ColumnKashif Bashir Khan

دنیا بھر میں جمہوری حقوق کی پامالی کی بازگشت!!۔۔ کاشف بشیر

دنیا بھر میں جمہوری حقوق کی پامالی کی بازگشت!!

کاشف بشیر خان
بات ہے2012ء کی جب ترکیہ ( سابق ترکی) کی حکومت نے مختلف تربیتی کورسز کے لئے پاکستان کے پولیس افسروں کو اپنے ملک میں بلایا تھا اور اس وقت پنجاب کے آئی جی حبیب الرحمان تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب لاہور میں موٹر سائیکلوں پر گشت کرنے والی فورس ڈولفن فورس کی تربیت بھی ترکیہ میں ہوئی تھی۔Crime Intelligence Analysis Courseبھی ایک کورس تھا جس میں پنجاب پولیس کے افسروں کو ترکیہ میں تربیت کا موقع فراہم کیا گیا تھا، یہ کورس9سے20جولائی2012ء تک انقرہ میں ہونا تھا اور پنجاب پولیس نے اس کورس کے لئے12پولیس افسروں کا انتخاب کرنا تھا لیکن اس کورس سے قبل (TNP)ترک نیشنل پولیس کی جانب سے حکومت پاکستان اور پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسروں کو ایک ای میل اور خط لکھا گیا کہ اس کورس کے لئے افسران کا انتخاب کرتے ہوئے اپنا سکروٹنی کا عمل سخت کیا جائے۔ جو وجہ بتائی گئی وہ بڑی شرمناک تھی۔ اپریل میں جو کورس پنجاب پولیس کے افسروں کو کرائے گئے تھے، ان میں ایک ایس پی ایسا بھی تھا جو ٹریننگ سیشنز کے دوران نشے کی حالت میں سویا رہتا تھا اور ٹریننگ کرانے والے افسروں سے بدتمیزی کرتا تھا۔ جو خط پاکستان کی حکومت اور آئی جی پنجاب کو لکھا گیا تھا اس میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ وقاص الحسن نتھوکہ نامی افسر نے، جو حرکتیں ٹریننگ کے دوران انقرہ ( ترکیہ) میں کیں وہ نہ صرف پاکستان اور ترکیہ کے باہمی تعلقات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں بلکہ دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانی پولیس کے تشخص کو بدنام کرنے کے مترادف ہیں۔ ترک نیشنل پولیس نے جو خط اس وقت کے آئی جی پنجاب حبیب الرحمان کو لکھا اس میں واضع طور پر وارننگ دی گئی تھی کہ اگر31کامن کے ایس پی کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا گیا اور اس جیسے کسی اور افسر کو ترکی بھیجا گیا تو مستقبل میں پاکستان کے پولیس افسروں کی ٹریننگ کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا۔ حبیب الرحمان نے ترک حکومت و پولیس کو جو جواب دیا تھا، اس میں انہوں نے انہیں لکھا تھا کہ اس افسر کے خلاف وفاق پاکستان کو خط لکھ دیا گیا ہے جس پر وفاقی حکومت نے دو ایڈیشنل آئی جیز پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے، جو اس افسر کی ان غیر اخلاقی حرکات کی تحقیقات کر کے اسے قرار واقعی سزا دے گی۔ اسی دوران ترک پولیس کی جانب سے ایسا ہی خط پنجاب حکومت کو بھی لکھا گیا تھا جس میں مذکورہ پولیس افسر کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد آئی جی پنجاب نے ترک پولیس کو جو خط لکھا تھا اس میں نہ صرف 12افسروں کے نام لکھے گئے تھے بلکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ یہ افسر سخت ترین سکرونٹی کے بعد منتخب کئے گئے ہیں اور جس افسر نے ترک پولیس حکام سے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا تھا اور دونوں ملکوں کی بدنامی کا باعث بنا تھا اس کے خلاف انکوائری کی جارہی ہے اور وہ ٹریننگ حاصل کرنے والے افسروں میں شامل نہیں ہے لیکن جون میں ہی اس افسر کو دوبارہ ایڈیشنل ایس پی شیخوپورہ لگا دیا گیا تھا اور پھر چند سال بعد اسے ڈی پی او خوشاب لگا دیا گیا، جہاں موصوف کے منفی طرز عمل اور رویے کے خلاف وہاں کی مذہبی تنظیموں اور وکلا برادری نے بہت عرصہ تک احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ پھر بہت عرصہ تک خبر نہیں ملی کہ کہاں اس کی تعیناتی ہوئی لیکن ایک بات تو پاکستان میں احتساب کے نہ ہونے کی وجہ سے دکھائی دی کہ جس گریڈ اٹھارہ کے ایس پی کے خلاف ترک حکومت اور ترک پولیس نے حکومت پاکستان کو سرکاری طور پر لکھا تھا کہ اس افسر کو قرار واقعی سزا دی جائے، اس پر عمل درآمد نہ ہوا بلکہ ان سرکاری خطوط کے بعد اس افسر کو اہم جگہوں پر تعینات کیا جاتا رہا۔ قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ آج جب پاکستان کو بدترین معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ سیاسی تباہی کا سامنا ہے تو اس افسر کی بات کہاں سے آ گئی تو بتانا یہ تھا کہ گزشتہ شب جب سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی لاہور میں واقع رہائش گاہ پر اینٹی کرپشن اور لاہور پولیس کے اشتراک سے بربریت اور ریاستی جبر کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا تو میرے لئے حیرانگی کا باعث ہرگز نہیں تھا کہ وہ ہی افسر وقاص الحسن نتھوکہ بطور ایڈیشنل ڈی جی اینٹی کرپشن وہاں پر موجود تھا اور چودھری پرویز الٰہی کے گھر کے مین دروازے کو پنجاب پولیس کے جیالوں کے ساتھ پہلے زور زور سے پیٹنے اور پھر بعد میں بکتر بند گاڑی سے ایسے توڑنے میں مصروف تھا جیسے کسی دوسرے ملک کی فورس قبضہ کرنے کے بعد عمارتوں میں دروازے توڑ کر گھستی ہے۔ کل رات کو چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت وغیرہ کی رہائش گاہوں پر خوفناک اور دہشت پر مبنی پولیس کی فسطائیت کے بعد ماضی کا ایک سچا واقعہ یاد آگیا۔ زمانہ طالب علمی تھا اور میرے تایا زاد مقصود خان انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں نئے نئے مقابلے کا امتحان پاس کر کے آئے تھے۔ یہ اسی کی دہائی کا وسط تھا۔ ایک روز انہیں چودھری پرویز الٰہی کے کسی منیجر کا فون آیا کہ آج شام چودھری صاحب آپ کو ملنا چاہتے ہیں۔ میرے مرحوم کزن کے بقول میں جب وہاں پہنچا تو مجھے ایک ایسے کمرے میں پہنچا دیا گیا جہاں چودھری پرویز الٰہی پہلے سے ہی براجمان تھے۔ وہاں پہنچانے والا ان کا منیجر بھی جب باہر نکل گیا تو چودھری پرویز الٰہی نے مجھ سے مذاق کے انداز میں کہا کہ آپ کو اگر کہا جائے کہ آپ یہاں سے باہر نکل جائیں تو کیا آپ باہر جا سکتے ہیں؟، میرے کزن کے مطابق میں نے جب کمرے کی چاروں دیواروں پر نظر دوڑائی تو وہ اب ایک جیسی تھیں جن میں باہر جانے کا راستہ مجھے دکھائی نہیں دیا تھا۔ اس کے بعد اس وقت کے چودھری پرویز الٰہی کا رویہ میرے کزن سے یک دم دوستانہ ہو گیا تھا اور پھر یہ ملاقات تھوڑی دیر بعد ختم ہو گئی تھی اور پرویز الٰہی میرے کزن کے بقول انہیں گاڑی تک چھوڑنے آئے تھے۔ رواداری اور تعلقات نبھانے کا فن چودھریوں پر ختم ہے، مشرف کے دور میں جب شریف خاندان سب کو بتائے بغیر بیرون ملک ڈیل کر کے چلے گئے تھے اور حمزہ شہباز کو بطور گارنٹی پاکستان چھوڑ گئے تھے تو اس دور میں بھی چودھری پرویز الٰہی ہی حمزہ کی ہر طریقے سے دیکھ بھال اور مدد کیا کرتے تھے لیکن گزشتہ شب جو چودھریوں کی رہائش گاہ پر لاہور پولیس کی ایک ایسی خاتون ایس پی جو پہلے ایک اینکر پرسن اور عام لوگوں سے بدتمیزی اور زیادتیاں کرنے میں مشہور ہے نے وقاص الحسن نتھوکہ کے ساتھ مل کر ظہور الٰہی روڈ پر چودھریوں کی رہائش گاہوں پر لائیو کیمروں کے سامنے کیا وہ کسی بھی ریاست میں ناقابل قبول ہے اور پولیس اور اینٹی کرپشن کے شیر جوانوں کی بربریت سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ انہیں کسی قانون و آئین کے پامال ہونے کا کوئی احساس، ڈر و خوف نہیں ہے۔ بغیر وارنٹ کے دو دفعہ کے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور سابق ڈپٹی وزیر اعظم پاکستان کے گھر لائو لشکر کے ساتھ حملہ آور ہونے کے بعد الٹا دہشت گردی کا پرچہ بھی پرویز الٰہی اور ان کے ملازموں سمیت50نامعلوم افراد پر کاٹے جانے کے بعد ریاستی جبر کے ایسے چلن کا اعادہ کیا گیا کہ جب ریاستی اداروں کے ذریعے کسی پر حملہ آور ہوا جائے اور اگر وہ اپنے بچائو کی کوشش کرے تو اس پر دہشت گردی اور کار سرکار میں مداخلت کی ایف آئی آرز درج کرا دی جائیں۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ جو ڈرامہ پارلیمنٹ میں180ووٹوں کا رچایا گیا وہ اصل میں167ووٹ تھے اور اس لئے بھی چودھریوں کے گھر واردات ڈالی گئی۔ آج ریاست پاکستان میں اتنی گھٹن ہو چکی کہ سانس لینا بھی مشکل دکھائی دے رہا۔ آج پاکستان میں قانون و آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں جس کی بازگشت اقوام متحدہ، یورپ کے مختلف ممالک کی پارلیمنٹس اور اب تو امریکہ کی کانگریس میں بھی نکتہ چینی شروع ہو چکی ہے جس نے ریاست پاکستان کا امیج بری طرح مجروح کیا ہے۔ اسلام آباد اور پنجاب پولیس اس وقت ایک ایسی نگران حکومت (پنجاب) کے زیر حکم انسانی حقوق اور عوام کی شخصی آزادیوں کو غضب کرنے کے ساتھ عوام پر سرعام ظلم و تشدد کر رہی ہے جو آئینی ماہرین کے مطابق نوے روز گزرنے کے بعد غیر آئینی اور غیر قانونی ہو چکی ہے۔ پاکستان میں جنگل کا قانون زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا اور اگر فوری طور پر ملک میں جمہوری روایت کی پامالی اور آئین پاکستان کو روندنے کا سلسلہ بند نہ کیا گیا تو پھر ریاست کی سالمیت بہت بڑی مشکل میں پڑ جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button