Welcome to JEHANPAKISTAN   Click to listen highlighted text! Welcome to JEHANPAKISTAN
Abdul Hanan Raja.Column

کچھ بھی ہو سکتا ہے! .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

معروف تاریخ دان کا کہنا ہے کہ جن ریاستوں میں بدعنوانی زیادہ ہو گی، وہاں قوانین بھی زیادہ ہوں گے ، کہ کرپٹ مافیاز اور حکمران انہی کے سہارے اپنے اقتدار کو دوام اور بدعنوانی کو تحفظ دیتے ہیں۔ دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ہمارے معاشرہ میں یہ سب نہیں ہو رہا؟کیا ہمارا آئین گزشتہ کئی دہائیوں سے بدعنوانوں کا محافظ نہیں بنا ہوا؟سچ مانیے کہ ریاست کی ترقی کی راہ میں معاشی مشکلات حائل ہیں نہ دیگر عوامل۔ریاست اور ریاستی ادارے اگر آئین اور قانون کی بالادستی کو قبول کر لیں تو ملکی ترقی اور استحکام میں کچھ بھی رکاوٹ نہیں،مگر جب ہم اپنی سیاسی و آئینی تاریخ دیکھتے ہیں تو یہاں کچھ بھی ممکن دکھائی دیتا ہے۔ سر زمین آئین جو شاید اب بے آئین ہے، میں اگر آپ دولت اور طاقت کے بل بوتے پر سیاسی راہنما کہلانے کے قابل ہو چکے ہیں تو طاقت کے مراکز پر سجدہ ریزی کے بعد آپ آئین و قانون سے اس طرح بلند ہوں گے، جیسے زمین سے راکٹ۔ہر جرم سے معافی آپ کا مقدر! اگر آپ اعلیٰ عہدے پر فائز اورمنظور نظر بھی ہیں تو قوانین کے اطلاق سے مبراہیں، بدقسمتی آپ کا مقدر ہوئی تو ریٹائرمنٹ یا حکومت تبدیلی کے بعد کرپشن یا دیانت پر رگڑا بھی لگ سکتا ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کار ہونے کے ناطے پاکستان میں انڈسٹری لگانے کا شوق آپ کو کشاں کشاں یہاں کھینچ ہی لایا ہے تو بیسیوں منظوریوں کے لیے آپ کو سرکاری اداروں کے اہل کاروں سے راہ و رسم بڑھانا اور فائلوں کو پہیے لگانا ہوں گے، بھلا پہیوں کے بغیر چلتا ہی کیا ہے۔اگر آپ کو یہ فن نہیں آتا تو یقین جانیے کہ آپ سب کچھ چھوڑ کر ایسے بھاگیں گے جیسے چور لنگوٹی چھوڑ کے۔
اگر آپ انڈسٹریز کے مالک ہیں یا بڑے کاروباری، اور چاہتے ہیں کہ آپ کا کاروبار قائم بھی رہے اور منافع بے تحاشا، تو ٹیکس کے گورکھ دھندوں سے بچنا اور گورکھ دھندے والوں کو مرشد بنانا ہو گا،ٹیکس قانون کی ہلکی سی پاسداری آپ کو نقصان کے گہرے گڑھے میں گرا سکتی ہے۔یہ دنیا کا شاید واحد ملک جو چل رہا ہے تو بس چل رہا ہے۔ قانون اور آئین کی حکمرانی یہاں اتنی ہی ہے جتنی ننھی چڑیا میں جان۔ مزے کی بات کہ اس کو چلانے کے طریق پر بھی ابھی تک اتفاق نہیں ہو سکا اور نہ اسے چلانے والے کا پتا معلوم ہے،جس کا جتنا بس وہ اتنا ہی اسے چلا رہا ہے۔آپ نے اگر قومی ائیر لائن پر ہوائی سفر کی ضد پکڑ ہی لی ہے تو آپ کی فلائٹ کئی گھنٹے لیٹ ہونے کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
