ColumnNasir Sherazi

خان اور ستمگر ستمبر .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

رات کا پردہ گرتا ہے تو کئی باتوں پر پردہ پڑ جاتا ہے، ہزاروں کو کروڑوں بناکر دکھانا آسان ہو جاتا ہے، زوال پذیر سیاسی جماعت نے اس کام میں ملکہ حاصل کرلیا انہیں اس کی داد دینی چاہیے۔ دیگر جماعتیں بھی اب یہی کچھ کریں گی ان کی مشکل آسان ہوئی، خاصی بلندی پر بلٹ پروف کنٹینر ، دور دور تک لگائی گئی لائٹس، کیمرہ ادھرکا رخ کرے تو لگتا ہے ہر طرف آدم زاد ہیں۔ سیاسی جماعت، اس کے فلسفے اور شخصیات سے لگائو رکھنے والے اس کے جلسے میںآتے ہیں جو اس کے ساتھ ہیں ساتھ ہیں جونہیں ہیں وہ نہیں ہیں تین روز کی تیاری دیگر صوبوں اور شہروں سے مہمانوں کو جمع کرنے کے باوجود وہ رونق نہ لگی جو اقتدار حاصل ہونے سے قبل مینار پاکستان پر محکمہ خوراک کی خفیہ مدد سے لگائی گئی تھی، لاہور میں اقتدار کھودینے کے بعد جلسہ منعقد کرکے پیغام یہی دینا چاہتے تھے کہ ہم آج بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے ماضی میں تھے لیکن کہانی کھل کر سامنے آگئی، جنرل باجوہ کے دم سے جو رونقیں تھیں وہ ان کے ساتھ ہی رخصت ہوگئیں البتہ ان سے منسوب ایک انٹرویو نے میڈیا پر خوب رونق لگارکھی ہے جو پرنٹ کی صورت میں سامنے آیا ہے اس کا دوسرا حصہ بھی پیش کردیاگیا ہے جس میں مختلف سوالوں کے جواب پڑھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے کہ درپردہ کیا کیا ہوتا رہا، ایسے انٹرویوز میں گنجائش موجود رہتی ہے، اصل پیغام دنیا تک پہنچنے کے بعد جب چاہوں اس سے انکاری ہوجائو، زندگی کے دوسرے شعبوںسے تعلق رکھنے والوں کی طرح میدان سیاست میں موجود شخصیات بھی دودھ کی دُھلی نہیں ہیں لیکن جیسے نہایت پاک صاف، بااصول، باکردار بناکر قوم کے سامنے پیش کیا گیا تھا قوم نے ان تمام باتوں پر یقین کرتے ہوئے ویسی ہی توقعات وابستہ کرلیں، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کردار کی پرتیں کھلتی گئیں، انجام یہ ہوا کہ یہ تو سب سے بدتر نکلا، مکمل کردار اور شخصیت تو خیر پہلے بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی لیکن منصوبے کے تحت ہر بات پر ریشمی دل نشین پردہ ڈالاگیا، پردہ ہٹا تو ایک آڈیو نے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیا، جی وہی آڈیو جس میں کہا جارہا ہے کہ تم کہاں ہو، میں تمہارے بغیر مرا جارہا ہوں، جب تم آئو گی تو پھر ہم کھیلیں گے، اس مرتبہ فل پروگرام چاہتا ہوں بعد میں اسی آڈیو میں بتایا جاتا ہے کہ فل پروگرام کیا ہوگا، کاش یہ آڈیو حقیقت نہ ہوتی اسے غیر حقیقی ثابت کرنے کے لیے اعلیٰ ترین عدالت کے روبرو پیش ہوکر مطالبہ کیا جاتا کہ اس کا فرانزک کرایا جائے، غلط ثابت ہو تو بدنام کرنے والوں کو سزا دی جائے اگر سچ ثابت ہو ، اصل ہو تو پھر کرداروںکو قرار واقعی سزا دی جائے، آڈیو میںجن دو شخصیات کی گفتگو سنائی دیتی ہے دونوں نے اس معاملے میں دم سادھ لیا کوئی اپنی صفائی پیش کرنے عدالت نہ گیا، فریق اول کا ایک بیان ضرور سامنے آیا کہ ایسی آڈیوز کے منظر عام پر آنے کا افسوس ہے یہ نہیں آنی چاہیے تھی اس قسم کی آڈیوز سے نئی نسل کے اخلاق و کردار پر اثر پڑے گا، گویا گفتگو کرنے والے بذات خود اخلاقی پستی کا مظاہرہ نہیں کررہے تھے بلکہ شاید کوئی نیک کام انجام دے رہے تھے۔
شاہد میتلا صاحب کی طرف سے جنرل باجوہ کے مبینہ انٹرویو کا دوسرا حصہ کئی رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے جس میں یہ بات کی گئی کہ جناب عمران خان صاحب کی کئی ویڈیوز موجود ہیں جو ان کی شادی کی نہیں بلکہ اخلاق باختہ سرگرمیوں کے حوالے سے ہیں، خان صاحب جواب دیتے ہیں کہ ہاں میں پہلے پلے بوائے تھا، پھر ان پر زوال آیا تو انہوں نے اپنی اخلاق سوز آڈیو کے بعد خود ہی قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ اب ان کی گندی ویڈیوز مارکیٹ میں آئیںگی، شاید وہ خوب جانتے تھے کہ وہ کچھ لوگوں سے لڑائی کو اس نہج تک لے جاچکے ہیں کہ مخالفین کے پاس جو کچھ ہے وہ قوم کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔
