ColumnJabaar Ch

نظریہ گنجائش .. جبار چودھری

جبار چودھری

عید گزر گئی لیکن سیاسی ہلچل عین اسی طرح جاری ہے جیسے عید سے پہلے جاری تھی۔ پنجاب میں الیکشن کے لیے عدالتی اور انتظامی دنگل ابھی تک بے نتیجہ ہے۔ چیف جسٹس صاحب کی ساس اور عمران خان کے وکیل خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کی ٹیلی فون کال سامنے آنے سے عید کی چھٹیوں میں بھی کانٹینٹ کی بھوکی قوم کو مصالحہ میسر رہا ۔ اس آڈیو کے لیک ہونے کے بعد پھر ایک بار وہی بحث چلی کہ کسی کی ذاتی گفتگو کو ریکارڈ کرنا غیرقانونی ہے تو دوسری طرف سے بھی وہی پرانے دلائل کہ ریکارڈنگ کو چھوڑیں اس آڈیو ٹیپ میں جو کہا جارہا ہے وہ اصل چیز ہے۔ اس بار تو ایک بات یہ بھی سامنے لائی گئی جس میں کافی وزن ہے۔ جوابی دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی دی جارہی ہے کہ جس وقت سپریم کورٹ کے سینئر جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مقدمہ جناب چیف جسٹس کے سامنے تھا تو جسٹس قاضی فائز نے بینچ کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ ان کی فیملی کی جاسوسی کے لئے پرائیویٹ ڈیٹیکٹو ہائر کئے گئے ہیں لیکن جناب عمر عطا بندیا ل کا فوکس قاضی صاحب کو اہلیہ سمیت ذلیل کرنے پر مرکوز تھا تو انہوں نے اس سنجیدہ ترین ایشو کو اس قابل ہی نہ سمجھا کہ بات بھی کی جائے ۔ یہ موقع اب بھی چیف جسٹس صاحب کے پاس موجود ہے وہ عید کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی اس آڈیو کا نوٹس لے کر ان سب کو حاضری کا حکم دیں اور پوچھیں کہ آڈیوز کون ریکارڈ کرتا ہے۔ اگر چیف جسٹس صاحب یہ اقدام اٹھا لیں تو شاید یہ سلسلہ کم ہوجائے۔ خیر ایسی آڈیوز یا ویڈیوز کی کوئی قانونی حیثیت تو نہیں ہے لیکن تماش بین قوم کے لیے تماشے کا سامان وافر۔ ویسے بھی لڑائی چونکہ کسی اصول اور نظریے کے بغیر ہے اس لیے وار بھی ایسے ہی ہوں گے۔ اصل وار تو الیکشن کا وار ہے، جس کیس کی سماعت کل سے دوبارہ شروع ہوگی۔ گزشتہ سماعت اس نقطے پر ختم ہوئی تھی کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات اور بات چیت کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ بات چیت کے لیے جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق صاحب دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ہمارے دوست اور جماعت کے سیکرٹری اطلاعات جناب قیصر شریف صاحب بھی یکساں مصروف ہیں۔ سراج الحق صاحب نے جو موقف چیف جسٹس کے سامنے کھلی عدالت میں پیش کیا وہ بات اس کیس کی سماعت کے دوران بڑے بڑے وکیل بھی کہنے کی جرات نہیں کر سکے۔ ان کی بات ہے بھی حرف بحرف سچ کہ اگر معزز سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن نوے دن کی بجائے ایک سو پانچ دنوں میں کروانے کا حکم جائز ہوسکتا ہے تو پھر دو سو پانچ دن کرنے میں کیا حرج ہے؟ حقیقت بھی یہی ہے کہ بات جب نوے دن سے آگے جاہی چکی ہے تو پھر مزید آگے لے جانے میں کیا قباحت ہے اور مجھے لگتا بھی یہی ہے کہ 14مئی کو پنجاب میں الیکشن مشکل سے ہی ہوں گے۔ ہم بھی ویسے وکھری ٹائپ کے ہیں۔ ہاتھی کو گزرنے کے لیے باقاعدہ سہولت فراہم کرتے ہیں لیکن دم پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہاتھی کو روک لیں گے۔ آج بھی کچھ لوگ نوے دن کی دم پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن جانتے وہ بھی ہیں کہ نوے دن کے ہاتھی کو معزز سپریم کورٹ خود گزار چکی ہے اور سلمان اکرم راجہ، اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ جیسے وکیل نوے دن کی دم پکڑکر بیٹھے ہیں۔ کیا آئین کے محافظ سلمان اکرم راجہ صاحب جو پی ٹی آئی کے وکیل بننے کے بعد اپنی سیاسی رائے اسی پلڑے میں ڈال چکے ہیں وہ جناب بندیال صاحب سے سوال کریں گے کہ مائی لارڈ آئین میں نوے دن لکھے ہیں تو جناب نے کس آئین کے تحت ایک سو پانچ دن کئے تھے؟ اور جو نوے دنوں میں الیکشن نہ کروانے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں سزا دینے کی بجائے یہ مذاکرات کی صورت میں ’’ گنجائش‘‘ نکالنے کی باتیں کس آئین میں درج ہیں؟۔ ہاتھیوں کے پائوں تلے آئین کو پامال کرانے میں اگر ہمارا بطور قوم کردار ہے تو عدلیہ اس کی سرخیل ہے۔ ہمارے ہاں مارشل لا کے ہاتھی اپنی مرضی سے کمرے میں داخل ہوتے رہے۔ جب تک دل چاہا قیام کیا۔ سب کچھ اپنی مرضی سے کیا کھایا پیا عیش کی جب دل بھر گیا یا وقت آیا تو خود ہی کمرہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں سیاست دانوں نے مارشل لا لگنے پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ جنرل ضیا تشریف لائے تو آئین یہی تھا۔ انہوں نے پامال کیا۔ اور عدلیہ نے کہا حضور آپ کا اقتدار سلامت آئین بہت۔ جنرل ضیا نے آئین میں آٹھویں ترمیم ڈال کر اسمبلی توڑنے کا اختیار خود لے لیا اور پھر اپنی بنائی ہوئی جونیجو حکومت توڑ ڈالی۔ اسلام چاہنے یا نا چاہنے والا ریفرنڈم کروا ڈالا اور یہی عدلیہ ’’ گنجائش‘‘ نکال کر دیتی رہی۔ جنرل ضیا چلے گئے لیکن آٹھویں ترمیم نے نوے کی دہائی میں چار حکومتیں گرا دیں۔ پرویز مشرف نے مارشل لا کے ہاتھی کو اس ملک کی چراگاہ میں کھلا چھوڑا تو عمران خان شیروانی اٹھائے ان کے پولنگ ایجنٹ بن گئے۔ مشرف آئے تو عدلیہ نے پھر چشم ما روشن اور دل ماشاد کے نغمے گائے۔ جسٹس ارشاد حسن صاحب ایک منتخب صدر کو برطرف کرنے کے بعد وردی سمیت ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے حلف لینے ایوان صدر پہنچ گئے تھے ۔ انہوں نے بھی اس کی ’’ گنجائش ‘ کہیں سے تو نکالی ہوگی۔ یہی نہیں ہماری عدلیہ نے اس آئین شکنی کو نہ صرف جواز دیا بلکہ پرویز مشرف کو یہ اختیار تک دے دیا کہ حضور یہ ملک آپ کا۔ ہم آپ کے یہ آئین کا آپ چاہیں تو بغیر پارلیمنٹ کے اس آئین میں ترمیم کریں، دوبارہ لکھ دیں یا اضافہ کریں۔ آپ اس ملک میں ایل ایف لگائیں ہم حاضر۔ آپ یہاں پی سی او نافذ کریں ہم حاضر۔ اس آئین میں تو جمہوریت ہے لیکن ملک میں مارشل لا تھا اور آئین کو بھی نافذ رہنے کی گنجائش دی گئی۔ اس ملک میں صدر منتخب ہوتا ہے لیکن پرویز مشرف کو فوجی وردی میں صدر بننے کی گنجائش دی گئی۔ پرویز مشرف نے اسی عدلیہ کے ہوتے ہوئے اپنی مرضی سے حکومت کی۔ یہاں تک کہ دو ہزار سات میں ایک بار پھر ایمرجنسی نافذ کردی۔ پی سی او لگایا تو پھر معزز ججز کا ایک ہجوم حلف اٹھانے امڈ آیا۔ سپریم کورٹ کو ڈوگر کورٹ بنا دیا گیا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے ہمیں کسی ہاتھی سے مسئلہ نہیں ہے ہمیں بس مخالف ہاتھی سے مسئلہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آئین کو ہاتھی روند ڈالے کوئی بات نہیں بس آئین کو روندنے والا ہاتھی ہمارا ہونا چاہئے۔ ہم اس ہاتھی پر سوار ہوں یا اس کا بچا ہوا کچھ بھوجن ہماری تھالی میں بھی آنا چاہئے اگر یہ اہتمام ہے تو پھر خیر ہے۔ اس وقت بھی یہی لڑائی ہے۔ آئین کے تقاضوں کی کسی کو پروا نہ پہلے تھی نہ آج ہے۔ بس کسی طرح ایک صوبے میں الیکشن ہوجائیں تگ و دو بس اتنی سی ہے۔ کمال آئین پسند اور آئین کے محافظ ہیں کہ دو صوبوں میں ایک ساتھ اسمبلیاں ٹوٹیں اور آج الیکشن کے لیے آئینی گردان صرف پنجاب کے لیے جاری ہے۔ ایک ہی آئین ہے ایک ہی سپریم کورٹ ہے ملک میں ایک ہی قانون ہے لیکن عملدآمد صرف ایک صوبے کا مسئلہ ہے۔ خیبر پختونخوا میں آئین شکنی کی نہ فکر سپریم کورٹ کو ہے نہ گول مول کانفرنس کرنے والوں کو ہے اور نہ ہی عمران خان صاحب کو ہے۔ آئین پر عمل اس میں گنجائش نکال کر کرنے کی کوشش جب بھی کی گئی نقصان ہی ہوا ہے۔ قانون اندھا ہوتا ہے تو اس کو ’’ گنجائش‘‘ نہیں، آئین پر عمل نہ کرنے اور نوے دن سے آگے الیکشن لے جانے والوں کو سزا دینی چاہئے تھی۔ چاہے اس سزا میں کوئی حکومت جاتی یا الیکشن کمیشن جاتا۔ کسی سیکرٹری دفاع کی شامت آتی یا سیکرٹری خزانہ کی بھلی چڑھتی لیکن یہاں سارا زور الیکشن کے لیے راستے اور گنجائش نکالنے پر ہے۔ کیا نظریہ ضرورت کے بعد اب نظریہ گنجائش لاگو کرنے کی کوشش ہورہی ہے؟۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button