ColumnJabaar Ch

انتخابات التوا،سیاست اورجنرل لودھی کی تجاویز ۔۔ جبار چودھری

جبار چودھری

انتخابات التوا،سیاست اورجنرل لودھی کی تجاویز

جو کہا جارہا تھا وہی کردیا گیاکہ اس وقت الیکشن ممکن ہی نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ریاستی اداروں کی بات سن کرآٹھ صفحات پر مشتمل ایک جوازنامہ جاری کرتے ہوئے الیکشن کروانے سے انکار کردیا ہے۔اس انکار کو آئین کی خلاف ورزی اور سپریم کورٹ کے احکامات کیخلاف جانے کی باتیں ہورہی ہیں۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آئین نوے دن میں الیکشن کروانے کی پابندی عائد کرتا ہے جس کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔یہ بحث تو کافی عرصہ سے جاری تھی کہ الیکشن ہوں گے یا ملتوی کرکے صوبائی الیکشن کو بھی آگے اکتوبرتک لے جایا جائے گا تاکہ پورے ملک میں ایک ہی بار عام انتخابات ہوسکیں۔پی ٹی آئی نے اپنی دو حکومتیں ختم کی تھیں تاکہ ملک میں فوری الیکشن کی فضا بن سکے لیکن پی ڈی ایم کی حکومت بیٹھ ہی گئی ۔میں نے نوفروری یعنی کوئی ڈیڑھ مہینہ پہلے ایک کالم لکھا تھا جس میں اس نئی جنم لینے والی صورتحال کا تفصیل سے احاطہ کرتے ہوئے یہ بات صاف کہی تھی کہ بے شک آئین کا تقاضا ہے کہ نوے دن میں الیکشن ہوں لیکن اسی آئین کے کچھ دیگر تقاضے بھی ہیں۔گوکہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ملتوی کرنے کے لیے امن وامان اور فنڈز کی کمی کو وجہ بتایا ہے لیکن اصل مدعا توصاف شفاف الیکشن کا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن نہ ہونے سے انتخابات کی شفافیت جو تھوڑی بہت ہوتی ہے ہمارے ہاں وہ بھی ممکن نہیں رہی گی۔میرے نوفروری کے کالم سے اقتباس پڑھ لیں۔
میں نے لکھا تھا کہ ’’پاکستان کو بنے 75اور آئین کو بنے پچاس سال ہوگئے ۔اس آئین میں ریاست کی ضرورتوں کے مطابق اب تک پچیس ترامیم کی گئی ہیں ۔یہ آئین یہاں خاموش ہوتا ہے۔ یہاں کوئی نئی صورتحال جنم لیتی ہے وہیں سپریم کورٹ کو اس آئین کی تشریح کا اختیار دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی اورمائی لارڈ کے لکھے حروف حرف آخر۔اس وقت پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جو ہم سے نئے قانون اور’’ رُول آف دی گیم ‘‘بنانے کاتقاضا کر رہی ہے۔اور یہ بات طے ہے کہ نئے رُول بنانے کے لیے بات چیت لازمی۔سوچ بچارضروری۔ آجکل سب کی بول چال بند ہے اس لیے مسئلہ اور بھی زیادہ گمبھیر۔عمران خان صاحب نے وقت سے پہلے دوصوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرکے ملک کوایسی صورتحال سے دوچار کردیا ہے جو صورتحال بات چیت سے حل نکالنے کا تقاضا کررہی ہے۔ہمارے ملک میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایسے وقت میں ہوئے ہوں جب وفاقی حکومت موجودہویاکسی اور صوبے میں کوئی حکومت قائم ہو۔پاکستان میں پہلے جب بھی عام انتخابات ہوئے اس وقت پورے ملک میں نگران حکومتیں موجود ہوتی تھیں۔