ColumnM Anwar Griwal

دام بڑھائو ۔۔ رمضان آیا! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

آٹے کی چکی ہمارے گھر کے راستے میں پڑتی ہے، میں نے چند کلو آٹا لینا تھا، پرانا گاہک ہونے کے ناطے اُس نے مسکرا کر کہا کہ ’’رمضان آنے والا ہے،قیمت بڑھ جائے گی، جلد ہی زیادہ آٹا لے لیں۔‘‘ اُس نے تو اپنے تئیں یقیناً میری خیر خواہی کی تھی۔ ایک وقت میں پانچ دس کلو آٹے کا خریدار آخر کتنا آٹا ذخیرہ کر سکتا ہے؟ میں نے گھر جا کر حساب لگایا تو بیس کلو میں چند سو روپے کا فرق تھا، چنانچہ میرے اندر نہ اتنی ہمت تھی اور نہ ہی میرا یہ مزاج تھا۔ حکومت نے بھی غریبوں کے دل یوں جیت لیے ہیں کہ سستا آٹا ایک آدھ گھنٹہ قطار میں لگنے سے مل جاتا ہے۔ صبح گھر سے کام پر نکلتے ہی راستے میں جا بجا آٹے کے لیے قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔ اپنا شناختی کارڈ دکھائیں اور ناقص ترین آٹے کا ایک تھیلا سستے داموں وصول کریں۔ گائوں میں شاید ایسا آٹا کسان اپنے مویشیوں کو بھوسے میں ڈال کر بھی نہ دیتے ہوں گے۔ فلور ملوں والے یقیناً گندم کی صفائی کے موقع پر نکلنے والے تمام گھاس پھوس کو اِسی آٹے میں ڈال کر حکومت سے رعایتی قیمت وصول کر لیتے ہیں۔چلیں کچھ ذلالت وغیرہ سے سستا آٹا ملتا ہے تو غنیمت ہے۔ کھجور کے بارے میں معلومات لینے بازار گئے تو دکاندار نے ایک گاہک کو بتایا کہ رمضان کے لیے نیا ریٹ آنے والا ہے۔
بقرعید کے موقع پر بازار جائیں تو جگہ جگہ چھریاں بن رہی ہوتی ہیں، چھریاں تیز کرنے والی مشینیں چل رہی ہوتی ہیں، گرم لوہے کی آگ جیسی چنگاریاں دور تک اُڑ رہی ہوتی ہیں۔ قصاب آستینیں چڑھا کر مقررہ تاریخ کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ پہلے دن کا ریٹ یہ ہوگا، دوسرے دن کا یہ اور تیسرے روز کا یہ۔ صبح کے وقت قربانی کرنے کی یہ قیمت ہوگی اور دوپہر کی یہ۔ یہ تو اُن کی پیشہ ورانہ سرگرمیاں ہیں، مگر تاجر طبقہ عوام کے لیے کسی قصاب سے کم نہیں، عوام سہمے ہوئے بکرے کی طرح تاجر کی دکان پر جاتے اور اپنی جیب قربان کرکے آتے ہیں، کھال اترواتے ہیں، کھال اتارنے میں دکان دار کی مرضی کُند چھری سے اتارے یا تیز سے۔
رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ہمارے یہ تاجربھائی بہت ہی للچائی ہوئی نگاہوں سے گاہک کو دیکھتے اور بہت ہی تیزی ، مہارت اور سرعت سے اُس کی جیبیں خالی کرتے ہیں۔ ہر دکاندار کے سٹاک کی قیمت آنِ واحد میں آسمان تک پہنچ جاتی ہے۔ چیزوں کی قیمت بڑھانے کے لیے کسی حیلے بہانے کی ضرورت نہیں، بس رمضان آرہا ہے، تصور کر لیا جاتا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ یوں جتنی چیزیں دکان میں پڑی ہیں، اُن کی قیمت کسی خود کار نظام کے تحت ڈبل یا اُس سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ عوام کی کھال اتارنے کی تیاری کئی ماہ قبل ہی شروع کر دی جاتی ہے، چند روز میں اس قدر کمائی کر لی جاتی ہے کہ سال بھر کی کسر پوری ہو جاتی ہے۔ ہر تاجر اور ہر گاہک روتا جاتا ہے اور خریداری کرتا جاتا ہے۔ جن اشیائے خور و نوش کا رمضان میں استعمال بڑھ جاتا ہے، اُن کی قیمتوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں رہتا۔
