Abdul Hanan Raja.Column

سفر نامہ عید اور ہماری روایات ۔۔ عبدالحنان راجہ

 

عبد الحنان راجہ
عید کی چھٹیاں ہوں یا کوئی اور تہوار، سماجی مصروفیات ہوں یا کاروباری، کالم نگار کو ہمہ وقت اپنے مقررہ دن پر کالم کے لیے مواد کی جستجو رہتی ہے۔ سو اس بار عید کے موقع پر مشاہدات کو ہلکے پھلکے انداز میں سپرد قلم کرنے کا سوچا۔ تیسری دنیا کے ممالک بالخصوص پاکستان میں عید کے تہوار کی گہما گہمی کچھ زیادہ، تازہ اعداد و شمار کے مطابق کم و بیش 8کروڑ کی آبادی خط غربت سے نیچے پہنچ چکی، گو کہ ہمارا نظام سیاست اور طرز حکومت معاشی طور پر ان کو عید کے تہوار کی اجازت نہیں دیتا مگر عوام اشرافیہ کی لوٹ مار اور مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں کے باوجود اتنے سخت جان ثابت ہوئے کہ آنے والی ہر نئی حکومت کئی ماہ اس تحقیق میں گزار دیتی ہے کہ گزشتہ والوں کی انہیں غربت و افلاس سے مارنے کی کوششیں کس طرح ناکام ہوئیں۔ پھر نئی حکومت ان کو مشق ستم بنانے کے نت نئے انداز اور جواز تلاش کرتی ہے تا کہ ماضی کی روایات کو برقرار رکھا جا سکے۔ عید کے موقع پر لمبے سفر پر نکلنا کافی عرصہ سے معمول کہ نہ صرف عزیز و اقارب سے میل ملاقات کا نادر بہانہ اور مطالعاتی دورہ بھی ثابت ہوتا ہے بلکہ مختلف الخیال افراد سے مکالمہ اور پرمسرت موقع پر مزاح ذہن کے بند دریچے کھول دیتا ہے جبکہ آقا کریمؐ نے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کو رزق اور عمر میں برکت کا ذریعہ قرار دیا ہے سو اس فرمان پہ عمل ہمیشہ پیش نظر یہ سفر معاشی پریشانیوں اور سوشل میڈیا کی برکات کے سبب نئی نسل سے ٹوٹتے تعلق کو برقرار رکھنے کا بھی اہم ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ اب تو خوشی غمی کے مواقع پر بھی قریبی عزیزوں سے ملاقات کا رواج دم توڑتا نظر آتا ہے۔ شہید بھتیجے میجر طلحہ منان کی شہادت کے بعد پہلی عید جو عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں اظہار افسوس کر کے ہی منائی جاتی ہے کہ جس کی شریعت میں ممانعت، مگر اس کے باوجود زیادہ تر علاقوں اور خاندانوں میں یہ رسم پختہ، اس رسم کو شہید کے خاندان بالخصوص انکے والد اور والدہ نے توڑنے کی ہمت کی۔ شہید کے والد نے آنے والے رشتہ داروں بالخصوص شہید کے ماموں محمد زاہد، محمد شاہد اور دیگر کے ساتھ محفل کو کشت زعفران بنائے رکھا۔ دوسری طرف شہید کی پر حوصلہ والدہ مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ عید کے سفر میں ذیشان مشتاق کی ہمرکابی نعمت مرقبہ کہ ڈرائیونگ کا مسئلہ حل ہوا مگر ڈرائیونگ میں ان کے انداز اور ہمارے مزاج میں وہی مماثلت ہے جو مسلم لیگ ن میں نواز شریف اور شہباز شریف کی طرز سیاست کو، جس طرح لیگی کارکن دونوں طرز کو حق جان کر قبول کرتے ہیں اسی طرح ہم نے بھی ان کی مہارت کو نہ صرف قبول کیا بلکہ آزمانے کو خوب موقع بھی فراہم کیا۔ کشمیر کا ضلع بھمبر اس لحاظ سے اہمیت کا حامل کہ نئے وزیر اعظم کا تعلق اسی ضلع سے ہے تحصیل برنالہ میں اپنے عزیز برادرم ظفر جرال اور رمضان جرال سے معلوم ہوا کہ آزاد خطہ کے نئے وزیر اعظم انوار الحق عوامی شخصیت اور کر و فر اور روایتی پروٹوکول کو پسند نہیں کرتے مگر یہ طے ہے کہ آزاد خطہ میں اقتدار ساون کے موسم کی طرح ہی ہے۔ پارلیمانی مدت تو پوری ہوتی ہے مگر گریڈ 17 کے اس ملازم کی طرح کہ جس کا مہینہ کبھی ایک تو کبھی دوسرے سے ادھار لیکر گزرتا ہے۔ طوطا چشمی اور سیاست کے سینے میں دل کا نہ ہونا کے مفاہیم اس خطہ کی سیاست پر پوری طرح صادق آتے ہیں۔ ننھیال کے علاقہ سے محبت شاید وراثت میں مگر درختوں پر چھوٹے چھوٹے بادشاہ سلامت سر نکالتے نظر آئے تو شوق ملاقات میں کئی عزیزوں سے جولائی میں ان سے دو دو ہاتھ کرنے کا وعدہ کر بیٹھے۔ آم ہوں اور خوب ہوں کے مصداق ملتان میں تعینات عزیزم جواد ظہور قادری کو بھی بروز عید بصد اصرار بادشاہ سلامت سے ملاقات اور خوب ملاقات پر راضی کیا۔ کشمیر کے اس خطہ میں کہ جہاں ایک دہائی قبل پانی کمیاب اور درخت خال خال نظر آتے تھے مگر گزشتہ چند سال میں اس علاقہ کے اکثر جوانوں کی حصول روزگار کے لیے سپین، اٹلی، یونان، یورپ اور گلف روانگی نے وہاں کے نیم متوسط خاندانوں کو معاشی طور پر خوب مستحکم کر دیا۔ پرتعیش رہائش گاہوں اور زندگی کی تمام سہولیات نے جہاں ایک طرف دیہات کے اصل حسن پر کاری ضرب لگائی تو دوسری طرف باغات اور شجرکاری بھی خوب ہوئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں روایات تبدیل ہوتی ہیں تو وہیں بود و باش میں بھی تغیر کا آنا اچنبھا نہیں۔ علاقہ میں شرح تعلیم کے ساتھ ساتھ معیار تعلیم بھی بلند ہوا. اس پر اپنی عزیزہ سے سیر حاصل بات چیت ہوئی جو اپنا سکول چلا رہی ہیں۔ ایک بات جو شدت سے محسوس ہوئی کہ کم و بیش ہر نوجوان ہی دیار غیر کو مسکن بنانے کا متمنی ہے بلکہ کئی ایک گھرانوں میں تو ایک آدھ بزرگ کے علاوہ کوئی جوان نظر نہیں آتا، رات کے وقت سرحد کے اس پار ضلع جموں کی ٹمٹماتی روشنیاں ہمیں 70سے 80سال پیچھے اپنے اجداد کی جائے رہائش لے جاتی ہیں۔ دور مقبوضہ علاقے کے پہاڑوں کی سفیدی، گھنے درخت اور خوب صورتی اہل کشمیر پر قدرت کی بے پناہ فیاضیوں کی عکاس ہے، مگر بزور جبر غلامی کے طوق نے انکے چہروں سے خوشیوں کے سب رنگ چھین رکھے ہیں۔ برنالہ کے معروف صحافی عزیزم قاسم شفقت جرال کی طرف سے پرخلوص اور پرتکلف دعوت ہمارے مطالعاتی کم عید دورہ کا اختتام ثابت ہوئی۔ احمد ندیم قاسمی کی دعائیہ نظم قارئین کی نذر:
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی مجال بھی نہ ہو
خدا کرے کہ نہ کبھی خم ہو سر وقار وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوج کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے مرے اک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button