ColumnRoshan Lal

ان کسانوں کے نام .. روشن لعل

روشن لعل

 

ارادہ تو یہ تھا کہ ملک کی سیاسی فضا کے مطابق کچھ لکھا جائے مگر بارش سے تباہ شدہ گندم کی فصل کے درمیان کھڑے غمزدہ کسان کی سوشل میڈیا پر زیر گردش تصویر دیکھ کر دل ایسے پسیجا کہ ذہن سے وہ تمام خیالات محو ہوگئے جوسیاست پر لکھنے کی طرف مائل کر رہے تھے۔ جس تصویر سے دل پسیجا اس میں گندم کے وہ خوشے کھیت میں کھڑے بارش کے پانی میں اوندھے منہ گرے نظر آرہے تھے جو کچھ دن پہلے تک سر اٹھا کر لہلہارہے ہوں گے۔ اسی تصویر میں زمین بوس ہوچکی گندم کی فصل کے درمیان کھڑ ا ایک کسان ہاتھ میں تباہ شدہ خوشے پکڑے ، انہیں حسرت و یاس سے دیکھ کر بلکتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس تصویر کے نیچے کمنٹ کیا تھا کہ یہ پاکستان نہیں بلکہ کسی بھارتی علاقے کے کسان کی ہے۔ یہ تصویر چاہے جہاں کی بھی تھی، اس میںان پاکستانی کسانوں کے چہرے صاف نظر آرہے تھے جن کی گندم کی فصل گزشتہ ایک ہفتے کے دوران برسنے والی بے موسمی بارشوں کے دوران تباہی کا شکار ہوئی۔ گزشتہ برس مون سون میں برسنے والی بارشوں کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے کچھ اضلاع،پنجاب کی ڈیرہ غازی خان ڈویژن، آدھے سے زیادہ بلوچستان اور قریباًتمام تر صوبہ سندھ کے نہ صرف کسان اور ان کی فصلیں بلکہ شہری علاقوں کے لوگ بھی شدید متاثر ہوئے تھے ۔ رواں برس مارچ میں برسنے والی بارشوں نے نہ صرف پہلے سے متاثرہ ڈیرہ غازی خان دویژن بلکہ راولپنڈی ڈویژن سے بہاولپور ڈویژن تک ان علاقوں کے کسانوں اور گندم کی کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے جو گزشتہ برس کی بارشوں کے دوران نسبتاً محفوظ رہے تھے۔ان علاقوں میں گندم کی فصل کی تباہی صرف وہاں کے کسانوں کا نہیں بلکہ ملک کا نقصان بھی ہے ۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے پاکستان میں یہ مسئلہ سامنے آ رہا ہے کہ ہر برس آبادی میں اضافہ کی وجہ سے قدرتی طور پر گندم کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے ، طلب میں اضافہ کو مد نظر رکھتے ہوئے گندم کی پیداوار کے ہدف میں اضافہ تو کر دیا جاتا ہے مگر اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ گندم کی پیداوار طے شدہ ہدف کے مطابق حاصل نہیں ہوپاتی اور پھر طلب پوری کرنے کے لیے قیمتی زرمبادلہ صرف کر کے گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔ سال 2021-22 کے لیے گندم کی پیداوار کا ہدف 26.8 ملین ٹن مقرر کیا گیا مگر حاصل شدہ پیداوار ہدف سے 2.5 فیصد کم رہی جس کی وجہ سے یہاں آٹے کا بحران پیدا ہوا اور گندم درآمد کرنا پڑی تھی۔ سال 2022-23 کے لیے گندم کی پیدوار کا ہدف 28.4 ملین ٹن مقرر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ ہدف 22.85 ملین ایکٹر رقبے پر گندم کاشت کر کے حاصل کیا جائے گا مگر گندم متعین رقبے کی بجائے 21.04 ملین ایکٹر رقبے پر کاشت ہو سکی تھی۔ متعین رقبے سے قریباً 8 فیصد کم رقبے پر گندم کاشت کیے جانے کی وجہ سے یہ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا تھا کہ اس مرتبہ بھی گزشتہ سالوں کی طرح گندم کی پیداوار طے شدہ ہدف کے مطابق حاصل نہیں ہو سکے گی اور ملک میں گندم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے باہر سے درآمد کرنا پڑے گی۔ ہدف سے کم گندم کی پیداوار کا جو خدشہ پہلے سے موجود تھا اب حالیہ بارشوں کے دوران فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے مزیدبڑھ گیا ہے۔