عرب ممالک کی بعض تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں، جن میں یہ دکھایا گیا ہے کہ بہت سی دکانوں پر رمضان المبارک کے استقبال کے موقع پر ضروری اشیاء کی قیمتوں میںواضح کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ لوگوں کو رمضان کے مہینے میں سہولتیں دی گئی ہیں، لوگوں کو دی جانے والی رعایت کو وہ نیکی تصور کرتے ہیں، عظمتوں والے مہینے میں دوسروں کو سہولت دینے سے بڑھ کر کیا نیکی ہوگی ؟ مگر پیارے پاکستان میں نیکی کمانے کا طریقہ ذرا مختلف ہے، تاجر بھائی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے ذریعے زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرتے ہیں، پھر اس میں سے کچھ پیسے بچا کر رمضان کا راشن خریدتے ہیں، جو مستحق اور غریب لوگوں میں تقسیم کرکے ثوابِ دارین حاصل کیا جاتا ہے، یا پھر نیکی کا جذبہ مزید بڑھ جائے تو عمرہ کرنے کے لیے روانگی پکڑ لیتے ہیں اور وہاں رو رو کر اپنی دنیا اور آخرت کی بہتری کی دعائیں مانگتے ہیں۔
عام لوگ رمضان المبارک میں اگر گھروں میں کھانے پینے کا سامان ذخیرہ نہ بھی کریں تو مہینے بھر کا سامان تو خرید ہی لیتے ہیں، بازاروں میں رش معمول سے کچھ زیادہ ہی ہو جاتا ہے، اس دوران تاجر حضرات دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹتے اور سرمایہ جمع کرتے ہیں۔ یہاں یہ دلیل نہ کسی نے سنی اور نہ مانگی، کہ آخر کیا وجہ ہے کہ رمضان المبارک کے موقع پر ہی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس کچھ نہیں، بس روزے شروع ہو رہے ہیں قیمتوں میں اضافہ ضرور ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر تاجر اپنی چیز کی قیمت بڑھاتا ہے اور دوسرے کی بڑھی ہوئی قیمت پر اعتراض کرتا اور نیکی کا درس دیتا ہے۔ ظاہر ہے نیکی پر عمل درآمد کرنے کے لیے ہمیشہ دوسرے ہی مناسب لگتے ہیں، اپنی ذات مستثنیٰ ہی ہوتی ہے۔ کپڑے کی دکان والا جوتے کی دکان پر جاکر منفی تبصرہ کرتا ہے، جنرل سٹور والا سبزی کی دکان پر جا کر قیمتوں پر اعتراض کرتا ہے۔ حقیقت میں تمام لوگ ایک جیسا کام ہی کر رہے ہوتے ہیں۔
رمضان المبارک کچھ لوگوں کی نگاہ میں نیکیوں کا موسمِ بہار ہے، عبادات اور صدقہ خیرات کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ مگر کاروباری طبقہ کے لیے رمضان المبارک نیکیوں کا موسمِ بہار تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ کاروبار میں ناجائز منافع کا بھی موسم بہار ہے۔ اس مہینے میں معمول سے زیادہ چیزوں کی خریداری کی جاتی ہے، بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو مجبوری کے عالم میں خریدی جاتی ہیں۔ افطاری کے لوازمات میں پھلوں کا استعمال بڑھ جاتا ہے، لیموں بھی چار سو روپے کلو تک پہنچ جاتا ہے۔ عید کے لیے بچوں کے جوتے اور کپڑے وغیرہ کے اخراجات میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے، جو لوگ جوتی کپڑے نہیں بھی خرید سکتے وہ بھی اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کی خوشی کا اہتمام کرتے ہیں، بعض لوگ یہ خوشیاں نہیں خرید سکتے ، ایسے مواقع پر وہ اپنی جان پر بھی کھیل جاتے ہیں، خود کشی کی خبریں بھی سامنے آجاتی ہیں، اس عمل میں جہاں براہِ راست اپنے حکمران ذمہ دار ہوتے ہیں، وہاں تاجروں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عوام یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ آخر وہ کون سی مجبوری ہوتی ہے جس کی بنا پر رمضان کی آمد پر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں، نہ اسلام میں اس عمل کی کوئی جگہ ہے اور نہ ہی انسانیت اس امر کو تسلیم کرتی ہے۔ جب پورا معاشرہ ہی بے حس ہو جائے تو بہتری کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button