ColumnImtiaz Aasi

الیکشن سے گریزاں کیوں؟ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

عدالت عظمیٰ کے احکامات کے بعد الیکشن کمیشن دو صوبوں میں ضمنی الیکشن کی تیاریوں میں ہے۔ جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان کو فکر لاحق ہے کہ الیکشن کے انعقاد کے لیے اٹھارہ ارب روپے درکا ر ہوں گے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔مولانا کو اس بات کا ادراک ہے کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف ان کی جماعت کے مقابلے میں اپنا ووٹ بنک مضبوط کر چکی ہے ۔جے یو آئی خیبر پختونخوا میں حکمرانی کے باوجود تحریک انصاف کے مقابلے میںترقیاتی کام کرانے میں ناکام رہی ہے جس کی بنیاد پر عمران خان کی پارٹی کا ووٹ بنک جے یو آئی کے مقابلے میں خاصا مضبوط ہے ۔
پی ایم ایل نون جو پنجاب کو اپنی جماعت کا گڑھ تصور کرتی تھی، گذشتہ ضمنی الیکشن میںاس کی شکست سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پی ایم ایل نون اپنے صوبے میں ووٹ بنک کھو چکی ہے ۔اسی لیے مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے اپنی ہونہار بیٹی مریم نواز کو پارٹی ورکرز سے خطاب کرنے کا ٹاسک دیا ہے تاکہ ان کی جماعت اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کر سکے انہی وجوہات کی بناپر دونوں جماعتیں ضمنی الیکشن میں حصہ لینے سے گریزاں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میںخاطر خواہ ووٹ بنک نہ ہونے کے باوجود الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔باوجوداس کے کہ گذشتہ عام انتخابات میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ٹکٹ لینے کے لیے امیدوار دستیاب نہ تھے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے امیدوار کھڑے کرکے جمہوری ہونے کا ثبوت دیا ۔
حقیقت تو یہ ہے تحریک انصاف نے پنجاب میں اقتدار میں آنے کے بعد بالعموم اور عمران خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد بالخصوص پنجاب میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں جس کی بڑی وجہ صوبے میں عوامی فلاح وبہبود کے وہ منصوبے ہیں جو عثمان بزدار اور چودھری پرویز الٰہی کے دور میں شروع کئے گئے ۔ عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کی اور کئی وجوہا ت ہوں گئیںپی ڈی ایم نے تحریک انصاف کے خلاف مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلائی ۔پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے کے بعد بجائے عوام کی مشکلات کم ہوتی الٹا ان کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے مہنگائی نے عوام کا بھڑکس نکال دیا ہے۔
حکومت نے عمران خان کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہو کر ان کی تقاریر کی ٹی وچینلز پر بابندی عائد کر دی ہے اس کے باوجود عمران خان کو غریب عوام کے دلوںسے نکالنا ممکن نہیں۔ حکومت کو اقتدار میں آئے نو ماہ ہو چکے ہیں ماسوائے اپنے خلاف مقدمات ختم کرنے کے کوئی ایک کام ایسا نہیں جو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کیاگیا ہو۔ حیرت تو اس پر ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکامی کے باوجود پی ڈی ایم اقتدار چھوڑنے کو اور نہ عام انتخابات جلد کرانے پرتیارہے۔ مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائزز مریم نواز کے بقول ان کی پارٹی الیکشن کے لیے تیار ہے تاہم ابھی کچھ فیصلوں کا انتظار ہے۔مسلم لیگ نون پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ضمنی الیکشن کے لیے اپنے امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دے رہی ہے اس کے برعکس جے یو آئی ابھی تک اس سلسلے میں خاموش ہے۔دراصل مسلم لیگ نون اپنے قائد کی تاحیات نااہلی کے خاتمے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے اس مقصد کے لیے کسی طرف سے یقین دہانی نہ ملنے کے باعث نواز شریف کی وطن واپسی کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ہے۔خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا عذر پیش کرکے جے یو آئی لیکشن ملتوی کرانے کے لیے کوشاں ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کے ملتوی ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ البتہ سیاسی بے چینی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔چلیں عمران خان نے مفاہمت کی بات دیر سے کی جسے پی ڈی ایم کو قبول کرنا چاہیے تھا نہ جانے وہ ملک میں انارکی پھیلا کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کی ضمنی الیکشن پر اٹھارہ ارب اخراجات کی بات مان لی جائے تو پی ڈی ایم کو عام انتخابات جلد کرانے میں کون سا امرمانع ہے؟ درحقیقت پی ڈی ایم اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں انہیں ملک وقوم کے مفاد کی بجائے اپنے ذاتی مفادات عزیز ہیں۔پی ڈی ایم کو ملک وقوم کی فکر ہوتی توقبل از وقت عام انتخابات کرانے پر رضامندی ظاہر کرتیں۔ جب تک تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی نہیں ہوتیں معاشی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ آج عوام کو جس ریکارڈ مہنگائی کا سامنا ہے ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اس کے باجود حکومت عوام سے جھوٹے وعدے کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہے۔مولانا فضل الرحمان سے سوال ہے اگر ملک ضمنی انتخابات میں اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا توحکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعدہمارا ملک انتخابات کا متحمل ہو سکے گا؟ پی ڈی ایم اقتدار نہ چھوڑنے کے لیے نت نئی تاویلیں نکال رہی ہے۔سیاست دانوں کو ملک کی فکر ہوتی تو لوٹ مار کے سرمائے سے کچھ ملک کے لیے عطیہ کردیتے تو بھی ہمارا ملک معاشی بحران سے نکل سکتا تھا۔حقیقت یہ ہے انتخابات خواہ کتنے کرا لیے جائیںجب تک ملک میں بے لاگ احتساب کے عمل کے ساتھ کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوگامعاشی مسائل جوں کے توں رہیں گے ۔
دنیا میں واحد ہمارا ملک ہے جہاں کرپشن کرنے والوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے ۔کئی حکومتیں ہو گذریں ہیں کسی نے کرپشن کے خاتمے کے لیے سنجیدگی سے کوشش نہیں کی ۔عمران خان نے کرپشن کے خلاف نعرہ تو بلند کیا تھا بقول ان کے ذمہ داران کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے ۔کھربوں کی کرپشن کرنے والے باہر پھر رہے ہیں اور کچھ حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔گذشتہ ایک سال سے ہمارا ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے سیاست دانوں کو اپنے مفادات کی فکر لاحق ہے ۔نواب زادہ نصر اللہ خان جیسے سیاست دان ناپید ہیں جو سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے۔تادم تحریر الیکشن کمیشن حکام اور گورنر خیبر پختونخوا کے درمیان الیکشن کے انعقاد کے سلسلے میں اجلاس جاری تھا تاہم جمعیت علما اسلام کی حتیٰ المقدور کوشش ہے کسی طرح سے الیکشن کو موخر کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button