Column

اداروں کی بدنامی یا ملک کی

روہیل اکبر

عجب دور حکمرانی ہے کہ ہر ادارے کو بدنام کیا جارہا ہے بلکہ پاکستان کو بدنام کیا جارہا ہے یہاں تک کہ ہم نے اپنی فوج کو بھی نہیں بخشا ہمارے فوجی جوان جو شہادتیں دے رہے ہیں وہ ملک کی خاطر ہیں غریب گھرانوں سے نوجوان بچے رزق حلال کی تلاش میں جب کسی نہ کسی ادارے میں نوکری کرنے کے لیے جاتے ہیں تو ان کے اندر ایک جذبہ ہوتا ہے پاکستان کی خدمت کا لیکن ہم اور ہمارے حکمران انہیں زندگی کی رنگینیوں سے دور بھیج کر مشکل ترین حالات کے سپرد کر دیتے ہیں۔ ذہین اور قابل ترین بچے بھی جب اس نظام میں داخل ہوتے ہیں تو انکی سبھی کی سبھی ذہانت مٹی میں مل جاتی ہے، انگریز کے بنائے ہوئے اس قانون نے تو ہمیں محکوم بنا کر رکھا ہوا تھا، جو اب بھی ہے ایک کانسٹیبل بھرتی ہونے والا ساری عمر مزدوروں کی طرح کام کرکے کانسٹیبل ہی ریٹائر ہو جاتا ہے اور اس سے ملنے والے پیسوں سے اپنی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتا۔ ایک نوکری کرنے کے بعد دوسری نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، کبھی سکیورٹی گارڈ بھرتی ہوتا ہے تو کبھی چوکیدار بن جاتا ہے اور تو اور ہمارے استاد جو سکولوں میں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں، انکی ترقی ہے اور نہ ہی کوئی سہولت، ایک خاتون ٹیچر جو دور دراز سے پڑھانے آتی ہے اسے ہم کوئی سہولت نہیں دے سکے بلکہ کچھ تو ہوس کے مارے ہوئے مفاد پرست قسم کے افسر، ان کی اس مجبوری سے ناجائز فائدے اٹھاتے ہیں اور رہی سہی کسر محکمہ ایجوکیشن کے کلر ک پوری کر دیتے ہیں۔ امید ہے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی اس پر بھی توجہ دیں گے کہ جن اساتذہ کی نوکری کو 10سال سے زائد ہوگئے ہیں انہیں اگلے سکیل میں پرموٹ کر دیں اور دور دراز سے آنے والی خواتین ٹیچر ز کو گھر کے قریبی سکول میں تعینات کر دیا جائے یا انہیں سواری دی جائے کیونکہ محسن نقوی نے پنجاب میں وہ کام کر دئیے ہیں جو آج تک کوئی نہیں کر سکا خاص کر پنجاب پولیس میں ریٹائر ہونے والے چھوٹے ملازمین کو ایک درجہ ترقی دیکر ریٹائر کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے جس سے بہت سے ملازمین کو فائدہ پہنچے گا۔ میں بات کر رہا تھا اداروں کو متنازعہ بنانے کی جس میں ہم بہت حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں آئے روز کسی نہ کسی کی باتیں ریکارڈ ہو کر میڈیا کی زینت بن رہی ہیں حالانکہ یہ اتنا سنگین جرم ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں کرنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا مگر ہم یہاں نہ صرف دھڑلے سے کر رہے ہیں بلکہ فخر بھی کرتے ہیں بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے اور اسے طویل کرنے کے لیے وہ ہر طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔ اداروں کی بدنامی سے لیکر آئین کی پامالی تک جبکہ سیاست کو تجارت بنانے والے اب عدلیہ پر انگلی اٹھا رہے ہیں اور پارلیمنٹ کو عدلیہ کے خلاف صف آراء کر رہے ہیں، جو جماعتیں آج حکومت میں ہیں، ان کا ماضی گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی فوج اور کبھی عدلیہ کو ٹارگٹ کر کے کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت ریاست کو مافیاز سے خطرہ ہے، 23کروڑ عوام کی گردنیں مافیا کے شکنجے میں ہیں، چوں چراں بھی نہیں کر رہے حالانکہ اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ عوام مہنگائی سے تنگ ہیں، ملک میں مہنگائی کی شرح44.49فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ مجموعی طور پر ملک کے 70فیصد کاروباری ادارے مشکل حالات کا شکار ہیں۔ پنجاب کے 64فیصد کاروباری ادارے خراب صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، ملکی برآمدات 10فیصد کم ہوگئی ہیں، جو مسلسل کمی کا شکار ہے شرح نمو6 فیصد سے کم ہوکر0.4فیصد پر آگئی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر میں اضافہ سے معیشت دبائو کا شکار ہے۔ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی تیزی سے بڑھ رہی ہے، برآمدات میں کمی خام مال، ضروری سپیئر پارٹس کی درآمد پر پابندی، مسابقتی قیمتوں پر توانائی کی مناسب فراہمی کی کمی اور سیلز ٹیکس ریفنڈ سسٹم کی ناکامی کی وجہ سے 50فیصد انڈسٹری بند ہو چکی ہے۔ پچھلے دور میں غیر ملکی موبائل فون کمپنیوں نے اپنے پلانٹ پاکستان میں لگائے تھے، جس کی وجہ سے موبائل فون سستا بھی تھا اور لوگوں کو روزگار بھی ملا ہوا تھا۔ اب ان حالات میں پاکستان میں موبائل فون بنانے والی تمام کمپنیاں بند ہو چکی ہیں اور زیادہ تر کمپنیوں نے ملازمین کو فارغ کر دیا ہے، اس وقت 3غیر ملکی کمپنیوں سمیت ملک کی تقریباً 30موبائل فون کمپنیوں کی پیداواری سرگرمیاں بند ہو چکی ہیں۔ ملک کا تباہ کن معاشی بحران موبائل فون انڈسٹری کو کیوں نگل گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ درآمدی پابندیوں کے سبب ان کے پاس خام مال ختم ہو گیا ہے، اس لیے جب سامان ہی نہیں ہوگا تو موبائل فون کیسے تیار ہونگے۔ اس لیے پلانٹ بند ہیں جس سے تقریباً 20ہزار ملازمین کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے۔ زیادہ تر کمپنیوں نے ملازمین کو اپریل کی تنخواہوں کا نصف ایڈوانس ادا کرنے کے بعد فارغ کر دیا ہے، اگر ہماری معیشت کی یہی صورتحال رہی تو آنے والے دنوں میں پاکستان کہاں کھڑا ہوگا۔ حکمران پاکستان میں نظر آئیں گے یا پھر وہاں چلے جائیں گے، جہاں انہوں نے گھر بنا رکھے ہیں۔ آخر میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی اور تجارتی رہبر احسن سلیم بریار کے مطابق تاریخی مہنگائی نے صارفین کی قوت خرید کو کم کر دیا ہے، جس کے باعث پنجاب کے64فیصد کاروباری ادارے خراب صورتحال کا شکار ہیں اور 38فیصد کاروباری اداروں نے افرادی قوت میں کمی کر دی ہے۔ 72فیصد کاروباری ادارے پاکستان کے ممکنہ ڈیفالٹ کی وجہ سے پریشان ہیں، حکومت نے اب تک کوئی معاشی روڈ میپ نہیں دیا۔ آئی ایم ایف کے ایما پر بجلی، گیس ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تسلسل سے اضافے سے صنعتی شعبہ بحران کا شکار ہے۔ درآمدی صنعتی خام مال بندر گاہوں میں ڈالر نہ ہونے سے رکا ہوا ہے، جس سے کاروباری ادارے بند ہورہے ہیں، جو خراب معاشی صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں، جس سے صنعتکاروں و تاجر پریشانی کا شکار ہیں اور ملک میں استحکام دیکھنا چاہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button