اِسی انٹرویو میں بتایاگیا ہے کہ عمران خان کو بنی گالا کیس میں نااہلی کا یقین ہوا تو پھر ایک عدالتی شخصیت نے توجہ دلائی کہ اگر انہیں نااہل کردیاگیا تو پھروزیراعظم کس کو بنائیں گے، پس وزیراعظم کے لیے کسی اور موزوں یا مطلب کے شخص کے نہ ہونے پر خان کو بچالیاگیا اور حساب برابر کرنے کے لیے جہانگیر ترین کو نااہل کردیاگیا تاکہ نوازشریف کو نااہل کرنے کے بعد جو انگلیاں اٹھ رہی تھیں اورعزت دائو پر لگ چکی تھی اسے بچایا جاسکے مگر عزت بحال نہ ہوئی مزید خاک میں مل گئی، انٹرویو کے اسی حصے میں ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کا منصوبہ بھی نظر آتا ہے دوسرا ہدف وزیراعظم شہبازشریف ہیں ان کی کردار کشی واضح ہے انہیں ایک کمزور عقل فہم سے عاری شخص ثابت کرنے کی کوشش نظرآتی ہے، باجوہ صاحب سے منسوب جواب میں بتایاجاتاہے کہ انہوں نے ایک موقعہ پر ان کی خوب کلاس لی وہ منہ سے کچھ نہ بولے، انہیں جب بھی جو کچھ بھی کہاگیا انہوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور تاثر دیا کہ کسی بھی قسم کی سخت گفتگو کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اس انٹرویو کے مطابق جنرل باجوہ نے حمزہ شہباز کو فارغ قرار دیا اور میاں شہبازشریف سے پوچھا کہ انہوں نے حمزہ کوکیوںوزیراعلیٰ پنجاب بنوایا، جنرل باجوہ کے مطابق سلمان شہباز سوچ سمجھ کے اعتبار سے بہتر ہے، وہ کہتے ہیں حکومت ختم ہونے کے بعد خان نے انہیں میر جعفر، میر صادق جیسے ناموں سے پکارا، پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ ان سے ملاقات کے جتن بھی کرتے رہے لیکن وہ نہ مانے پھر ایک مرتبہ صدر پاکستان عارف علوی صاحب کے کہنےپر وہ ایوان صدر گئے تو خان ان سے یوں ملا جیسے اس نے آج تک ان کے خلاف کوئی بات کی ہے نہ اسے ان سے کوئی شکوہ ہے، وہ اپنی حقیقی شخصیت کے برعکس بہت مختلف نظر آیا جب اس سے پوچھا کہ تم تو مجھے میر جعفر، میر صادق کہتے ہو پھر مجھ سے ملنا کیوں چاہتے ہو تو خان اپنی بات سے صاف پھر گیا اور کہنے لگا کہ میں نے آپ کو یہ سب کچھ کبھی نہیں کیا، میری مراد نوازشریف اور شہبازشریف ہیں، جنرل صاحب کے مطابق وہ خان کا یہ رویہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ شخص جلسہ عام اور اپنی پارٹی کے لوگوں سے میرے بارے میں کیا کچھ کہتا رہتا ہے اور آج میرے سامنے وہ اپنی اس قسم کی ہر بات سے انکاری ہے۔
جنرل باجوہ کے اس مبینہ انٹرویو نے متعدد شخصیات کے چہروں پر پڑا پردہ ہٹایا تو اندر سے وہ کچھ نکلا جس کا عام آدمی تصور نہیں کرسکتا۔
سیاسی جلسے حکومت کے ہوں یا اپوزیشن کے، یہ جاری رکھیں گے، تحریک انصاف کے پاس کھونے کو کچھ نہیں وہ اپنا سب کچھ کھوچکی ہے لیکن اب اسے پانے کی کوششوں میں مصروف ہے، اس نے جو کچھ کھودیا وہ حصول اقتدار کے بغیر اب اسے نہیں مل سکتا لیکن حکومت کے پاس ابھی کھونے کو بہت کچھ ہے، مسائل کا ایک انبارہے جسے حل کرنے کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں، حکمران بھی کسی معجزے کے منتظر ہیں جبکہ اس کی سب سےبڑی اپوزیشن بھی دستِ غیب سےمدد کی متمنی ہے جس کے دور دور تک کوئی آثار نہیں۔
عمران خان کو جن مقدمات کا سامنا ہے ان میں سے ان کا بچ نکلنا ممکن دکھائی نہیں دیتا وہ خود بھی نااہلی کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں، لیکن یہ مقدمات اس وقت اپنے انجام کو پہنچیں گے جب ان کی خطائیں اورسزائیں معاف کرنے کا آئینی حق رکھنے والے صدر پاکستان جناب عارف علوی صاحب عہد صدارت مکمل کرکے گھرجاچکے ہوں گے یعنی ماہ ستمبر کے آس پاس، پھر خان ہوگا اور ستمگر ستمبر، خان کی فرسٹریشن کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button