ColumnJabaar Ch

سسکتی مڈل کلاس .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

پاکستان کے معاشی حالات پہلی بار خراب ہوئے اور نہ ہی ایسی سیاسی صورتحال کوئی پہلی مرتبہ ہوئی ہے لیکن ملک میں ایسی حکومت پہلی بار دیکھی ہے کہ وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتی ہے وہ کام خراب ہوجاتا ہے۔نون لیگ کے پاس اگر کچھ دکھانے اور بتانے کوہے تو وہ اس کا ماضی ہے۔ ترقیاتی منصوبے ہیں تو وہ ماضی کے، معیشت کی بہتری ہے تو وہ ماضی کی۔اور عوام کے لیے کوئی ریلیف کا کام ہے تو بھی ماضی کاہی ہے ان کے دماغ میں دوہزار سترہ اٹھارہ کا پاکستان پھنسا ہوا ہے جبکہ حکومت وہ 2023کے پاکستان پر کررہے ہیں۔اب تو ایک سال ہونے کوآیا ہے ان کے کریڈٹ پر تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔معاشی تباہی ایسی کہ لوگ سری لنکا سے موازنے کررہے ہیں اورسیاسی تباہی ایسی کہ الیکشن نام سے ہی چڑہوگئی ہے۔
ایسے ایسے فیصلے کررہے ہیں کہ ان کو خود سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کررہے ہیں ۔ عوام کو مفت آٹا دینا اچھی بات ہے لیکن کیا اس طرح تقسیم کرنا اچھی بات ہے؟ پہلے بھی رمضان آتے رہے ہیں ۔رمضان پیکیج بھی کوئی نئی بات نہیں لیکن پہلے رمضان بازارلگائے جاتے تھے۔ رمضان بازاروں میں ایک حد تک سستی چیزیں یقینی بنادی جاتی تھیں۔ شہبازشریف جو اب وزیراعظم ہیں وہ جب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو کیا کچھ نہیں کیا کرتے تھے؟ان کے دورکے رمضان بازارمثالی ہواکرتے تھے۔ آٹا اور چینی بھی سستے داموں وہیں سے مل جایا کرتی تھی۔کوئی لائن نہیں کوئی ہلچل نہیں ۔کوئی بھگدڑنہیں اور کوئی جانی نقصان بھی نہیں ۔
اب تو ایسی بددعا لگی ہے کہ پہلے تو فیصلہ دیکھ لیں۔ عوام کو مفت آٹا دینے کی قیمت حکومت نہیں اس ملک کی مڈل کلا س ادا کررہی ہے۔حکمران بھی عجیب ہیں اور ان کو مشورے دینے والے بھی عجیب۔ پنجاب کی بات کریں تو پنجاب میں پچھلے سال حکومت نے جو گندم خرید رکھی ہے وہ بائیس سو روپے من کے حساب سے خرید رکھی ہے اور اس مفت آٹے کی سکیم سے پہلے تک اسی نرخ پر پنجاب حکومت یہ گندم فلور ملوں کو روزانہ کوٹے کی بنیاد پرمہیا کررہی تھی جو آٹا بنا کر دس کلو کا تھیلا ہر کسی کو جو بھی یہ آٹا لینا چاہے اس کو ساڑھے چھ سو روپے کا فروخت کررہی تھیں۔یعنی عام آدمی کی پہنچ میں یہ سرکاری آٹا آسانی سے آرہا تھا گوکہ اس میں سپلائی کے مسائل تھے ۔فلور ملز کی دھمکیاں بھی تھیں لیکن وہ ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ پنجاب حکومت مسائل کو حل بھی کیے جارہی تھی ۔ا ب مفت آٹا سکیم لانا مقصود تھی تو ماشااللہ کیا کارنامہ انجام دیا کہ ایک رات میں ہی وہ گندم جو پنجاب حکومت نے بائیس سو روپے کلو خرید رکھی تھی سرکار نے اس کی قیمت دگنی کرکے فلازملزکو مہیا کرنا شروع کردی۔ اس کے نتیجے میں وہ آٹا جو عام آدمی کے لیے دس کلو کا تھیلا ساڑھے چھ سو کا تھا وہ آٹا ایک ہی فیصلے سے ساڑھے بارہ سو روپے کا ہوگیا۔یہ حکومت جس نے مہنگائی کم کرنی تھی وہ خود اس کاربد میں حصہ داربن گئی ہے۔
پنجاب حکومت نے خود آٹے کی سرکاری قیمت ایک رات میں دگنی کردی ۔آٹا ایک سو تیس روپے کلو خود سرکار نے کردیا ہے ۔ یہ وہ آٹا ہے جس میں کچھ بھی نہیں ہے ۔جولوگ پہلے مجبوری میں کھاتے تھے کہ سستا ہے اب مہنگابھی ہے اور کوالٹی وہی پرانی اور بدبودار۔اس طرح آٹا مہنگاکرکے جو پیسہ ایک عام آدمی سے وصول کیا جارہا ہے وہی مفت آٹے کے نام پر غریبوں کو لائنوں میں کھڑا کرکے دیا جارہا ہے۔ یہ ہے شہبازسپیڈ اور ان کی گورننس۔اسی طرح کا ایک اور فیصلہ پیچھے پیچھے آرہا ہے۔
