ColumnImtiaz Ahmad Shad

معرکہ حق و باطل ۔۔ امتیاز احمد شاد

معرکہ حق و باطل

 

’’ غزوہ بدر‘‘ سلسلہ غزوات میں اسلام کا سب سے پہلا اور عظیم الشان معرکہ ہے۔ غزوہ بدر میں حضور سید دو عالمؐ اپنے تین سو تیرہ جانثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ آگے دو سیاہ رنگ کے اسلامی پرچم تھے، ان میں ایک حضرت سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ہا تھ میں تھا۔ جب رزم گاہ ِبدر کے قریب پہنچے تو امام المجاہدین حضور سرور دو عالمؐ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتخب جان بازوں کے ساتھ ’’ غنیم‘‘ کی نقل و حرکت کا پتہ چلانے کے لئے بھیجا، انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی۔ 17رمضان المبارک، جمعتہ المبارک کے دن جنگ بدر کی ابتداء ہوئی۔ ’’ بدر‘‘ ایک گائوں کا نام ہے، جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا۔ یہ مقام مدینہ طیبہ سے تقریباً اسی میل کے فاصلے پر ہے۔ جہاں پانی کے چند کنویں تھے اور ملک شام سے آنے والے قافلے اسی مقام پر ٹھہرا کرتے تھے۔ حضور سید عالمؐ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب ہجرتِ مدینہ فرمائی تو قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ پر حملے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اسی اثناء میں یہ خبر بھی مکہ معظمہ میں پھیل گئی تھی کہ مسلمان قریش مکہ کے شام سے آنے ولے قافلے کو لوٹنے آرہے ہیں۔ اور اس پر مزید یہ کہ عمرو بن حضرمی کے قتل کا اتفاقیہ واقعہ بھی پیش آگیا۔ جس نے قریش مکہ کی آتش غضب کو مزید بھڑکا دیا۔ حضور نبی کریمؐ کو جب ان حالات کی خبر ہوئی تو آپؐ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور امر واقعہ کا اظہار فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب میں نہایت جانثارانہ وفدایانہ تقریریں کیں۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ( خزرج کے سردار) نے عرض کی کہ ’’ یا رسولؐ اللہ ! خدا کی قسم! اگر آپ حکم فرمائیں تو ہم سمندر میں کودنے کو تیار ہیں‘‘۔ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ’’ ہم موسیٰ علیہ السلام کی امت کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب خود جاکر لڑیں، ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں سے بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے پھر آپ نے اعلان کیا کہ ہم لوگ واقعی آپ کے تابعدار ہوں گے، جہاں آپؐ کا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہادیں گے۔ آپؐ بسم اللہ کیجئے اور جنگ کا حکم فرمائیں، ان شاء اللہ اسلام ہی غالب آئے گا‘‘۔ حضور سرکارِ دو عالمؐ نے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس جذبہ سر فروشانہ اور جوش ِایمانی کو دیکھا تو آپ کا چہرہِ اقدس فرط ِمسرت سے چمک و دمک اٹھا۔ پھر آپؐ نے اپنا چہرہِ مبارک آسمان کی طرف اٹھاکر سب کے لئے بارگاہِ خداوندی میں دعائے خیر فرمائی اور آپؐ نے
ارشاد فرمایا کہ’’ خداوند قدوس نے مجھے قافلہ و لشکر میں سے کسی ایک پر فتح عطا کرنی کا وعدہ فرمایا ہے۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور قسم بہ خدا! میں ابھی سے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ’’ اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا، اس جگہ فلاں کا فر قتل ہوگا‘‘۔ آپؐ نے مقتولوں میں سے ہر ایک کا محلِ قتل بتا دیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ جہاں جہاں حضورؐ نے فرمایا تھا، وہ کافر وہاں ہی قتل ہوا‘‘۔ ( مشکوٰۃ) حضور سید عالمؐ 12رمضان المبارک 2ہجری کو اپنے تین سو تیرہ جانباز و جا نثار ساتھیوں کو ساتھ لے کر میدانِ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپؐ اپنے مختصر سے لشکر کو لے کر مدینہ طیبہ سے تھوڑی دور پہنچے تو آپؐ نے جیش اسلام کا جائزہ لیا اور جو اس کارواں میں کم سن اور نوعمر تھے، انہیں واپس فرما دیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاص ایک کم سن سپاہی بھی شامل تھے، انہیں جب واپسی کیلئے کہا گیا تو وہ رو پڑے، حضور ٔ نے ان کا یہ جذبہ جہاد و شوقِ شہادت دیکھ کر انہیں شاملِ جہاد رہنے کی اجازت عطا فرما دی۔ لشکر اسلام کی کل تعداد 313تھی، جس میں سے 60مہاجرین او ر 253انصار تھے۔ یہ بے نظیر و بے مثال لشکر 16رمضان المبارک بہ روز جمعرات 2ہجری کو میدان بدر پہنچ گیا۔ ادھر مکہ معظمہ سے قریشِ مکہ بڑے سازوسامان کے ساتھ نکلے تھے۔ ایک ہزار آدمیوں کا لشکر تھا۔ سو سواروں کا رسالہ تھا۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے معزز رئیس تھا، اپنی اس طاغوتی فوج کا سپہ سالار بنایا گیا تھا۔ 17رمضان المبارک کی مبارک شب تھی، تمام مجاہدینِ اسلام آرام کر رہے تھے جبکہ حضور رحمت دو عالمؐ نے ساری رات عبادت و ریاضت اور دعا میں گزاری ۔ صبح کو نماز فجر کیلئے تمام سر فروشان اسلام مجاہدین کو بیدار کیا اور نمازِ فجر کی ادائیگی کے بعد قرآن مجید کی ’’ آیاتِ جہاد‘‘ تلاوت فرما کر ایسا ولولہ انگیز خطاب فرمایا کہ مجاہدینِ اسلام کی رگوں میں خون کا قطرہ قطرہ جوش وجذبہ کا سمند ر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور مجاہدین جلد از جلد جنگ کیلئے تیار ہونے لگے۔ حضور نبی کریمؐ کے دست اقدس میں ایک تیر تھا، اس کے اشارے سے آپ ٔ مجاہدین کے صفیں قائم فرمارہے تھے۔ لشکر اسلام کی صف آرائی ہوئی اور مشرکین مکہ بھی مقابل میں صفیں باندھے کھڑے تھے ۔ ایسا دل کش نظارہ کبھی زمین و آسمان نے نہیں دیکھا تھا۔ یعنی اُدھر بت پرست تھے، ادھرحق پرست تھے، اُدھر کافر تھے، اِدھر مومن تھے، اُدھر ظلمت تھی، اِدھر نور تھا,یہ منظر بڑا ہی عجیب و غریب تھا کہ اتنی بڑی وسیع دنیا میں توحید کی قسمت چند جانوں پر منحصر تھی۔ چنانچہ حضور سید عالمؐ نے میدانِ بدر میں اپنے جانثار و جانباز اور وفادار سپاہیوں کو دیکھا اور ان کی قلیل تعداد اور بے سرو سمانی کو بھی دیکھا تو اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر بارگاہِ خداوندی میں یوں التجا ء کی ’’ اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما، اے اللہ اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا‘‘۔ ( صحیح بخاری)۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لاریب اور لا فانی کلام قرآنِ مجید میں اس معرکہ کو ’’ یوم الفرقان‘‘ ( یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن) کے نام سے تعبیر فر مایا ہے، یعنی یہ وہ دن ہے جب حق و باطل، خیر و شر اور کفر و اسلام کے درمیان فرق آشکارا ہوگیا اور اقوامِ عالم کو بھی پتہ چل گیا کہ حق کا علم بردار کون ہے اور باطل کا نقیب کون ہے؟ میدانِ بدر میں لشکر اسلام کے پاسبان کچھ اس بے جگری سے لڑے کہ تھوڑے ہی عرصے میں کفار کی کثرت کو کچل کر واصل جہنم کر دیا۔ کفار کے تقریباً ستر آدمی قتل ہوئے اور ستر افراد کو قیدی بنادیا گیا اور کفار کے وہ سردار جو شجاعت و بہادری میں بے مثال سمجھے جاتے تھے اور جن پر کفار مکہ کو بڑا ناز تھا، وہ سب کے سب مسلمان مجاہدوں کے ہاتھوں مقتول ہو کر دوزخ کا ایندھن بن گئے اور جو کافر زندہ رہ گئے، وہ میدان چھوڑ کر ایسے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور سیدھا مکہ میں اپنے گھروں میں جاکر دم لیا۔ لشکر اسلام میں سے صرف 14خوش نصیب سر فروش مجاہدین نے شہادت کا عظیم منصب حاصل کیا اور جنت الفردوس میں داخل ہوگئے، جن میں سے چھ مہاجرین اور آٹھ انصار تھے۔ حق و باطل کے اس معرکے سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی مضبوطی ہی فتح کی علامت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button