اگر آپ بذریعہ جی ٹی روڈ سفر پہ ہیں تو سڑک کے عین وسط جا بجا گڑھے دراصل محکمہ شاہرات کی طرف سے حوصلہ مند اور صابر و شاکر رہنے کی تربیت ہے۔آپ ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑا سکتے ہیں بشرطیکہ اس کی آپ میں طاقت بھی ہو بلکہ آپ ڈیوٹی پر موجود اہل کار کی جان تک لے سکتے ہیں،آپ پر جرم ثابت نہیں ہو گا کہ کیمرے کو قانون نہیں مانتا اور آپ قانون کو۔آپ نے دفتر پہنچنا ہے یا عدالت پیشی پر، مریض کو ہسپتال لے کے جانا ہے یا اہم ترین کام، کسی لمحے سڑک بلاک اور وہ بھی بلا وجہ۔سیاسی یا مذہبی ایشو پر ملک بھر میں پہیہ جام کی اجازت ہے، علاوہ ازیں لوٹ مار، توڑ پھوڑ ان کی کی صوابدید پرہے۔ نوٹ: ایسے مواقع پر آپ کی جان اور املاک بچانا ریاست کی ذمہ داری نہیں ہوتا۔کوئی انتہا پسند گروہ کسی بھی لمحے مذہب یا سیاست کے نام پر کھڑا ہو سکتا ہے یا کیا جا سکتا ہے اور اسے کسی بھی وقت عوام پر چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔
یہاں کے نظام میں آپ کو اجازت ہے کہ دوران اقتدار آپ اپنے مخالف پر ریاستی طاقت کے ساتھ نبٹ سکتے ہیں۔درجنوں افراد کو دن دیہاڑے گولیوں سے قتل کر کے پھر انہی کے خلاف مقدمہ بھی درج کرا سکتے ہیں۔یہ استثنیٰ بھی حاصل ہے کہ درجنوں مقدمات میں مطلوب ہونے کے باوجود آپ قانون ساز بھی بن سکتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والوں کے باس بھی۔صدر اور وزیر اعظم تک قتل ہو سکتے ہیں اور قاتل نامعلوم۔آپ کسی وقت کسی جھوٹے کیس میں پھنس یا پھنسائے جا سکتے ہیں اور آپکی بے گناہی اس وقت ثابت ہو گی جب آپ گناہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔یہاں طاقتور نت نئی گاڑیوں کی طرح اپنی مرضی کا انصاف حاصل کر سکتے ہیں۔یہاں ذاتی مخاصمت کی بنا پر کسی کو مذہب کی توہین پر ثواب جان کر مارا جا سکتا ہے،رہی بات جھوٹے الزام کی، تو یہاں جھوٹ ہی تو بکتا ہے، ایوانوں میں بھی اور سیاست میں بھی۔ یہاں کوئی حکومت تکمیل کی ذمہ داری لیے بغیر کسی بھی بڑے سے بڑے منصوبہ کا اعلان کر سکتی ہے نیز مدت تکمیل کی بھی کوئی پابندی نہیں۔ یہاں عوامی فلاح کے زیر تکمیل منصوبہ جات کو برس ہا برس رکوایا جا سکتا ہے یا اس کا متعدد بار افتتاح کیا جاسکتا ہے۔ یہاں غربت سے قتل کو جمہوریت کا نام اور غیرت کے نام پر قتل کو قبول کیا جاتا ہے، مگر اشرافیہ اس سے مبرا ہے کہ ذاتی زندگیوں میں ان کے کارنامے لیڈروں بلکہ ان کے کارکنان کے لیے بھی باعث عار نہیں ۔یہاں کسی وقت منتخب حکومت کی چھٹی کرائی یا بذریعہ عدم اعتماد گرائی جا سکتی ہے،اس ملک کا تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور دیانت دار جوان معمولی نوکری کے لیے نااہل جبکہ قانون کو مطلوب مجرمان اقتدار کے لیے اہل ہو سکتے ہیں۔ یہاں ضرورت کے تحت کسی وقت انتخاب کرائے یا ملتوی کیے جا سکتے ہیں اور حالات کی سنگینی کے پیش نظر ٹیکنو کریٹ یا قومی حکومت بھی بن سکتی ہے۔ آپ پوچھیں گے کیسے!!!!! کیونکہ
یہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Click to listen highlighted text!