Editorial

ؕخطرناک طرز سیاست اور ملکی بقا کے تقاضے

 

پاکستان کا سیاسی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا جا رہا ہے، سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے کوشش ہورہی ہے اور نہ ہی کوئی فریق کسی کو غیر جانبدار ثالث کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہے، بلکہ سیاست دانوں کی عدم برداشت بلکہ فرطِ جذبات میں کہی گئی بعض باتیں ایسے حالات کو کھلی دعوت معلوم ہوتی ہیں جو عوام کے لیے تو نہیں لیکن خود سیاست دانوں کے لیے ناقابل برداشت اور ناقابل تلافی ہوتے ہیں۔ ماضی میں جب جب جمہوریت کو نقصان پہنچا اِس کی وجہ بالآخر وہ خود ہی ثابت ہوئے کیونکہ ایک دوسرے کے خلاف جائز و ناجائز انتقامی کارروائیاں اور داخلی و خارجی حالات سے یکسر لاتعلقی کا نتیجہ وہی نکلتا رہا جو بالآخر نکلنا چاہیے تھا، سیاست دان جب جب ناکام ہوئے تب تب جمہوریت ڈی ریل ہوئی، یا پھر ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کیوں بنے کیا اِس معاملے میں بھی سیاست دان ناکام نہیں ہوئے تھے؟ کیا تب مذاکرات کے کئی دور نہیں ہوئے تھے اور سبھی بے نتیجہ نہیں نکلے تھے؟ کیا سیاسی بحران کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ رونما نہیں ہوا تھا؟ عمران خان نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب مینار پاکستان میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔ عمران خان ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور سابق وزیراعظم ہیں، انہوں نے اپنے خطاب میں جو باتیں کہی ہیں اِن میں سے کتنی باتیں قابل تردید ہیں اور کیا اب تصور بھی کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں وہ اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کا جواب نہیں دیں گے؟ جواب کی نوعیت کیسی ہوگی وہ اُن پر اور حالات پر منحصر ہے، مگر دور حاضر میں سیاسی میدان میں جو کچھ ہورہا ہے کیا مستقبل میں ہم ایسا دوبارہ ہوتا دیکھنا چاہیں گے؟ اگرچہ سیاسی عدم برداشت ہمیشہ سے ہماری سیاست کا اہم حصہ رہی ہے بلکہ بسا اوقات تو ایک دوسرے کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ حصول اقتدار کا بنیادی مقصد اپنے رُکے ہوئے کاموں کی تکمیل اور سیاسی مخالفوں کی ناک زمین سے لگانے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ موجودہ حالات تعمیری، فقیری اور سنجیدگی کس حد تک ظاہر کررہے ہیں وہ سبھی پاکستانی جانتے ہیں جو معیشت کی خرابی، مہنگائی، بے روزگاری، کاروبار کی زبوں حالی اور ملک کو درپیش داخلی و خارجی سنگین خطرات کی وجہ سے مسلسل تشویش میں مبتلا ہیں۔ سیاست دان ایک دوسرے سے نمٹنے کے لیے ہر ترکیب بروئے کار لارہے ہیں جبکہ عوام کا مطالبہ یہی رہا ہے کہ یہی توانائی ملک کو درپیش داخلی و خارجی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے خرچ کی جائے اسی لیے اُن بحرانوں کے باوجود ایک نیا سیاسی بحران پیدا کرنے کی ضرورت قطعی نہیں تھی، معاملات پہلے ہی توجہ کے متقاضی تھے مگر اب ان میں زیادہ شدت آگئی ہے ، بحران گہرے ہوتے جارہے ہیں مگر اِن کے حل کے لیے سنجیدہ کوششوں کا یکسر فقدان ہے، اور یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اِس وقت عام انتخابات ہی کئی بحرانوں کا حل ہیں، مگر حکمران جماعت بہرصورت قومی اور دونوں صوبائی اسمبلیوں بلوچستان اور سندھ کی آئینی مدت پوری کرانے کی خواہش مند ہیں یہی نہیں بلکہ پی ڈی ایم کے بعض اور حکمران جماعت کے بعض مرکزی رہنما عندیہ دے رہے ہیں کہ شاید عام انتخابات مقررہ وقت پر نہ ہوں اور شاید ایک سے دو سال تاخیر کے بعد ہوں، ہم نہیں جانتے کہ ایسے مشورے دینے والے اور ایسی باتیں کہنے والے ملک کے داخلی حالات بالخصوص عوام کی مشکلات سے بخوبی واقف ہیں یا نہیں، اِس وقت ہم جس معاشی اور اِس سے بھی بڑے سیاسی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اِس سے نکلنے کی کوئی راہ ہے اور نہ ہی کوئی اِس کے لیے سنجیدہ کوشش کرتا دکھائی دے رہا ہے، قومی اداروں سے وابستہ شخصیات کو کون متنازعہ نہیں بنارہا ہے ،کیا کوئی باقی تو نہیں رہ گیا جس کو ابھی متنازعہ بنانا باقی ہو ؟