ColumnImtiaz Ahmad Shad

پاکستان عدم استحکام کا شکار کیوں؟ .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

پاکستان ہر لحاظ سے عدم استحکام کا شکار ہے، ایسا کوئی شعبہ زندگی نہیں جہاں استحکام پایا جاتا ہو۔ علم سماجیات کے مطابق وہ معاشرے عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں جو سیاسی اور معاشی طور پر کمزور ہوں، جہاں ریاستی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہو اور جہاں کی آبادی کی اکثریت گرد و پیش کے حالات اور مستقبل کے حوالے سے مطمئن نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ قریش میں انسانیت پر اپنے دو انعامات کا ذکر کیا ہے جن میں پہلا انعام بھوک کی حالت میں رزق کا میسر آنا ( یعنی معاشی خوشحالی) اور دوسرا خوف کی حالت میں امن کا پیدا ہونا ( یعنی سیاسی استحکام) شامل ہیں۔ اسی طرح سورۃ نحل میں قرآن حکیم نے ایک ایسے معاشرے کو بطور مثال پیش کیا ہے جس میں رزق کی فراوانی اور اطمینان و سکون کی کیفیات کا غلبہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی ناشکری اور اس کے احکامات کی نافرمانی کے نتیجے میں اس معاشرے پر بھوک اور خوف کا عذاب مسلط ہو گیا۔ ان واضح ہدایات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر وہ معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے جہاں انسانوں کی اکثریت بھوک، غربت، غیر یقینی اور خوف کا شکار ہو، جبکہ صرف ان معاشروں کو مستحکم قرار دیا جاسکتا ہے جہاں انسانوں کو امن و اطمینان اور معاشی خوشحالی میسر ہو۔ زندہ قومیں اپنے ماضی اور حال کا کھلے دل و دماغ سے جائزہ لیتی ہیں اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ترقی کی راہوں پر آگے بڑھتی ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور کامیابی میں وہاں کا ریاستی نظام مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ ریاستی نظام کا بنیادی کام ملک میں موجود مختلف شناختوں، پیشوں اور قومیتوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا، انہیں ایک مرکز پر اکٹھا کرنا، عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے لئے پالیسیاں ترتیب دینا اور معاشرے میں خوف اور عدم اطمینان کا خاتمہ کر کے امن اور سکون کی فضاء پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں امن اور خوشحالی کا غلبہ ہے یا پھر بھوک اور خوف کا؟ اس سوال پر غور و فکر اور تحقیق کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بنیادی انسانی حقوق انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں اور وہ انہی طبقات کو دستیاب ہیں جو ان کی بھاری قیمت چکا سکتے ہیں۔ حکومتی اداروں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 80فیصد سے زائد آبادی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔ صحت اور تعلیم پر ریاستی خرچ کے حوالے سے ہمارا شمار دنیا کے بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔ 60فیصد سے زائد بچے اور مائیں غذائی کمی کا شکار ہیں۔ جو معاشرہ اپنی آنے والی نسل کو مناسب خوراک بھی نہ دے سکے، اس کے تاریک مستقبل کا اندازہ لگانا کچھ مشکل کام نہیں ہے۔ دوسری طرف پورے ملک میں فرقہ واریت، عدم برداشت، لوٹ مار اور سیاسی و سماجی تقسیم در تقسیم کا ماحول غالب ہے۔ چاہے امیر ہو یا غریب، یہاں کوئی شخص بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ اسی لئے ہر شخص جلد از جلد، زیادہ سے زیادہ مال اور وسائل حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اپنے خاندان کی حفاظت کر سکے۔ ایک دیہاتی ان پڑھ سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری نوجوان تک سب کی خواہش یہی ہے کہ کسی طرح وہ یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ نہ تو یہاں ان کی محنت کے قدر کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں سماجی اطمینان اور عزت حاصل ہے۔ یہی وہ عدم استحکام کی کیفیت ہے جس کا شکار ہمارا پورا معاشرہ ہو چکا ہے۔ عدم استحکام کی صورت حال اور اس کی وجوہات کو سمجھنے کے لئے ہمیں اپنے اردگرد کے ممالک کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے جو کہ ایک انقلابی عمل سے گزرے اور آج وہاں کے حالات ہم سے بہت بہتر ہیں۔ مثلاً، چین جو کہ ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا اور چینی لوگ جو کہ پوری دنیا میں افیمی قوم کے طور پر مشہور تھے، لیکن آج وہی چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ اسی طرح ایران، جہاں 1979 ء میں سماجی تبدیلی کا عمل کامیاب ہوا، آج وہ دنیا میں اپنا مقام بنا رہا ہے۔ ہر طرف سے پابندیوں کے باوجود ایران نے نہ صرف اپنی قومی خود مختاری کا دفاع کیا ہے بلکہ انسانی معیار زندگی، امن و امان، صحت، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ میں بھی ترقی کا سفر طے کر رہا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ کیا ہمارا خطہ، یعنی براعظم پاک و ہند، ہمیشہ سے اسی طرح کی بھوک، غربت یا بدحالی کا شکار رہا ہے یا پھر اس کے ماضی میں بہت سی درخشاں مثالیں بھی موجود ہیں؟ عام طور پر ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، اس میں انگریز کے آنے سے پہلے کے دور کی انتہائی منفی منظر کشی کی جاتی ہے خاص طور مغل حکمرانوں کا تعارف عیاش، ظالم اور نا اہل حکمرانوں کے طور پر کروایا جاتا ہے حالانکہ سولہویں اور سترہویں صدی میں مغل حکمرانوں کے ماتحت براعظم پاک و ہند دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھا۔ اپنی ترقی اور خوشحالی کی وجہ سے یورپ میں اسے سونے کی چڑیا کی نام سے پکارا جاتا تھا اور پوری دنیا سے سیاح اور تاجر اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریز نے اس خوشحال اور تعلیم یافتہ خطے کو قحط، بدحالی، صنعتی تباہی اور جہالت میں مبتلا کر دیا۔ پاکستان میں عدم استحکام کا بڑا سبب، معاشی خود انحصاری کا نہ ہونا ہے۔ اپنی تخلیق سے لے کر آج تک، بشمول پہلے بجٹ کے، ملک کے تمام بجٹ خسارے کے بنتے رہے ہیں۔ یعنی اخراجات زیادہ ہیں اور آمدنی کم ہے اور ملکی معیشت ہر وقت ایک بحران کی کیفیت کا شکار رہتی ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں سے قرض لئے جاتے ہیں جو کہ آگے چل کر اپنی مرضی کی سیاسی اور معاشی پالیسیاں بنواتے ہیں۔ ہمارے حکمران جب دنیا کے امیر ممالک میں عوام کے نام پر بھیک مانگنے جاتے ہیں تو وہاں کی قیادت ان کے اللے تللے دیکھ کر پریشان رہ جاتی ہے کہ کیا یہ واقعی تیسری دنیا کے ایک ملک کے حکمران ہیں جہاں عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہے اور ہر طرف بھوک، غربت، بدامنی اور جہالت کا راج ہے۔ ہمارے قومی مسائل کے حل کے راستے میں جو بڑی رکاوٹیں حائل ہیں ان میں مایوسی، جلد بازی، انفرادیت اور خود غرضی شامل ہیں۔ اس ضمن میں نوجوانوں کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے کیونکہ نوجوانوں میں عقل اور عمل دونوں کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ جس قوم کا نوجوان اپنے حقوق و فرائض کا تعارف حاصل کر لے اور اپنے اندر عقل و شعور، اجتماعیت اور نظم و ضبط پیدا کر لے، اس قوم کو ترقی کی منازل حاصل کرنی سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا نوجوان مستقل بنیادوں پر باہمی مکالمے اور مذاکرے کا آغاز کرے۔ ایسی نشستوں میں شرکت کی کوشش کرے جہاں قومی مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے بات ہوتی ہو۔ سیاستدانوں کی باتوں میں آنے کے بجائے اپنے ملکی حالات پر غور و فکر کرے اور اس بات کا جائزہ لے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ہم نے اپنی آزادی کے پچھتر سالوں میں کیا کھویا اور کیا پایا اور جس سمت میں ہم جا رہے ہیں کیا اس پر چل کر ہم دنیا کی باعزت اور ترقی یافتہ قوموں میں اپنا مقام بنا سکیں گے؟

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button