ColumnHabib Ullah Qamar

آسیہ اندرابی عزم و حوصلے کا پہاڑ .. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

 

دنیا بھر کی طرح بھارت میں بھی خواتین کا عالمی دن منایا گیا لیکن اس حوالے سے سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالیاں بھی اسی غاصب بھارت کی طرف سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ تیس برسوں میں بھارتی فورسز نے جنگی ہتھیار کے طور پرگیارہ ہزارسے زائد خواتین کی آبرو ریزی کی، بائیس ہزارسے زائدخواتین بیوہ ہوئیں اور دس ہزارکشمیریوںکو دوران حراست لاپتا کیاگیاہے۔ بھارتی درندگی کا عالم یہ ہے کہ ساٹھ برس سے زائد عمر کی خاتون سیدہ آسیہ اندرابی کو دو خواتین ساتھیوں ناہیدہ نسرین اور فہمیدہ صوفی کے ہمراہ نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل کے سخت ترین سزا وارڈ میں رکھا گیا ہے۔ان پر کشمیری عسکریت پسندوں کومبینہ فنڈنگ کے الزامات لگا کر جیل میں ڈالا گیا ہے۔ آسیہ اندرابی کے بیٹے احمد بن قاسم کہتے ہیں کہ ان کی والدہ کی عمر اکسٹھ برس ہے جبکہ ناہیدہ نسرین بھی چھپن برس کی ہو چکی ہیں۔ دونوں بزرگ خواتین کی طرح جیل میں قید فہمیدہ صوفی بھی مختلف عارضوں میں مبتلا ہیں۔ خاص طور پر سیدہ آسیہ اندرابی کو کئی امراض لاحق ہیں اور وہ شدید بیمار ہیںلیکن اس کے باوجود انہیںرہا نہیں کیا جا رہا۔
مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی تنظیم دختران ملت کی چیئرمین سیدہ آسیہ اندرابی گزشہ چار برس سے زائد عرصہ سے نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں ۔وہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی ہیں اور ان کی تنظیم جو مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی سب سے بڑی اور اہم جماعت سمجھی جاتی ہے، حریت کانفرنس کا اہم جزو ہے۔ آسیہ اندرابی کو 2017 میں پاکستان کا پرچم اٹھانے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور پھر غداری کا مقدمہ درج کر کے ہندوستانی جیل میں ڈال دیا گیا۔قبل ازیں 23مارچ 2015کو بھی انہوںنے ایک تقریب میں خواتین کے ہمراہ پاکستان کا قومی ترانہ پڑھا اور جب مودی سرکار کی جانب سے گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگائی گئی تو انہوں نے گائے ذبح کرنے کا اہتمام کر کے اس کی ویڈیو جاری کی اور جموں کشمیر میں گائے کا گوشت فروخت کرنے کی پابندی کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا۔ دختران ملت کی سربراہ اور ان کا خاندان صبرو استقامت کا پہاڑ ثابت ہوا ہے۔ان کی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوںمیں اذیتیں برداشت کرتے گزرا ہے۔تحریک آزادی کشمیر سے ان کی لازوال کمٹمنٹ کی طرح پاکستان سے اس قدر بے لوث محبت ہے کہ یہاں ہونے والی کسی قسم کی سازش کیخلاف وہ فورا بے چین ہو جاتی ہیں۔ چند سال قبل بھارتی ایجنسیوںنے سازش کے تحت اپنے ایک ایجنٹ کوصحافی بنا کر ان کے پاس بھیجاجس نے ملاقات کے دوران کہاکہ وہ مبینہ طور پر طالبان کا رکن ہے اورانہیں پاکستان میں نفاذ شریعت کی خاطر جہاد کیلئے ان کی مددوتعاون درکار ہے جس پر سیدہ آسیہ اندرابی نے صاف طور پر کہاکہ آپ کا کسی صورت طالبان سے تعلق نہیں ہو سکتا اور جہاں تک پاکستان میں جہاد کی بات ہے تو وہ اپنے مسلمان بھائیوں پر گولی چلانے اور خون خرابہ کو شرعی طور پر جائز نہیں سمجھتیں اور لاالہ الااللہ کے نام پر حاصل کئے ملک کو کمزور کرنے کی کسی بیرونی سازش کا حصہ نہیں بن سکتیں ۔ انہوںنے بھارتی ایجنٹ کو فوری وہاں سے جانے کی بات کی اورکہا کہ یہ بات یاد رکھیں کہ میری طرح کوئی اور کشمیری بھی ان شاء اللہ ایسی ناپاک سازش کا شکار نہیں ہوگا۔
1962 میں پیدا ہونے والی سیدہ آسیہ اندرابی اور ان کے شوہر ڈاکٹر محمد قاسم کی طرح ان کا پورا خاندان بھارتی ظلم و استبداد کے خلاف قربانیوں کی عظیم مثالیں پیش کر رہا ہے۔ یہ کشمیری قوم پر بھارتی فورسز کے مظالم ہی تھے کہ آسیہ اندرابی نے کشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد مزید تعلیم کے سلسلہ کو خیرباد کہہ دیا اور خواتین میں تحریکی حوالہ سے کردار ادا کرنے کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے دختران ملت نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔آہستہ آہستہ کشمیری خواتین کی یہ تنظیم مضبوط ہو تی گئی اور پھر بھارت سرکار کی جانب سے کشمیری حریت پسندوں کی مدد کا الزام لگا کر 1990ء میں اس پر پابندی لگا دی گئی ۔ اسی دوران ان کی شادی تحریک آزادی کشمیر کے عظیم مجاہد ڈ اکٹر محمد قاسم سے کر دی گئی جس کے بعد ان دونوں میاں بیوی نے ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ مظلوم کشمیریوں کی مدد شروع کر دی ۔ابھی ان کی نئی نئی شادی اورسات ماہ کا ایک بچہ تھا کہ بھارتی فوج نے ان دونوں میاں بیوی اور بچے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ اس دوران انہیں ذہنی اذیت دینے کیلئے دودھ پیتے بچے کولاک اپ سے باہر رکھا جاتا وہ بھوک سے بلک بلک کر روتا رہتا مگر ماں کو اسے دودھ پلانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی لیکن اس کے باوجود ان کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔آسیہ اندرابی کے شوہر ڈاکٹر محمد قاسم کا ذکر کریں تو انہوںنے بھی اپنی نصف زندگی جیلوں میں گزار دی ہے اور سزا پوری ہونے کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا گیا۔ کشمیری قیدیوں سے متعلق متعصب بھارتی حکومت اور عدالتیں کہتی ہیں کہ جنہیں عمر قید کی سزا دی گئی ہے وہ مرتے دم تک جیل میں ہی رہیں گے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جیلوں میں ملنے والی ناقص غذائوں اور ذہنی وجسمانی تشدد کے باعث جہاں آسیہ اندرابی کے خاوند مختلف امراض میں مبتلا ہیں وہیں سیدہ آسیہ اندرابی کی صحت بھی بہت کمزور ہو چکی ہے لیکن ان کی پاکستان سے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ہر آنے والے دن اس میں اضافہ ہی ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر اہم موقع پر پاکستانی پرچم لہرا کر اپنی لازوال محبت کا اظہار کرتی رہی ہیں۔دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں جہاں کشمیری مردوںنے بے پناہ قربانیاں پیش کی ہیں وہیں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔کشمیری مائیں، بہنیں و بیٹیاں جرأت و بہادری کی ایسی لازوال داستانیں رقم کر رہی ہیں کہ جو قیامت تک کیلئے تاریخ کا ایک سنہرا باب بن چکی ہیں۔
بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے نے سیدہ آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین اور فہمیدہ صوفی پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وہ کشمیری جہادی تنظیموں کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے کشمیری عوام میں بغاوت کے جذبات ابھار رہی تھیں۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ وہ ٹویٹر، فیس بک ، واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع استعمال میں لاتے ہوئے قابض بھارت کیخلاف نفرت پھیلا رہی تھیں۔ بھارتی ایجنسی این آئی اے کی طرف سے یہ مضحکہ خیز الزامات اس وقت لگائے گئے جب پوری کشمیر ی قوم سری نگر اور کشمیر کی دیگر جیلوں سے حریت رہنمائوں اور سرگرم کارکنان کو زبردستی بیرون ریاست جیلوں میں منتقل کرنے اور ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیخلاف سراپا احتجاج تھی۔خود ہندوستانی عدالتوں کے فیصلے ہیں کہ قیدیوں کو ان کے گھروں کے قریب جیلوں میں رکھا جائے تاکہ ان کے لواحقین کو ملاقات کرنے میں مشکل نہ ہو لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ جب معاملہ کشمیریوں کا آتا ہے تو ہندوستانی عدالتیں بھی آنکھیں بند کر لیتی ہیں بلکہ غاصب بھارت کی اس لاقانونیت کا راستہ روکنے کی بجائے ان کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ سیدہ آسیہ اندرابی کو حال ہی میں تہاڑ جیل کے جس بدنام زمانہ سیل میں منتقل کیا گیا ہے وہاں قیدیوں کو سخت ترین سزا دینے کیلئے رکھا جاتا ہے۔ ایک ضعیف خاتون کے ساتھ اس ظلم پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ سیدہ آسیہ اندرابی سمیت دیگر رہنمائوں پر بے بنیاد مقدمات ختم کر نے اور جیلوں میں بدترین مظالم کے حوالہ سے مضبوط آواز بلند کرے۔کچھ عرصہ قبل سینیٹر مشاہد حسین سیدکی طرف سے سیدہ آسیہ اندرابی کا معاملہ اقوام متحدہ لیجانے کا عندیہ دیا گیاجوکہ یقیناً اچھا اقدام ہے۔ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام فورمز پر حریت پسند کشمیری رہنمائوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و جبر کا معاملہ اٹھایا جائے۔اگرچہ ان سے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے حوالہ سے کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی تاہم بھارت کے غاصبانہ کردار کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے اور یہ واضح کرنے کیلئے کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس مسئلہ کشمیر کا کوئی اور حل قبول نہیں کرے گا‘ ایسے اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button