بحرانوں کا شکار ملکی معیشت پر حالیہ بارشوں کے مزید کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے اس کی جمع تفریق تو کی جاسکتی ہے مگر گندم کی کاشت سے امیدیں وابستہ کرنے والے کسانوں کی زندگی کس قسم کے معاشی و سماجی مسائل کا شکار ہوگی اس کا اندازہ آسانی سے نہیں لگایا جاسکتا۔موسموں کے غیر یقینی تغیر کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے کسانوں کو نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ ان نقصانات کے امکانات کے باوجود کسان اپنے پورے خاندان سمیت محنت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بے موسمی آندھی، طوفان ، موسلا دھار بارش، ژالہ باری اور برف باری جیسے خطرات کے باوجود کسان شبانہ روز محنت کرتے ہوئے کاشتکاری کرتے رہتے ہیں۔ موسمی تغیرات کسانوں کی محنت پر کس طرح پانی پھیرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2010 کے بعد سے صرف ایشیا میں 49 بلین امریکی ڈالر کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ ایشیا میں پاکستان کا شمار ان چند ملکوں میں ہوتا ہے جس کے کسان موسمی تغیرات کا سب سے زیادہ شکار ہورہے ہیں۔ پاکستان میں کسانوں کے موسمی تغیرات کا سب سے زیادہ شکار ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیرونی دنیا میں جس طرح تبدیل شدہ حالات کے مطابق جدید طریقوں سے کاشتکاری کی جارہی ہے پاکستان میں ابھی تک اس طرح سے جدتوں کو قبول نہیں کیا جاسکا ۔جدتوں سے صرف نظر کرنے کے یہاں یہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں کہ جہاں دنیا میں گندم کی فی ہیکٹر پیداوار 6 ٹن ہے وہاں ہم بڑی مشکل سے 2.5 سے 3 ملین ٹن فی ہیکٹر تک پہنچ پاتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں اگر موسمی اثرات کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار کم ہوتی ہے تو ہمارے ہاں پوری فصل تباہ ہو جاتی ہے۔ ایسا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتیں کسانوں کی رہنمائی اور تعاون کے لیے ان کے پیچھے کھڑی نظر نہیں آتیں۔ یہاں کسان کی محنت سے فصل اچھی ہونے کی صورت میں حکومتوں کا قیمتی زرمبادلہ تو محفوظ ہو جاتاہے لیکن اگر موسمی تغیرات کی صورت میں فصلوں کونقصان پہنچے تو وہ نقصان صرف کسانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ ہماری زراعت کا انحصار اگرچہ ابھی تک پسماندہ طریقوں پر ہے مگر اس کے باوجود 2022 کے دورا ن ملک کی جی ڈی پی میں زرعی معیشت کا حصہ 22.7 فیصد رہا۔ملک کے قریباً 37.4فیصد محنت کشوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ روزگار کا انحصار اب بھی زرعی معیشت پر ہے۔ پاکستان کا ہر شہری اوسطاً 125 کلوگرام گندم سالانہ استعمال کرتا ہے۔ اتنی گندم استعمال کر کے شہری اپنی روزانہ کی 60 فیصد غذائی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ ایک طرف یہ خلاصہ ہے کہ کسانوں کی محنت اس ملک کے عوام کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیا کردار ادا کر ہی ہے تو دوسری طرف بلکتے ہوئے اس کسان کی تصویر ہے جس کی گندم کی فصل کو بارش کا پانی ملیا میٹ کر گیا۔
موسمی تغیرات کی وجہ سے کسانوں کی محنت کا 2010 کے بعد سے خاص طور پر جو زیاں ہو رہا ہے وہ آئندہ بھی رکنے والا نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں کسانوں کے معاشی تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں نہ صرف انہیں فصلوں کی انشورنس کرانے کی طرف راغب کریں بلکہ انشورنس کمپنیوں کو ایسی پالیسیاں تیار کرنے کا کہیں جن میں پریمیم کی رقم کی ادائیگی میں حکومتوں کا بھی حصہ ہو۔ حکومتیں اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت اگر پٹرول پر موٹر کاریں رکھنے والوں تک کو سبسڈی دے سکتی ہیں تو انہیں ان کسانوں کا بھی خیال کرنا چاہیے جو اپنی محنت سے ملکی معیشت کوسہارا دینے کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button