں، البتہ کسی کی خواہش، نیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر انتظامی امور کے حوالے سے رائے دینے پر اختیار ضرور رکھتے ہیں تا کہ نیت و خواہش کی تکمیل کا جائزہ لیا جا سکے۔
ایسی ہی صورتحال غازی شان سے گفتگو کے دوران سامنے آئی، جب اس جوان نے کہا کہ اگر کسی طرح ممکن ہو سکے تو وہ ادائیگی حج کرکے واپس جانے کو ترجیح دے گا لیکن کیا اس کی یہ خواہش قابل عمل ہے؟ سعودی قوانین کے مطابق ادائیگی حج کا ایک مروجہ طریقہ کار ہے اور ہر خاص و عام کے لئے یہی طریقہ کار نافذ العمل ہے جس پر مختصراً عرض کرتا ہوں، جب کہ دوسری بات یہ ہے کہ عمرہ ویزا کے لئے آئے ہوئے عازمین کو حج کی اجازت نہیں ملتی کہ یہ سعودی قانون ہے تا وقتیکہ شاہی خاندان کی خصوصی اجازت میسر نہ ہو، جو بالعموم غیر معمولی شخصیات کے لئے غیر معمولی حالات میں میسر ہوتی ہے۔ حج کا اپنا طریقہ کار ہے اور اس کے تحت رمضان سے پہلے ہی کوٹہ الاٹ کیا جاتا ہے، اس کی باقاعدہ رجسٹریشن، قیام و طعام او ر معلم گروپ کے ساتھ وابستگی کی جاتی ہے تا کہ کسی بھی قسم کی بد انتظامی سے بچا جا سکے۔ اس نظام کو انتہائی سختی کے ساتھ نافذ کیا جا چکا ہے اور ماضی میں سفارتی عملے کے لئے جو خصوصی انتظامات میسر ہوتے تھے وہ بھی اب ختم ہو چکے ہیں اور انہیں بھی نئے نظام کے تحت ہی حج ادا کرنے کا پابند کیا جا چکا ہے لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ غازی شان کے لئے خصوصی انتظامات ممکن ہو سکیں؟ علاوہ ازیں غازی شان کی یہ نیت یا خواہش اپنی جگہ کہ وہ بغرض عمرہ پیدل حجاز مقدس کا سفر کرے اور بعد ازاں اس سہولت سے یوں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے کہ ایک ہی سفر میں دو مقدس فرائض سرانجام دے لے لیکن کیا یہ عملی طور پر ممکن ہے؟بظاہر اس کا جواب نفی میں ہے لیکن کیا معلوم کہ اللہ رب العزت اس جوان کے لئے کوئی راستہ کھول دے البتہ اس بنیاد پر کہ وہ پیدل حجاز مقدس آیا ہے لہٰذا اس کے لئے کوئی گنجائش پیدا کی جائے تو بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ دوسری اہم بات کہ اگر اس کوشش کو بنیاد بناکر غازی شان کو حج کی اجازت ملتی ہے تو مستقبل میں ایسے کئی نوجوان یہ طریقہ اختیار کر سکتے ہیں جبکہ سعودی حکام اس طریقہ کار کی کسی صورت بھی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے اور تیسری بات اگر غازی شان یا کسی بھی دوسرے پاکستانی نے اپنے عمل سے پاکستان کا نام روشن کیا ہے تو اپنے مقصد سے تجاوز کرکے وہ پاکستان کے لئے نیک نامی نہیں حاصل کرے گا لہٰذا بہتر یہ ہے کہ حب رسولؐ میں پیدل حجاز مقدس کا سفر کرنے والے یا والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنے مقصد سے تجاوز کرتے ہوئے انتظامی امور سے آنکھ مچولی کھیلیں، بہتر یہی ہے کہ مقدس فرائض کی ادائیگی کے لئے مروجہ نظام اور قوانین کا احترام کریں کہ اسی میں ان کی اور پاکستان کی نیک نامی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button