یہ فیصلہ غریبوں کو پٹرول سستا دینے کا ہے۔ ابھی ویسے تو پتہ نہیں یہ سکیم کب مارکیٹ کی جائے گی لیکن پٹرول منسٹر جناب مصدق ملک صاحب جو کہانیاں سنارہے ہیں ان کے مطابق غریبوں کو جو سستا پٹرول دیا جائے گا اس کی قیمت امیر ادا کریں گے۔یعنی پٹرول میں بھی یہی آٹے والا فارمولہ لگانے کی سوچ سمجھ آرہی ہے۔اب حکومت کے کاغذوں میں ہر وہ شخص امیر مان لیا گیا ہے جو بے نظیر انکم سپورٹ سے امداد نہیں لے رہا۔مفت آٹا بھی انہی لوگوں کو دیا جارہاہے باقی ملک کی مڈل کلاس کے لیے تو خود حکومت نے قیمت دگنی کردی ہے اور بتادیا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ میں رجسٹرعوام کے سوا باقی سب امیر ہوگئے ہیں اور وہ ایک سو تیس روپے کلو آٹا لے کر کھاسکتے ہیں ۔اب سمجھ نہیں آرہی کہ خود کا امیروں میں شمار دیکھ کر خوش ہوا جائے یا غریب نہ رہنے کا دکھ منایا جائے۔
سستا پٹرول بھی ایک معمہ ہے کہ ہر اس شخص کو غریب سمجھ کر مہینے کا اکیس لٹر پٹرول ایک سو روپے سستا دیا جائے گا جس کے پاس موٹر سائیکل ہے۔ اب اگر موٹر سائیکل رکھنا ہی غریب ہونے کا پیمانہ ہے تو پھر جس گھر میں تین تین لگژری گاڑیاں کھڑی ہیں اس گھرمیں بھی دو دوموٹر سائیکل ہوں گے تو کیا وہ بھی سستے پٹرول میں حصہ داربن جائیں گے؟اور اس کے علاوہ سنیں کہ آٹھ سو سی سی گاڑی کا مالک بھی اس غربت کی کیٹگری میں شامل کرکے اس کو ایک مہینے میں تیس لٹرپٹرول سستا دیاجائے گا ۔اب اس ملک میں آٹھ سو سی سی گاڑیاں تو دور چھ سو سی سی کی گاڑیوں کی بہتات ہے ۔یہ گاڑیاں جاپان سے امپورٹڈ ہیں اور ان کی قیمت بیس لاکھ سے نیچے نہیں ہے۔اب بیس لاکھ کی گاڑی والے کا شمار بھی غریبوں میں کردیا جائے گا۔
مجھے کسی کو سستا پٹرول دینے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے حکومت کا کام ہے کہ وہ اپنے عوام کوآسانیاں دے لیکن اس کام کی سمجھ فی الحال نہیں آرہی کہ سستے پٹرول کا بوجھ دوسرے اٹھائیں گے حکومت کا کہنا ہے کہ وہ خزانے سے کوئی سبسڈی نہیں دے گی ۔تو کیا پٹرول کی دوقیمتیں ہوجائیں گی ایک طرف سستے پٹرول کی لائن ہوگی اور دوسری طرف مہنگے بلکہ مزید مہنگے پٹرول کی لائن ہوگی؟مصدق ملک کا کہنا ہے کہ وہ کوئی پیسہ خزانے سے نہیں دیں گے بلکہ غریبوں کو دیے جانے والے پٹرول کا بوجھ امیر لوگ اٹھائیں گے ۔اب یہاں بھی وہ لوگ امیرہونے کے لیے تیار ہوجائیں جن کے پاس بیس سال پرانی کوئی ہزار سی سی گاڑی ہے۔ اس گاڑی کی قیمت بھلے جدید چھ سو سی سی سے کم ہو لیکن چونکہ آٹھ سو سی سی سے زیادہ طاقت والی گاڑی ہے تو وہ امیرشمارکیا جائے گا۔
یہ دواقدام میں نے بیان کیے ہیں جن کی سمجھ نہیں آرہی کہ اس کا فائدہ حکومت کو ہے یا عوام کو۔ کیونکہ مفت آٹے کی لائنوں میں سے تولاشیں باہر آرہی ہیں ۔آٹا لینے کی خواہش لے کرجانے والے موت لے کر واپس آرہے ہیں۔بھائی مفت آٹا دینا ہی ہے تو اس کی تقسیم کا کوئی نظام بنالیںاور سب سے بڑھ کر یہ دکھا وا کرنے سے بہتر تھا کہ جس طرح بے نظیر انکم سپورٹ میں شامل افراد کو ہر مہینے کیش دیا جاتا ہے یہ رقم بھی اسی میں شامل کرکے اعلان کر دیتے تاکہ کریڈٹ مل جاتا لیکن لوگوں کی جانیں محفوظ رہتیں ۔ہاں اس کا ایک نقصان ہونا تھا کہ اب جو وزیراعظم شہبازشریف اورنگران وزیراعلیٰ پنجاب کو آٹاپوائنٹس کے دوروں کی جو مصروفیت ملی ہے وہ نہ مل پاتی۔
اس حکومت نے ایک سال کے دران مہنگائی چودہ سے پچاس فیصد تک پہنچادی ہے۔معیشت زمین بوس ہے۔آئی ایم ایف سے معاہدہ اب کسی خواب سے کم نہیں لگتا ۔ملکی خزانے میں ڈالر پہلے قرضے سے آتے تھے اب بھی قرض سے ہی آنے ہیں جب بھی آئیں کیونکہ کمانے کا رواج ہے نہ کوئی میکینزم۔ہماری برآمدات کبھی اوپر ہی نہیں گئیں۔ اب بھی جمود طاری ہے۔سیاسی افراتفری نے مزید تباہی مچارکھی ہے۔حکومت اپوزیشن کے ساتھ الیکشن پر سینگ پھنساکر بیٹھی ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ تباہی مڈل کلاس کے گھر آئی ہے۔مڈل کلاس ختم ہونے کی طرف جارہی ہے اب اس ملک میں دو ہی طبقے باقی بچ رہے ہیں یا غریب ترین یا امیر ترین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button