Editorial

تعلیم اورصحت کے شعبے خصوصی توجہ کے متقاضی

وطن عزیز میں صحت اور تعلیم کے حوالے سے صورت حال عرصہ دراز سے تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ آبادی کے تناسب سے تعلیم اور صحت کے حوالے سے حالات ہرگز موافق نہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے ملکی بجٹ میں بہت کم حصہ مختص کیا جاتا رہا ہے، جو بڑھتی آبادی کی ضروریات کے لحاظ سے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ بعض سابق حکومتوں نے تعلیم اور صحت کے شعبوں پر ہرگز توجہ نہ دی، جس کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ حالات مزید ابتر ہوتے چلے گئے۔ سابق حکومت کے شروع کردہ عوامی مفاد کے منصوبوں کو تعطل کا شکار رکھا گیا، جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ ایسے لاتعداد منصوبے قومی تاریخ میں ہوا میں معلق ہیں، جو سیاست کی نذر ہوئے، اُن کی بدقسمتی کہ وہ شروع تو کیے گئے، لیکن پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ اس طرح ملکی خزانے سے بیش بہا دولت کا ضیاع ہوا اور قوم کو اس کی وجہ سے بڑے نقصان برداشت کرنے پڑے۔ سابق حکومت کی بات کی جائے تو اُس نے بیشتر عوامی مفاد کے منصوبوں کو اس وجہ سے تکمیل تک نہیں پہنچایا کہ یہ اُس کی پیش رو حکومت کے شروع کردہ تھے، اُنہیں سیاست کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔ اس طرح عوام دشمنی کا ثبوت پیش کیا گیا، جسے کسی صورت مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس امر کی نشان دہی وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سابق حکومت نے دوسرے منصوبوں کی طرح اسپتالوں کو بھی نظرانداز کیے رکھا، عوامی خدمت، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سیاست نہیں ہونی چاہیے، انسانیت کی خدمت اور مریضوں کو علاج کی سہولتیں مہیا کرنا بہت بڑی عبادت ہے، ہم سب کو مل کر غربت، جہالت، بے روزگاری، بیماریوں کے خاتمے اور ملک کو قائدؒ اور اقبالؒ کا پاکستان بنانے کیلئے اکٹھے ہونا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے افتتاح کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے یورالوجی انسٹی ٹیوٹ کا معائنہ کیا ہے اور اس بات کی خوشی ہے کہ اس کے پہلے مرحلے میں آج سے باقاعدہ طور پر مریضوں کے بہترین علاج کا آغاز ہورہا ہے، یہاں پر دی جانے والی سہولتوں سے مطمئن ہوں، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مریضوں کو علاج مہیا کرنا ایک بہت بڑی عبادت ہے، اس اسپتال کی بنیاد 2009میں رکھی گئی تھی، 2013کے بعد ہم نے اس کیلئے فنڈز مہیا کیے، اب تک قریباً 5ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں، اس اسپتال کو دکھی انسانیت کے علاج کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن سابق حکومت نے باقی منصوبوں کی طرح اس اسپتال کو بھی نظر انداز کیے رکھا، لیکن کرونا کے دوران اس اسپتال نے بے پناہ خدمات انجام دیں کیونکہ یہاں پر عمارت اور وینٹی لیٹر موجود تھے اور کرونا کے علاج کا یہ اہم مرکز رہا، اسی طرح لاہور میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ میں بھی جگر اور گردے کی پیوندکاری کے سیکڑوں مریضوں کے علاج کا انتظام کیا گیا، لیکن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے مجھ پر اس معاملہ میں20ارب روپے ضائع کرنے کا الزام عائد کیا، وہ تو ہفتہ اور اتوار کو بھی عدالتیں لگاتے تھے، قوم کو کیوں نہیں بتایا کہ یہ پیسے کیسے ہڑپ کیے گئے؟ وزیراعظم نے کہا کہ اگر یہ 20ارب روپے غرق ہوگئے تھے تو پھر پی کے ایل آئی کرونا کے مریضوں کے علاج کیلئے ایک بڑا مرکز کیسے بن گیا تھا؟ وہاں پر 200وینٹی لیٹر مشینیں موجود تھیں اور اس انسٹی ٹیوٹ سے کرونا کے مریض دن رات شفایاب ہورہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پی کے ایل آئی کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ممتاز معالج ڈاکٹر سعید اختر امریکا سے میرے کہنے پر لاکھوں ڈالر تنخواہ چھوڑ کر مریضوں کی خدمت کیلئے پاکستان آئے تھے اور میں نے انہیں کہا تھا کہ گردے کے ساتھ جگر کی پیوندکاری کا بھی اسپتال میں انتظام ہونا چاہیے، اس سے پہلے پنجاب حکومت اربوں روپے خرچ کرکے گردوں اور جگر کے مریضوں کو علاج کیلئے بھارت اور چین بھجواتی تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پی کے ایل آئی میں چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے مریضوں کو بھی مفت پیوندکاری کی سہولت دی گئی ہے، پی کے ایل آئی کی چھتری تلے کام کرنے والے ہیپاٹائٹس کے علاج کے سینٹرز کو بھی اس سے ہٹاکر سابق حکومت نے دیگر اسپتالوں کے ساتھ منسلک کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں صوبہ بھر کے اسپتالوں میں جدید سہولتیں فراہم کی گئیں، اٹک، جہلم، راولپنڈی اور لیہ سمیت مختلف شہروں میں جدید لیبارٹریاں قائم کی گئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عوامی خدمت کے میدان میں سیاست کو شجر ممنوعہ ہونا چاہئے، کوئی بھی حکومت آئے یا جائے صحت اور تعلیم کے