ColumnKashif Bashir Khan

پھر وہی حالات ۔۔۔۔ کاشف بشیر خان

پھر وہی حالات

1970 ء میں جو انتخابات ہوئے تھے اس میں ملک بھر میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کی تھی اور ملک غلام محمد نے جو آئین ساز اسمبلی 1954میں توڑی تھی اس کے بعد تقریبا 16سال بعد پاکستان میں انتخابات ہوئے تھے وہ بھی لیگل فریم آرڈر کے تحت اور جسٹس منیر نے جو نظریہ ضرورت ایجاد کیا تھا اس نے پاکستان کے عوام کو نہ صرف جمہوریت سے کوسوں دور کر دیا بلکہ ملک کے عوام کو رائے دہی سے بھی محروم کر دیا۔ پاکستان میں ہونے والے یہ پہلے عام انتخابات تھے اور اس میں طویل مدت کے بعد عوام نے جوق در جوق اپنا حق رائے دہی تو استعمال کیا تھا لیکن ایک امر کے تحت ہونے والے یہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے الم ناک انتخابات کے طور یاد رکھے جاتے ہیں۔ اس وقت کے انٹیلی جنس چیف رضوی نے فوجی جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو رپورٹس دی تھیں کہ ملک کے دونوں حصوں میں انتخابات کے نتیجے میں کسی بھی جماعت کو اکثریت نہیں ملے گی اور اس طرح سے اقتدار فوجی آمر کے پاس ہی رہے گا، لیکن جب انتخابات ہوئے تو نتاج یکسر مختلف تھے۔ انتخابات میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے کلین سویپ کر دیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے عوام آزادی کے تقریبا 24سال کے بعد مسلسل اپنے حقوق اور اقتدار میں جائز حصے کے لئے آواز اٹھاتے چلے آرہے تھے اور مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ بنگالیوں کا ماضی گواہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کے لئے مرہٹوں سے لے کر انگریز تک لڑتے چلے آرہے تھے۔ برصغیر کی آزادی سے بیت عرصہ قبل سے سرکاری محکموں اور فوج میں بنگالیوں کی بھرتی پر انگریز نے پابندی لگائی ہوئی تھی جو اس حقیقت کی عکاس تھی کی بنگالیوں میں جذبہ مزاحمت ہمیشہ سے ہی بدرجہ اتم موجود تھا۔ اردو کو بطور سرکاری زبان بنگالی زبان پر ترجیع دے کر پچاس کی دہائی میں جو نفرت اور تقسیم کو بیج مغربی پاکستان کے مختلف حکمرانوں نے مشرقی پاکستان میں بویا تھا اس نے 1970میں ایک ایسے تنا آور درخت کا روپ دھار لیا تھا جس نے انتخابات میں ایسا نتیجہ دکھایا جو بالآخر پاکستان کے دونوں حصوں کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے وجود کا سبب بنا۔ قارئین جو شیخ مجیب الرحمان کو غدار کہتے نہیں تھکتے، کو ماضی کا تفصیلی مطالعہ کرنا اشد ضروری ہے کہ وہ شخص جو لڑکپن میں قائد اعظمؒ اور پاکستان کے پوسٹر پورے بنگال میں اپنی سائیکل پر گھوم گھوم کر لیا کرتا تھا اور پھر 1965ء میں قائد اعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو متحدہ پاکستان کے اکثریتی حصے سے
ایوب خان جیسے جابر آمر کے ہوتے ہوئے بھی جتوایا تھا، وہ کیسے غدار ہو سکتا ہے؟۔ اس بارے میں حقیقت سے آگاہی اور سوچ کے لئے پاکستان کے ابتدائی پچیس سال کی تاریخ کا مستند مطالعہ بہت ضروری ہے۔ بات ہو رہی تھی 1970کے انتخابات کی تو جب محروم طبقوں نے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو تاریخی اور لینڈ سلائیڈ فتح دلوائی تو پھر پاکستان کے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان اور اس کے حواریوں کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور انہوں نے اسمبلی کا اجلاس جو ڈھاکہ میں ہونا تھا اسے مختلف حیلوں بہانوں سے ملتوی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس سارے عمل میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی جنرل یحییٰ خان کا ساتھ دینا شروع کر دیا اور شیخ مجیب کے پیش کردہ چھ نکات جو اٹھارویں آئینی ترمیم سے ملتے جلتے تھے، کو بنیاد بنا کر اسمبلی کا اجلاس مسلسل ملتوی کرنے کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا۔ پاکستان میں 1954میں جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کے تحت آئین ساز اسمبلی کی برخاستگی اور پھر 1958 کے مارشل لاء نے ملک میں عوام کے سیاسی شعور اور رات پر سخت پابندی عاید کی تھی جس کی وجہ سے 1970 میں ہونے والے انتخابات میں عوام نے اپنی رائے دہی کا کھلا اظہار کرتے ہوئے فوجی حکمران کی تمام ایجنسیوں کی رپورٹس کو غلط ثابت کر دیا اور یہ امر اقتدار پر قابض غاصبوں کے لئے ناقابل یقین اور ناقابل عمل تھا۔1970کے انتخابات کے نتائج جو دراصل عوام کی رائے تھے، کو نہ ماننے کا نتیجہ نہایت خوفناک نکلا اور پھر مشرقی پاکستان میں ایک خوفناک جنگ لڑی گئی جو بعد میں پاک بھارت جنگ میں تبدیل ہو گئی اور پاکستان کو نہ صرف اس میں شکست ہوئی بلکہ پاکستان کا مشرقی حصہ الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان کے تقریبا 95ہزار جنگی قیدی بھارت کی تحویل میں چلے گئے تھے جنہوں بعد میں شملہ میں مذاکرات کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو واپس لے کر آئے۔ بات پرانی ہے لیکن اس کا دکھ آج بھی عوام کے دلوں میں تازہ ہے کہ اسلاف کی لاکھوں جانوں و مالی قربانیوں کے عوض حاصل کیا گیا ملک ہوس اقتدار میں دو لخت کر دیا گیا تھا۔ گو کہ یہ سب میں نے دیکھا نہیں تھا اور مختلف ملکی و عالمی لکھاریوں کی سقوط ڈھاکہ پر لکھے تصانیف پڑھنے کے بعد گزشتہ پندرہ بیس سال سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ شیخ مجیب الرحمان غدار ہرگز نہیں تھا لیکن حالات کے جبر اور حقوق کی مسلسل سلبی نے مجیب اور بنگالیوں کو علیحدگی پر مجبور کیا۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں بھی عوام اور سیاسی ورکرز پر جو ریاستی جبر اور انسانی حقوق کی پامالی وفاقی حکومت کی جانب سے مختلف اداروں کو استعمال کر کے کی جا رہی ہیں، اس نے دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص بری طرح مجروح کیا ہے۔ اور مداخلت کے نتیجے میں اقلیت میں ہونے کے باوجود مسند اقتدار پر بٹھاتے جانے والے حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے نہ صرف آئین پاکستان کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں بلکہ عوام کو ان کی رائے دہندگی سے محروم رکھنے کے لئے سپریم کورٹ کے ججوں کو نہ صرف آپس میں لڑانے کی سنگین حرکت کر رہے ہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ججوں کی کردار کشی کرنے کا قبیح فعل سرعام کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ماضی سے سبق نہ سیکھنے والی اقوام مٹ جایا کرتی ہیں۔ عوامی تائید سے محروم موجودہ حکمران عوام کے مینڈیٹ کو طاقت سے کچلنے کی جو کوشش کر رہے ہیں وہ ریاست سے غداری کے مترادف ہے اور آج پاکستان کے عوام میں ان اتحادی حکمرانوں کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، جس کا ادراک ان کو بخوبی ہے۔ حکمرانی کا حق صرف منتخب نمائندوں کو ہی حاصل ہوتا ہے اور اب بھی آئین کے برخلاف انتخابات نہ کروانے کا خمیازہ موجودہ حکمرانوں کو شدید عوامی ردعمل کی صورت جھیلنا ہو گا، کہ عوام کا مینڈیٹ نہ ماننے کے سنگین نتائج ہم ماضی میں سقوط ڈھاکہ کی صورت دیکھ چکے ہیں۔ آج اس اتحادی نااہل اور کرپٹ حکومت کا اقتدار میں ایک پورا ایک سال ہو گیا ہے اور اس ایک سال میں نہ صرف معیشت کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے، بلکہ ادھوری اسمبلی سے آئین پاکستان کا حلیہ بگاڑنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تباہی اور سیاسی انتقام کا بدترین عمل ہر طرف پھیلا دیا گیا ہے۔ چارہ سازوں کو سوچنا ہو گا کہ اپنے خاندان اور پاکستان کا سرمایہ باہر پہنچانے والے اب بھی باز نہ آئے تو حالات 1971سے بدتر ہو سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button