نوے کی دہائی میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات ایک دن اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن قومی اسمبلی کے دویاتین دن بعد ہوتے تھے لیکن اس میں یہ خرابی تھی کہ جو جماعت قومی اسمبلی کا الیکشن جیت جاتی وہی جماعت صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن بھی جیت جاتی کیونکہ ملک میں ایک ماحول بن جاتا تھا کہ کس کی حکومت آئی ہے اس بات کو محسوس کیا گیا اوراس ’’خرابی‘‘کو دورکرلیا گیا اورپھر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروانے شروع کردیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی وقت میں مرکز اور صوبوں میں الگ الگ جماعتوں کی حکومتیں دیکھی جانے لگیں۔دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں بھی ایسے ہی نتائج آئے کہ مرکزاور دوصوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی اور بلوچستان میں باپ کی حکومت بن گئی۔
اب پھر ایک ایسا مرحلہ ہمیں درپیش ہے جو نئی صورتحال میں نئے قوانین کا متقاضی ہے۔میں ذاتی طورپرآئین کے مطابق ہرکام کا وکیل ہوں۔اب یہ آئین کہتا ہے کہ اگر کوئی اسمبلی وقت سے پہلے تحلیل ہوجاتی ہے تونوے دن میں الیکشن کروانا لازمی ہے۔ یہ بات آئین کہتا ہے توہم ماننے کے پابند ہیںلیکن آئین صرف یہی نہیں کہتا ۔آئین یہ بھی کہتا ہے کہ ملک میں عام انتخابات کے وقت نگران حکومت بنائی جائے گی اس نگران حکومت کی موجودگی میں انتخابات کروائے جائیں گے تاکہ انتخابات کی شفافیت متاثر نہ ہو۔اب جب سارے ملک میں حکومتیں ایک ہی وقت میں اپنی مدت پوری کرتیں توصورتحال بالکل ایسی ہی ہوتی کہ پورے ملک میں آئین کے مطابق نگران حکومتیں موجود ہوتیں جو الیکشن کی معاونت کرتیں اور نئی حکومتیں بن جاتیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔اس وقت دوصوبوں میں اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں اور آئین کے مطابق ان صوبوں میں نگران سیٹ اپ موجود ہے۔یعنی صوبوں میں آئین کا یہ تقاضا پوراہوچکا ہے لیکن ایک نئی صورتحال یہ ہے کہ وفاق میں اس وقت پی ڈی ایم کی حکومت موجود ہے جس کی مدت ابھی پوری نہیںہوئی ہے،یعنی مرکز میں نگران سیٹ اپ والا تقاضا پورانہیں ہورہاتو اس کا کیا کرنا ہے؟اس سوال کا جواب تو درکار ہے یا نہیں ۔اس سوال کے جواب کے لیے بات چیت سے اس بات پر اتفاق کرنا لازمی ہے کہ نئی صورتحال کو کیسے ڈیل کیا جائے لیکن اس وقت سب کی بول چال بند ہے۔اس مسنگ لنک پرآج کوئی بات نہیں کررہا لیکن اگر کل کو اسی مسنگ لنک کے ساتھ دوصوبائی اسمبلیوں میں الیکشن ہوگئے توکیا سب لوگ اس کو تسلیم کرلیں گے؟اگر تو سب جماعتوں کو یہ بات قبول ہے کہ مرکز میں ایک حکومت ہوتے ہوئے دو صوبوں میں الیکشن کے نتائج سب قبول کریں گے تواس پرکوئی معاہدہ کرلیا جائے تاکہ کل کو رونے سے بہتر ہے کہ آج بیٹھ کر اس پربات کرلی جائے۔
ایک بات اورہے کہ اگر اس وقت دوصوبوں میں الیکشن ہوکر حکومتیں بن جاتی ہیں توجب چند ماہ بعد قومی اسمبلی اپنی مدت پورے کرکے الیکشن میں جائے گی تومرکز میں تونگران حکومت ہوگی لیکن پنجاب اور خیبر میں کسی نہ کسی پارٹی کی حکومتیں ہوں گی اور وہ پارٹی بھی الیکشن لڑرہی ہوگی اوراس کی مخالف پارٹی بھی میدان میں ہوگی۔یہ بھی ایک نئی صورتحال ہوگی تو کیا اس کو ایسے ہی چھوڑاجاسکتا ہے؟کیا اُس وقت آئین کا تقاضا نہیں ہوگا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوامیں بھی نگران حکومتیں الیکشن کروائیں؟ اس وقت آئین کا تقاضا کیسے پوراہوگا؟آج اگر آئین کا تقاضا دوصوبوں میں الیکشن ہے تو اسی آئین کے تقاضوں میں ہر عام انتخابات کے وقت نگران سیٹ اپ بھی ہے ۔توکیا یہ تقاضا پورانہ ہونے پر بھی آرٹیکل چھ لگے گا؟ میرے خیال میں وزارت خزانہ کاپیسوں سے انکار،دفاع کا سکیورٹی اور ہائی کورٹ کا جوڈیشل افسروں سے انکار سے بڑے مسائل یہ آئینی رکاوٹیں ہیں۔ان رکاوٹوں کو دورکرنے کے لیے بات چیت کی ضرورت ہے۔بار دیگرعرض کہ میں الیکشن میں کسی قسم کی تاخیر کی وکالت نہیں کرتا نہ کبھی کروں گا لیکن جوباتیں عرض کی ہیں وہ بھی آئین کا ہی تقاضا ہے۔‘‘
اب بول چال بند ہونے کی وجہ سے کسی نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ پی ٹی آئی اپنی عوامی مقبولیت کے بل پر فوری الیکشن کروانے کی جدوجہد میں رہی اور پی ڈی ایم حکومتی اثرروسوخ اور پھر کبھی پیسوں او ر کبھی سکیورٹی کی مجبوریوں کے پیچھے چھپتی چھپاتی الیکشن کمیشن کو انکارکرنے میں کامیاب رہی کہ باقی سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن الیکشن نہیں ہوگا۔اب الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ سنادیا ہے لیکن جس معزز عدالت نے اپنا فیصلہ سنانے کے لیے ازخود نوٹس لے کر الیکشن کا حکم دیا تھا اس کے حتمی فیصلے کاانتظار ہے۔پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف عدالت جاچکی ہے ۔حتمی فیصلہ وہیں سے آنا ہے اور فیصلہ اب کیا آسکتا ہے جب ریاست کے تمام ادارے جنہوں نے الیکشن کروانے میں تعاون کرنا ہے وہ ہتھیار پھینک چکے ہیں۔قرین قیاس یہی ہے کہ الیکشن اب اکتوبر میں ہی ہوں گے۔ باقی سپریم کورٹ اس کا کیا حل کرتی ہے وہ اگلے ہفتے دیکھ لیتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈخالدنعیم لودھی صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے موجودہ سیاسی ڈیڈلاک کے خاتمے کے لیے چھ نکاتی حل پیش کیا ۔ لودھی صاحب کہتے ہیں کہ الیکشن ملتوی ہوگیا اس کی خیر ہے اب الیکشن پورے ملک میں ایک ساتھ اکتوبر میں ہوجانے دیں۔ پی ٹی آئی کے خلاف جاری مقدمات پر کارروائیاں روک دی جائیں۔ تیسرے نمبر پربہت اہم تجویز انہوں نے دی ہے کہ نوازشریف کو واپس آنے دیاجائے اور ان کی سیاسی نااہلی ختم کرکے سیاست کرنے کا موقع دیاجائے۔ وہ کہتے ہیں اب تک جو بھی اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں ان کو واپس بحال کردیا جائے اور تمام استعفے واپس لے کر پہلے کی طرح اسمبلیوں کو چلایاجائے۔ پانچواں نقطہ یہ ہے کہ اب الیکشن تک کوئی عدم اعتماد نہ لائی جائے اور چھٹی تجویز یہ ہے کہ اگر قانونی ضرورت ہوتو اوپر جو تجاویز ہیں ان پر عمل کیلئے آئین میں ترمیم کرنی پڑے تو ایک بارکرلی جائے۔
جنرل لودھی صاحب کی تمام تجاویز ہی بہترین ہیں کیونکہ ہمارا ملک ایک جگہ رک گیا ہے اور ا س کو آگے چلانے کیلئے کسی کو تو ابتداکرنی پڑے گی لیکن یہاں مسئلہ کسی تجویز یا اس پر عمل سے زیادہ آپسی بول چال کا ہے جو عرصے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان بند ہے۔ باردیگر عرض ہے کہ خداراسیاست کرنی ہے تو بول چال بند نہ کیجئے۔ سیاست کوئی جامد عمل نہیں اورنہ یہ بادشاہت کہ بس میں ہی میں ۔۔باقی سب چور ڈاکو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button