CM RizwanColumn

بحران در بحران نوجوان پریشان ۔۔ سی ایم رضوان

بحران در بحران نوجوان پریشان

سی ایم رضوان
ملک میں جاری مستقل سیاسی عدم استحکام، معاشی، اخلاقی اور انتظامی بحران نے لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند پاکستانیوں بالخصوص نوجوانوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنرمند نوجوان بہتر مستقبل کے لئے اپنی دھرتی اور خاندانوں کو چھوڑ کر دیار غیر جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ پہلے تو یہ تھا کہ اگر کوئی پاکستانی روزگار کے لئے بیرون ملک جانے کا سوچتا تو امریکا، کینیڈا اور چند ایک خلیجی ریاستوں کے نام ذہن میں آتے لیکن اب نوجوانوں کی مایوسی کا یہ عالم ہے کہ مغربی، یورپی اور خلیجی ممالک کے ساتھ وہ افریقی ممالک اور عراق تک جانے کو تیار ہیں یعنی اپنے ملک کا مستقبل اس قدر غیر یقینی ہو چلا ہے کہ جس کو جہاں جانے کا موقع مل رہا ہے وہ وہیں اپنا معاشی مستقبل جوڑ رہا ہے۔ بیورو آف امیگریشن کی ایک دستاویز کے مطابق سال 2021میں بہتر روزگار کے لئے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد 300فیصد زیادہ ہوگئی تھی۔ سال 2022میں 7لاکھ سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنرمند نوجوان پاکستان چھوڑ گئے تھے۔ ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ٹی ایکسپرٹس۔ اکائونٹنٹس اور پیرامیڈیکس شامل ہیں جن میں سے بیشتر کی منزل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھی۔ یورپ جانے کے خواہشمند نوجوانوں نے رومانیہ تک کو ترجیح دی۔ بیورو آف امیگریشن کے مطابق بڑھتی مہنگائی، بیروزگاری اور سیاسی بے یقینی نوجوانوں کے اس برین ڈرین کی بڑی وجہ بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال پاکستان سوا 7ہزار انجینئرز، ڈھائی ہزار ڈاکٹر، 1600نرسز، 2 ہزار کمپیوٹر ایکسپرٹس، 6500اکائونٹنٹس، 2600زرعی ماہرین اور 900اساتذہ سے محروم ہو گیا اور سعودی عرب، یو اے ای، عمان، قطر، کویت، عراق، ملایشیا، چین، جاپان، ترکی، سوڈان، رومانیہ، برطانیہ، اسپین، جرمنی، یونان اور اٹلی الغرض جہاں بھی پڑھے لکھے اور ہنرمند نوجوانوں کو روزگار ملنے کی امید نظر آئی انہوں نے وہاں کا رخ کیا۔ یقین جانیے کہ ملک میں افراتفری اور بے یقینی پیدا کرنے والے ایک ضدی، ہٹ دھرم اور انتشار پسند سیاست دان عمران خان اور ان کے سہولت کاروں کے پیدا کردہ اس سیاسی عدم استحکام اور موجودہ معاشی ابتری نے ہمارے حقیقت پسند نوجوانوں کو مایوس کر دیا ہے جبکہ قلیل تعداد میں نوجوان پی ٹی آئی کی تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان حالات میں یہ ریکارڈ برین ڈرین پاکستان کی افرادی قوت کے لئے خوفناک جھٹکا ہے۔ سال 2022ء کے آخری روز کی ایک جھلک ملاحظہ ہو کہ اسلام آباد پولیس فورس میں کنسٹیبل ( بی ایس-07) کی اسامیوں کے لئے تحریری امتحان منعقد ہوا جس میں پاکستان بھر سے 30ہزار سے زائد مرد اور خواتین امیدواروں نے شرکت کی۔ جس اسٹیڈیم میں یہ امتحان ہوا وہ اس طرح بھرا ہوا تھا گویا وہاں فٹ بال کا میچ شروع ہونے والا ہو۔ یہ 30ہزار سے زائد افراد صرف ایک ہزار 667اسامیوں کے لئے امتحان دے رہے تھے۔ اس ملازمت کے لئے نشستیں اوپن میرٹ پر مختص تھیں جبکہ علاقائی کوٹے میں خواتین اور اقلیتوں کے لئے مزید تقسیم کی جاتی۔ امتحان میں شرکت کرنے کے لئے امیدواروں کا میٹرک پاس ہونا شرط تھا اگر وہ جسمانی امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب انہیں شارٹ لسٹ کر کے تحریری امتحان کے لئے بلایا جاتا۔ انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ اگر اسامی کے لئے جسمانی امتحان کی شرط نہ ہوتی تو امتحان میں بیٹھے امیدواروں کی تعداد اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہوتی۔ اس امر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے پاس ملازمت کے مواقع کس قدر محدود ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر دور حکومت میں روزگار پیدا کرنے اور اس کی فراہمی جیسے مسائل کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے۔ اب تو انتہا ہو چکی ہے کہ ہم اس وقت قرضوں کی ادائیگی، غیر یقینی معاشی اتار چڑھائو اور دیوالیہ ہونے کے خطرے جیسے مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔پاکستان میں سرکاری ملازمتوں کی کمی کے بعد نجی شعبہ ہی روزگار کے حوالے سے پائیدار حل پیش کر سکتا ہے لیکن افسوس کہ ہر حکومت نجی شعبے کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے میں یا تو ناکام ہوتی ہے یا بدنیت۔ مانا کہ کچھ انفراسٹرکچر اور ریگولیٹری رکاوٹیں نجی شعبے کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں لیکن مناسب منصوبہ بندی سے ان رکاوٹوں کو دور کرنا بھی تو انہی حکومتوں کی ذمہ داری ہے جو ٹولوں اور گروہوں کی صورت حکومت میں آتے ہیں اور لوٹ مار کر کے چلے جاتے ہیں۔ تازہ واردات تبدیلی والوں نے ڈالی ہے جن کو اب جونہی احتسابی ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو ہاتھ جل جاتا ہے اور نظر آتا ہے کہ ان کا سہولت کار عالمی استعمار پاکستانی قوانین اور حکومتی رٹ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ نوجوانوں کی بے روزگاری کی ایک بڑی وجہ 18سے 25سال کی عمر کے نوجوانوں میں مہارت کی عدم مطابقت ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد معیاری تعلیم اور ہنر تک رسائی سے محروم ہے۔ خوش قسمتی کہہ لیں یا بدقسمتی کہ پاکستان کی 64فیصد آبادی 30سال سے کم عمر ہے۔ نوجوانوں کا ایک ہجوم بیروزگار ہے۔ 2021میں پاکستان کے ادارہِ شماریات کی جانب سے لیبر فورس سروے میں بیروزگاری میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ آئندہ سالوں میں بھی نوجوانوں کو ملازمت کی تلاش میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔ اس کے پیچھے ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنرمند نوجوان اپنی تعلیم اور ہنر کے مطابق نوکری نہ ملنے کے باعث کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور موزوں امیدوار محروم رہ جاتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس میں بھرتی کے لئے امیدواروں کے ہجوم نے بھی اسی رجحان کی عکاسی کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان میں یونیورسٹی سے گریجوایٹ طلبا میں بیروزگاری کی شرح 31اعشاریہ 2فیصد ہے یعنی اعلیٰ تعلیم کی طلب میں اضافے اور نوکریوں میں کمی کے باعث ملک میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تعلیمی اداروں اور لیبر مارکیٹ کے درمیان تطابق کی کمی کا شاخسانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی ماہرین اور ماہرینِ تعلیم روزگار کے بہتر مواقع کی تلاش میں ملک سے باہر جانے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ یا تو پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں یا پھر چھوڑنے کی تیاری کررہے ہیں۔ یہ باصلاحیت لوگ ملک میں ملازمت کے کم مواقع اور نامناسب تنخواہوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ یہ لوگ حکومت، سیاسی قیادت اور مجموعی طور پر موجودہ معاشی و سماجی نظام پر اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان سے اعلیٰ تعلیم کے لئے ملک سے باہر جانے والے نوجوانوں کی شرح 7فیصد سے زائد ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح 2.7فیصد ہے۔ برین ڈرین کی بڑھتی ہوئی شرح کا یہ اثر بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم پر سرمایہ کاری شاید تیز رفتار اقتصادی ترقی میں مددگار ثابت نہ ہو کیونکہ یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑ دیتی ہے۔ لہٰذا جب تک ہم تعلیم یافتہ اور باصلاحیت لوگوں کی بڑی تعداد کے ملک سے باہر جانے کو روک نہیں لیتے تب تک شاید بہتر تعلیمی مواقع پیدا کرکے مخصوص مہارتوں کی کمی کو دور کرنے کی کوششیں بھی رائیگاں جائیں گی۔ حکومتوں کو لاتعداد بیروزگار نوجوانوں کی جھولی میں مٹھی بھر اسامیاں ڈال کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ جیسے مظالم سے اب باز آجانا چاہئے کیونکہ اگر اب تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے مسئلے کو سنجیدگی سے حل نہ کیا گیا تو یہ مستقبل میں معاشرتی عدم توازن، تفسیاتی مسائل اور دہشت گرد سرگرمیوں میں بھی اضافے کا باعث بنے گا۔ اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی باہمی الزام تراشیوں اور عدلیہ کے بعض فیصلوں کی بنا پر عدلیہ کی غیر جانبداری کا مشتبہ ہو جانا بھی قومی زندگی کا نہایت تشویش ناک پہلو ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ دستوری ادارے بھی، جن کی طرف کبھی اُمید سے دیکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ کم از کم وہاں سے انصاف کا حصول ممکن ہو سکے گا اور وہ مسائل کا حل اور سلجھائو کر لیں گے۔ وہ اب کھلی عوامی تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ان حالات میں ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوسی اور پڑھے لکھے ہنرمند نوجوانوں کی ملک سے باہر منتقلی میں اضافہ تشویشناک ہے۔ ہر جگہ مایوس کن تبصروں کی بنا پر معاشرہ تقسیم در تقسیم اور ذہنی و فکری ہم آہنگی سے محرومی کا شکار ہو چکا ہے۔ نہ صرف حکومتی اداروں کے درمیان بلکہ گھروں کے اندر بھی ایک واضح اختلافی تقسیم نظر آ رہی ہے۔ یہ تقسیم اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو یہ حالات کو انتہائی نقصان دہ حد تک بلکہ ٹکرائو کی طرف لے جا سکتی ہے جو ملکی یک جہتی اور اتحاد کے لئے تباہ کن ہوگی۔ وطن عزیز کے بعض طبقوں میں دین سے دُوری، لاعلمی اور فحاشی کا رجحان، تاجر پیشہ طبقے کی مفاد پرستی، نوکر شاہی کی فرائض سے لاپروائی اور اداروں کے باہمی عدم تعاون کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی ملکی نظام معیشت پر بے اعتمادی بالآخر بڑے طوفان کا باعث ہو گی۔ ہمیں آج ہی جاگ جانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button