Editorial

دستورِ پاکستان اور جمہوریت

دستورِ پاکستان اور جمہوریت

وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے الیکشن کمیشن کے دو صوبوں میں انتخابات موخر کرکے 8 اکتوبر کو کرانے کے فیصلے کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے معروضی حالات ایسے ہی فیصلے کے متقاضی ہیں ، الیکشن کمیشن نے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے ، یہ فیصلہ کسی صورت غیر آئینی نہیں ہے ،1997 سے 2018 تک ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز ہوتے آئے ہیں ، ان حالات میں الیکشن کرائے گئے تو یہ خونیں الیکشن ہوں گے، جمہوری نظام کو چلنے دیں، تیسرے آپشن کے لیے حالات سازگار نہ کریں، ریاست سب سے پہلے ہے، پاکستان کے لیے اکٹھے بیٹھیں۔ اِس سے پہلے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو ہونے والے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کرتے ہوئے اپنے اعلامیہ میں کہا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 6 اکتوبر کو ہوں گے۔ اسی دوران ایک اور پیش رفت ہوئی جب وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پنجاب کے الیکشن کے حوالے سے وزارت خزانہ، دفاع اور داخلہ کے مؤقف کی منظوری دی گئی۔پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن کے اعلامیہ پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے کہ اکتوبر تک پنجاب کے انتخابات ملتوی کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین سے کھلے انخراف کا مرتکب ہواہے۔آج ہر کسی کو اِس امید کے ساتھ کہ یہ دستور کا تحفّظ کریں گے،عدلیہ اور قانونی برادری کی پْشت پرکھڑا ہوناہوگاکیونکہ آئین پر یہ سنگین حملہ اگر آج قبول کرلیاجاتاہے تو پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا خون ہوجائے گا۔ہم نے اپنی دو صوبائی اسمبلیاں اس امید پرتحلیل کیں کہ 90 روز میں انتخابات کروائے جائیں گے، جس کا ہمارا دستور واضح حکم دیتاہے۔ پاکستان تحریک انصاف الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرچکی ہے، کیونکہ سپریم کورٹ نے ہی قبل ازیں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کرانے سے متعلق واضح فیصلہ دیا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی موجودہ داخلی صورت حال اور سیاسی انتشار نے ہر پاکستانی کو بے چین کیا ہے کیونکہ ایک کے بعد دوسرا بحران سامنےآرہا ہے، لبادہ کوئی بھی ڈالا جائے لیکن درحقیقت ہر بحران اور بحران کے حل نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی انتشار ہے جس کو ختم کرنے کی یا تو کسی میں صلاحیت نہیں ہے یا پھر مقصد سیاسی قیادت کی نااہلی کو خوب اچھی طرح دنیا کے سامنے عیاں کرنا ہے، جس طرح تنکے کی آڑ لے کر طوفان سے بچنا یقینی نہیں ہوتا اسی طرح ابہاموں کی اوٹ میں بھی زیادہ دیر تک پناہ نہیں لی جاسکتی۔ کوئی ایک واقعہ ہو تو جواز کو تسلیم کیاجاتا ہے مگرجب پے درپے روش ظاہر کی جائے تواِس کے پیچھے چھپے تمام مقاصد عیاں ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ جمہوری ممالک میں آئین و قانون کی بالادستی کی ایسی ایسی مثالیں دیکھی اور سنی جاتی ہیں کہ ہمیں اپنے معاشرے کی پسماندگی اور اِس پسماندگی کی گہرائی کا احساس کمتری میں مبتلاکردیتی ہے۔ وزارت اعظمیٰ جانے کے بعد سے عمران خان ابتک ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں، ملک گیر جلسے، جلوس، لانگ مارچ، وزیرآباد میں حملہ، پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا مگر کامیابی کے بعد پنجاب اورخیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل، اِن سب کے پیچھے ایک ہی مطالبہ تھا اور ہے کہ ملک میں عام انتخابات کرائے جائیں۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد گورنر پنجاب نے صوبے میں عام انتخابات کی تاریخ نہ دی اور معاملہ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک پہنچا، سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 30اپریل کو صوبے میں انتخابات کا شیڈول جاری ہوا تو بھی ایک کے بعد دوسرا دائو پیچ اور تدبیر، فنڈز نہیں، سکیورٹی کے لیے سٹاف نہیں، امن و امان کی صورت حال تشویش ناک ہے، ادارے تعاون نہیں کررہے اور بالآخر اپریل کی بجائے اکتوبر میں انتخابات ہونے کا الیکشن کمیشن کا اعلان۔ پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے اور بوقت ضرورت عدلیہ اِس کی تشریح۔ موجودہ حالات اور کم و بیش ایک سال سے دونوں اطراف سے ہونے والے اقدامات یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ادارے آئین و قانون کی بجائے حکومت کے تابع ہیں، لہٰذا جانب داری اور کسی ایک فریق کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت میں کسی حد تک چلے جانا اِسی تابعداری کا حصہ ہے، دستور پاکستان کو مخصوص اوقات اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیاجاتاہے اور ماضی یہی بتاتاہے کہ برسراقتدار حکمران دستور پاکستان کی اپنی ضرورت کے مطابق تشریح اور استعمال کرتے آئے ہیں مگر کیا پاکستان کو ایک بار پھر دستور اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے محفوظ بنانا پڑے گا؟ تو کون دستور اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے آگے بڑھے گا، ہمارے رویے کب دستور اور اخلاقیات کی تابعداری کی طرف مائل ہوں گے؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے ہی تنقید کرنے والوں کے نشانے پر ہیں کیا ریاست کے اہم ترین ادارے پر مسلسل تنقید اِس کی ساکھ کو داغ دار نہیں کررہی؟ آئین کی دفعہ 224 شق 2 کے تحت کسی اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں 90 دن کے اندر اندر انتخاب کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے تو اب کیوں آئین کی پاس داری نہیں کی جارہی؟ موجودہ طرز سیاست نے ہر اُس پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کیاہواہے جو آس لگائے بیٹھا ہے کہ ملک سے سیاسی انتشارکا خاتمہ ہو تاکہ معیشت اور مہنگائی جیسے بڑے بحرانوں کی طرف حکمران متوجہ ہوں ، ملک میں آئین و قانون کی عملداری کا سوال اٹھنا بھی فطری عمل ہے لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ سیاسی قیادت جمہوریت کی بقاءاور آئین و قانون کی عملداری کے لیے اپنی اپنی ذمہ داری کا ادراک کریں ، گفت و شنید کے ساتھ اِس بحران کو ختم کریں وگرنہ حالات واقعی مزید بدتری اور خدانخواستہ بدامنی کی طرف جائیں گے۔ خصوصاً وہ سیاست دان جو جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے کی مثالیں پیش کرتے آئے ہیں اور وہ سیاست دان جو جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے کا عزم رکھتے ہیں اِن سب کو سمجھنا چاہیے کہ ملک میں اگر آئین و قانون کی حکمرانی نہیںہوگی تو پھر کونسا قانون ہوگا، اگر سیاست دان ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی مثالیں پیش کرتے رہیں گے تو کس کی نااہلی اور کمزوری ظاہرہوگی لہٰذا سیاسی تنازعات کو جلد ازجلد حل کریں کیونکہ وطن عزیز ان شا اللہ روز قیامت تک قائم و دائم رہنے کے لیے قائم ہوا ہے اور اِس کی بنیاد ہی دو قومی نظریہ اور کلمہ طیبہ ہے، لہٰذا اگر کوئی اِس گماں میں ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے ، کل اِس کو ویسی ہی صورت حال کا سامنا نہیںہوگا تو اِس سے بڑی غلط فہمی کوئی نہیں ہوسکتی، جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جاتا ہے، انتشار، اشتعال اور نظام سے چھیڑ چھاڑ پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں دیتی، سیاسی قیادت کیوں ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ رہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button