ColumnM Anwar Griwal

سیاستدان ایک جیسے ہیں! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ حکومت غریبوں کو آٹا مفت فراہم کر رہی ہے تو وہ خام خیالی کا شکار ہے۔ آٹا صرف مفت ہی نہیںملتا ، اس کے ساتھ بہت سی سوغاتیں بھی حکومت کی طرف سے تحفہ کی صورت عنایت کی جارہی ہیں۔ سب سے پہلے تو ذلت اور رسوائی کا طوق سائل کے گلے میں ڈالا جاتا ہے۔ تادیر قطار میں کھڑا رکھنا اور پھر موبائل کے مسائل میں الجھا کر مزید پریشان کرنا۔ رش زیادہ ہو جائے تو دھکے دینا اور ڈنڈے برسانا۔ ڈنڈوں کے ڈر سے بھگدڑ مچ جائے تو کچھ لوگوں کا کچلے جانا۔ جب کوئی سائل موت کو ہی گلے لگا لے تو ذلت و رسوائی ثانوی درجے پر چلے جاتے ہیں۔ یہاں آٹا مفت نہیں ملتا، جان دینی پڑتی ہے، جیسے مُنّو بھائی نے کہا تھاکہ ’’جیون لئی مرنا پیندا اے‘‘۔ ایسے ہی اب کہا جا سکتا ہے کہ آٹا لینے کے لیے مرنا پڑتا ہے۔ معلوم نہیں ،جو آٹے کے حصول کی جدوجہد میں اپنی جان کی بازی ہار گیا، اُس کے پیچھے آٹے کا منتظر کون کون تھا؟ جو بوڑھا آدمی جان سے گزر گیا ، نہ جانے اُس کی کتنی مجبوری تھی کہ بوڑھے کو خود اِس میدا ن میں اترنا پڑا اور اپنی جان کی قربانی دینا پڑی۔
گمان ہوتا ہے کہ شاید انقلاب آنے کو ہے کہ آٹے کے لیے ہی قوم دیوانہ وار باہر نکل کھڑی ہوئی ہے۔ آٹے کے لیے ذلت برداشت کرتی اور پولیس کی لاٹھیاں کھا رہی ہے، حتیٰ کہ موت کو گلے لگا رہی ہے۔ کبھی خیال آتا ہے کہ یہی قوم اگر حکمرانوں کے محلات پر چڑھ دوڑی تو کیا ہوگا؟ کاغذی محل کہاں تک تاب لائیں گے؟ مگر پھر یہ خیال آتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں جب الیکشن کا طبل بج جائے گا تو یہی لوگ قطاریں بنا کر انہی نمائندوں کو ووٹ دینے کے لیے بے تاب ہوں گے جنہوں نے اِ ن کی یہ حالت کی ہے۔ یہ عوام اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے رہیں گے ، جس کی وجہ سے یہ بیمار ہوئے ہیں۔ کوئی جلسہ ہو تو رونق بڑھانے کے لیے وقت سے پہلے ہی پہنچ کر اپنے دیوانے اور جانثار ہونے کا ثبوت فراہم کر دیتے ہیں۔ پھر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں انقلاب نام کی کوئی چیز آنے کو نہیں۔ ہاں البتہ ہر سیاسی جماعت اپنی کامیابی اور جدوجہد کو انقلاب سے تعبیر کرے تو کوئی بعید نہیں۔
آٹے کی فراہمی میں ذلتیں او ررسوائیاں اپنی جگہ، حکومت آئی ایم ایف کے سامنے جس طرح ناک رگڑنے کا مظاہرہ کر رہی ہے، کسی کو یہ خیال تک نہیں آتا کہ اپنی عیاشیوںمیں کوئی کمی ہی کر لیں، وفاقی حکومت نے چند روز قبل تنخواہوں اور پٹرول کی مد میں کچھ اچھی خبریں ظاہر کی تھیں، مگر یہ تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف بھی نہیں۔ صدرِ پاکستان، گورنرز، صوبائی حکومتیں، ممبرانِ پارلیمنٹ ، عدلیہ اور بیوروکریسی، کون سا ادارہ یا شخص ہے جس نے خراب ترین ملکی حالات میں اپنی عیاشیوں کی قربانی دینے کا اعلان کیا ہے؟ اعلان تو ایک طرف سوچا بھی ہو۔ واضح رہے بات صرف عیاشیوں اور مراعات کی ہو رہی ہے، معقول تنخواہ لیں، ایک گاڑی بھی رکھیں، مگر کچھ عرصہ پٹرول اپنی جیب سے ڈلوائیں، فیصلہ کر لیں کچھ عرصہ مراعات نہیں لیں گے۔ مگر افسوس کسی فرد نے بھی اپنی عیاشی میںایک روپیہ بھی کمی کا فیصلہ نہیں کیا، قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے، بے حسی اور استحصال کا دور دورہ ہے، نہ گاڑیوں میں کمی آئی، نہ مراعات میں۔ گزشتہ روز ایک اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ کی بِلّی گم ہو گئی، پورے شہر میں پمفلٹ تقسیم کئے گئے، فون نمبر بھی دیا گیا، بلی تلاش کر کے لانے والے کے لیے انعام رکھا گیا، چار سُو ہر کارے دوڑائے گئے، بہت سے سرکاری اداروں کے اہلکاران کی نیندیں حرام کر دی گئیں، پورے شہر کا سب سے بڑا مسئلہ میڈم کی بلی کی گمشدگی قرار پایا۔ گویا پوری تحصیل کے عوام ایک بلی کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتے۔
دوسری طرف ذراحزبِ اختلاف پر نگاہ ڈالیں تو عمران خان پوری سیاست کے ساتھ ساتھ حکومتوں اور عوام کے حواس پر چھائے دکھائی دیتے ہیں، مگر سیاست کا یہ کونسا انداز ہے، کہ جب چاہے عدالت جانے سے انکار کر دیا اور جتھے کے ذریعے قانون کواپنا کام کرنے سے روک دیا، ٹکرائو میں کسی کی جان جائے یا کوئی زخمی ہو کوئی پرواہ نہیں۔ پھر اپنے قتل کی خبر کا انکشاف بھی عجیب ہے۔ جب سے حکومت گئی ہے، قتل کی کئی کوششیں بیان کر چکے ہیں، کبھی کسی فوجی پر الزام، کبھی سیاستدان کو نشانہ اور اب پولیس کی منصوبہ بندی بیان کی جارہی ہے، نہ جانے اتنی باریکی سے سارے منصوبے سے کون آگاہ کرتا ہے؟ اگر خدانخواستہ یہ منصوبے بن چکے ہوتے ہیں تو اِ ن پر عمل کی نوبت کیوں نہیں آتی؟ اگر یہ کہا جائے کہ خان صاحب جس حملے میں زخمی ہوئے تھے وہ قاتلانہ حملہ تھا، تو یقین نہیں آتا، کہ پہلے بیان کیا گیا کہ بارہ لوگ زخمی ہوئے ہیں، پھر کوئی زخمی سامنے نہ آیا، پھر گولی ٹانگ میں جا لگی، جس کا زخم پانچ ماہ تک ہرا رہا، بلکہ زخم پر پلستر بھی چڑھا رہا۔ کسی بہت بڑے ماہر ڈاکٹر نے یہ عقدہ نہیں کھولا کہ آخر زخم درست ہونے میں کتنے ماہ لگتے ہیں۔ بیانئے یوں بن اور بدل رہے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور حیرت میں مزید اضافہ اس وقت ہو تا ہے جب ہر نئے بیانئے کو فالوورز کی جانب سے سندِ قبولیت مل جاتی ہے۔
موجودہ حکومت نے تمام مصیبتیں خود اپنے گلے ڈالی ہیں، اور مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے کوئی قدم بھی اٹھایا نہیں گیا۔ بظاہر قوم کی اکثریت جس کے پیچھے ہے، وہ بھی پونے چار سال میں کوئی تیر نہیں چلا سکے، بلکہ حقیقت یہی ہے کہ موجودہ مسائل کی ابتداء اُنہوں نے ہی کی تھی۔ اب جبکہ الیکشن کا میدان سجنے والا ہے، تمام سیاستدان کس ایجنڈے کے ساتھ خود کو عوام کے سامنے پیش کر یں گے؟ اپنے کس ماضی کو سامنے رکھ کر لوگوں سے ووٹ کی استدعا کریں گے؟ کون سے تارے انہوں نے توڑے ہیں، جو آگے جا کر قوم کی خدمت کے ریکارڈ قائم کریں گے؟ نہ کوئی کرپشن ختم کر سکا، نہ کسی سے حکومتی اور سرکاری عیاشیاں کم ہو سکیں، نہ کسی نے غریب کی بہبود کے لیے سنجیدہ کوشش کی۔ پھر خیال آتا ہے کہ بیوروکریسی وغیرہ کا عوام سے تو کوئی تعلق نہیں، سیاستدانوں کو بھی کوئی پرواہ نہیں، کیونکہ وہ جیسے بھی ہیں، عوام اُن کے ساتھ ہیں، جب عوام غیر مشروط اپنے’’ قائدین‘‘ کے ساتھ ہیں تو اُنہیں اپنی عیاشیاں کم کرنے اور عوام کی بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button