پاکستان کے لیے لڑنے والے ہر فرد کو تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کے اہم ترین مسائل کے بارے میں فوری بات چیت کی طرف لانے کے لیے دبائو ڈالنا چاہیے کیونکہ حالات کی سنگینی فوری ادراک اور حل کی متقاضی ہے، پھر کم و بیش تمام سرکردہ سیاستدان یہ تاثر دیتے ہیں کہ انہیں خود سے زیادہ ملک کی بقا کی فکر ہے مگر عملاً موجودہ خطرناک حالات میں ایسی کوئی کوشش ہوتی نظر آرہی ہے اور نہ ہی ماضی قریب میں بار آور ثابت ہوچکی ہے اب جبکہ یہ انتہائی نازک وقت ہے، سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے معاملات افہام و تفہیم اور رویے بدلنے کا تقاضاکررہے ہیں ، معیشت ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے ، تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے گروہ بھی حملہ آور ہوکر اپنی موجودگی ظاہر کررہے ہیں مگر ہم یہ سب کچھ کرکے کیا ظاہر کررہے ہیں ، بتانے کی قطعی ضرورت نہیں ، عوام پاکستان اور دنیا سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ وطن عزیز میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، عوام مہنگائی کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہے مگر مستقبل قریب میں مہنگائی ختم ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے بلکہ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ ایک سال پہلے ملک کے حالات بہتر تھے حالانکہ اُن حالات کو انتہائی بدتر قرار دیاگیا تھامگر اب روپے کی گھٹتی ہوئی قدر اور اشیائے ضروریہ سے سبسڈی ختم کرکے حکومت وقت نے عوام کی اکثریت کی معاشی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے، تنخواہیں وہیں کی وہیں ہیں، سرکاری ملازمین بھی رو پیٹ رہے ہیں اور نجی اداروں سے منسلک افراد بھی، یومیہ اُجرت والے پاکستانی کن حالات میں دو وقت کی روٹی پوری کررہے ہیں یہ وہ جانتے ہیں یا اللہ جانتا ہے، تعلیم یافتہ ملازمت پیشہ طبقہ اپنی ضروریات اور اخراجات محدود کرنے پر مجبور ہے بلکہ پاکستانی عوام کی اکثریت میں اضطراب ہی اسی لیے بڑھ رہا ہے کیونکہ آگے بھی کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، جیسے سرحدوں پر افواج ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوتی ہیں بالکل اسی طرح سیاست دان بھی اِن دنوں سیاسی محاذ پر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں اسی تاک کے منتظر تھے وہ جو اب خود ساختہ مہنگائی کے ذریعے اپنی تو تجوریاں بھر رہے ہیں مگر عوام کی جیبیں کاٹ رہے ہیں جن میں پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کی وجہ سے چھید ہوچکے ہیں۔ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی، بچوں کی تعلیم و تربیت، خوراک، ذرائع آمدورفت کے اخراجات غرضیکہ مرنا بھی آسان نہیں رہا مگر کوئی کہے تو کس سے کہے اورکیا کہے؟ اخراجات اب تو ہر پاکستانی کی استطاعت سے باہر ہیں رہی سہی کسر روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی سے نکل گئی ہے، کچھ مہنگائی تو کرونا وائرس کے بعد عالم گیر سطح پر ہوئی، کچھ ہمارے ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں نے کردی اور کہیں ہم پیچھے نہ رہ جائیں حکومت نے بھی بجلی، پٹرول اورگیس پر سے سبسڈی ختم کرکے اپنا حصہ مہنگائی میں شامل کردیا ہے ، لہٰذا عوام جس مشکل وقت سے گذر رہی ہے اِس کا ادراک صرف وہی کرسکتا ہے جو کسی منتخب ایوان اور مراعات یافتہ طبقہ کا حصہ نہیں ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ داخلی حالات گمبھیر صورت اختیار کرتے جارہے ہیں مگر سیاسی فریقین پھر بھی سیاسی دائو پیچ میں الجھے ہوئے ہیں حالانکہ اِس وقت صرف اور صرف عوامی سیاست ہونی چاہیے تھی اور اِس کے ذریعے عوام کی زندگی سہل بنانی چاہیے تھی، مگر ہر سُو عجب افسوس ناک تماشا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button