شعبے میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آئیں مل کر ملک کو قائدؒ اور اقبالؒ کا پاکستان بنانے کیلئے اکٹھے ہوجائیں اور غربت، جہالت، بے روزگاری اور بیماریوں کا خاتمہ کریں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ تعلیم اور صحت ایسے شعبے ہیں، جن کو کسی بھی صورت سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ ان شعبوں کی بہتری کے لیے تمام حکومتوں کو ذمے داری سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ صحت اور تعلیم کی بہترین سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر ملکی بجٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے انتہائی معقول حصہ مختص کیا جانا چاہیے اور اسے صحیح خطوط پر بروئے کار لانا چاہیے۔ بہتر اور جدید تعلیمی سہولتوں سے آراستہ ادارے قائم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسی طرح علاج کی بہترین سہولتوں کی فراہمی کے لیے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہسپتالوں کا جال بچھانا چاہیے۔ ان کے منصوبے ترتیب دینے چاہئیں اور ان سب کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔ دُنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم ترقیٔ معکوس کا شکار ہیں۔ غربت، جہالت، بے روزگاری اور بیماریاں سنگین مسائل ہیں۔ ان کے حل پر اب بھی توجہ نہ دی گئی تو آگے چل کر حالات مزید گمبھیر ہوجائیں گے، جن کو سنبھالنا ناممکن سا ہوجائے گا۔ اس لیے ان تمام تر مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کا سنگین چیلنج
موسمیاتی تغیر نے ملک عزیز پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایک طرف جہاں سردی اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، وہیں زراعت پر بھی اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ قدرتی آفتیں آئیں، اُن کی شدت میں اضافہ ہوا، جن سے ملک و قوم کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ غربت میں ہولناک اضافہ ہوا۔ سیلاب اور بارشوں سے لاتعداد لوگوں کو بے گھری اور بے سروسامانی کا سامنا کرنا پڑا۔ سیلاب کے خطرات ہر سال موجود رہتے ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے دُنیا بھر کے ممالک سر جوڑ کر بیٹھے اور موسمیاتی تغیر کی صورت حال پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے گئے جب کہ وطن عزیز میں سابق حکومت محض زبانی کلامی دعووں تک محدود رہی۔ عملی اقدامات کا فقدان رہا۔ درخت لگانے کے منصوبے بس کاغذوں تک محدود رہے۔ مرض بڑھتا رہا اور اس کا علاج نہ کیا جاتا رہا۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ سیلاب، زلزلہ، شدید طوفانی بارشوں اور دیگر قدرتی آفتوں کے حوالے سے ہمارا خطہ انتہائی خطرناک قرار پاتا ہے۔ موسمیاتی بحران سے پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ متاثر دکھائی دیتا ہے۔ عمر بھر کی جمع پونجی اس کی نذر ہوجاتی ہے۔ گھر سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔ بے گھری لوگوں کا مقدر بن جاتی ہے۔ طرح طرح کے نت نئے امراض جنم لیتے ہیں جو انسانی زندگیوں کے چراغ گل کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔ اس تمام صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے پاکستان کو سنجیدہ اقدامات کے ساتھ بھاری سرمائے کی ضرورت ہے۔اخباری اطلاع کے مطابق پاکستان کو 2030 تک موسمیاتی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے 348 بلین ڈالر کی ضرورت ہے، پاکستان کی معیشت شدید موسمی واقعات، سیلاب، خشک سالی سے بری طرح متاثر ہوئی، موسمیاتی تبدیلیوں سے ہیٹ اسٹروک اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوا، کسانوں کو فصلوں کی ناکامی، مویشیوں کے نقصانات اور شدید موسمی واقعات کی وجہ سے آمدن میں کمی کا سامنا کرنا پڑا، حالیہ سیلاب سے بحالی کے لیے 16.5بلین ڈالر درکار ہیں۔ پلاننگ کمیشن میں پائیدار ترقی کے اہداف کے چیف محمد علی کمال نے ویلتھ پاک کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات شدت اختیار کر رہے ہیں، ترقی یافتہ ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذمے داری لیں اور اس کے اثرات کو کم کرنے کی کوششوں میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں۔ اس بھاری فنڈ کی فراہمی میں عالمی اداروں اور ممالک کو پاکستان کی معاونت کرنی چاہیے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو موسمیاتی تبدیلی سنگین مسئلہ ہے۔ اکیلے حکومت اس سے نہیں نمٹ سکتی۔ بہ حیثیت عوام ہر پاکستانی کو ملک کو موسمیاتی تغیر کے بداثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ملک کو ہر قسم کی آلودگی سے بچانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ہر فرد اپنے حصے کی شمع جلاتے ہوئے پودا اور درخت لگائے۔ جتنے زیادہ درخت اور پودے لگیں گے ملک موسمیاتی تغیر کے بداثرات سے اُتنا ہی محفوظ رہے گا۔ ماحول کو انسان دوست کرلیا گیا تو ضرور اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button