Ali HassanColumn

آئی ایم ایف اور پاکستان .. علی حسن

علی حسن

 

جب بات کی جاتی ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کو حاصل مراعات میں کمی نہیں بلکہ انہیں ختم کر دیا جائے تو ملک کا یہ مراعات یافتہ طبقہ بلبلا اٹھتا ہے۔ اس بات سے تو کسی انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ پاکستان کی مقننہ میں بھاری اکثریت مراعات یافتہ طبقہ کی ہے۔ ایسا طبقہ جو اپنی دولت اور اس سے کہیں زیادہ اثر و رسوخ کی وجہ سے ’’الیکٹ ایبل‘‘ (منتخب ہونے کی صلاحیت اور طاقت رکھنے والا) کہلاتا ہے، ہر الیکشن میں منتخب ہو جاتا ہے اسی وجہ سے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں انہی کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنی پارٹی میں ان کی شمولیت کو اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہیں۔ ان کی شمولیت پر بغلیں بجاتی ہیں۔ یہ طبقہ کسی خوف کے بغیر ہر طرح کی سودے بازی اور سمجھوتہ بازی کرنے سے کبھی گریزاں نہیں ہوتا۔ کسی امتحان اور آزمائش سے گزرے بغیر وہ سیاسی جماعتوں کی صف اول میں نظر آتا ہے۔ پارلیمنٹ میں انہیں تنخواہوں اور مختلف الائونسز سے نوازا جاتا ہے ۔ انہیں سفر، تفریح، تعلیم ، علاج، وغیرہ میں سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ان لوگوں کو سفر کیلئے بھاری بھاری بڑی گاڑیاں حکومت کے خرچ پر فراہم کی جاتی ہیں اور ان میں پٹرول اور ڈیزل بھی حکومت کے خرچ پر ڈالا جاتا ہے۔ حکومت نے کبھی بھی گریڈ ایک سے گریڈ سولہ کے وفاقی اور صوبائی ملازمین کو سفر کیلئے کسی قسم کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی حالانکہ حکومت وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم کر سکتی ہے۔ مراعات یافتہ لوگوں کو بیرون ملک جا کر علاج کرانے کیلئے بھی امدادی رقم دی جاتی ہے۔ یہ کیسا ظالمانہ مذاق ہے ان لوگوں کے ساتھ جو اس ملک کے سرکاری ہسپتالوں میں بھی بلا معاوضہ علاج نہیں کر اسکتے۔ دوائیوں اور علاج میں استعمال ہونے والی اشیاء کے نام پر ڈاکٹر حضرات ان سے یہ چیزیں بازار سے خریدواتے ہیں۔ سب سے زیادہ حیران کن ایک پہلو یہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی کیفے ٹیریا میں بھی سبسڈائز( قومی خزانہ سے امداد)نرخوں پر کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ ان کے کیفے ٹیریا میں کھانے پینے کی ہر شے کے نرخ ملک بھر میں سب سے کم ہیں۔ یہ سبسڈی کس کا حق مار کر فراہم کی جاتی ہے۔ یہ امدادی رقم کے صحیح حقدار تو وہ عوام ہیں جو دس کلو وزن کا آٹا کا ایک تھیلا خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اول تو پارلیمنٹ کے لوگوں پر یہ سبسڈی جائز نہیں ہے کیوں کہ وہ اس کے حق دار ہی نہیں ہیں دوم یہ کہ اگر حکومت ان سے پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرنے کے پیسے وصول کرے تو یہ لوگ وہ بھی خوشی خوشی ادا کریں گے۔ ان کا مسئلہ قانون سازی نہیں، ان کا مسئلہ انہیں ووٹ دینے والوں کی نمائندگی نہیں ،ان کا مسئلہ عام لوگوں کے حالات اور معمولات سے نہیں بلکہ یہ تو اقتدار کی راہ داریوں میں اپنی موجودگی کو اس لیے یقینی بناتے ہیں کہ انہیں اپنے ذاتی مفادات کے کام کرانا ہوتے ہیں۔ اقتدار کی راہ داری ہی تو ان کی قوت کا منبع ہے، اسی کے سہارے یہ لوگ اپنے علاقے میں عملاًحکمرانی کرتے ہیں۔پولیس سمیت تمام سرکاری ملازمین کے یہ مائی باپ ہوتے ہیں۔ ان ہی کے بل پر ان کی حکمرانی چلتی ہے لیکن پاکستان میں سالوں سے قائم مخصوص طبقہ کی حکمرانی کا سکہ چل رہا ہے۔ اسے چیلنج کرنے والوں کو یہ طبقہ چینج کرنے کیلئے طاقت استعمال کرتا ہے ۔ عدلیہ اور انتظامیہ بھی مراعات یافتہ طبقہ میں شامل ہے۔
آئی ایم ایف نے تو کہہ دیا ہے کہ پاکستان امیروں سے سبسڈی واپس لے اور زیادہ کمانے والا زیادہ ٹیکس دے۔ پاکستان کو قرضوں کی ری سٹرکچرنگ نہیں بلکہ ملک چلانے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ سبسڈی صرف غریبوں کو ملنی چاہیے، آئی ایم ایف کی اس رائے سے کسے اختلاف ہو سکتا ہے کہ ٹیکس ریونیو، سرکاری شعبہ ہو یا نجی شعبہ، زیادہ کمانے والوں کو زیادہ ٹیکس دینا چاہیے ( وصول کرنا چاہیے کیوں کہ زیادہ کمانے والا رضاکارانہ یہ ذمہ داری ادا نہیں کرے گا) ، دوسری چیز یہ ہے کہ صرف ان لوگوں کو سبسڈی دیں جن کو اس کی واقعی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسی سکیموں پر قومی خزانہ سے رقم فراہم کرتی ہے لیکن اس کی تقسیم کا سلیقہ مند انتظام نہیں ہو سکا ہے۔ ضرورت مند خواتین کے ہجوم رات گئے تک بنکوں کے دروازوں پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک اور لطیفہ یہ ہے کہ کسانوں کے نام پر امدادی رقم فراہم کی جاتی ہے حالانکہ کسانوں کی بھاری اکثریت تک یہ رقم پہنچ ہی نہیں پاتی۔ کسان کو تو زمیندار پیدا وار میں حصہ دار قرار دیتا ہے اور ٹریکٹر پر حاصل ہونے والا قرضہ، کھاد وغیرہ پر ملنے والا قرضہ خود استعمال کرتا ہے۔ یہ امدادی رقم بھی ایک طرح سے مراعات یافتہ پیسے ولواں تک ہی پہنچتی ہے ۔پا کستان میں تو کسانوں کیلئے موجود قوانین پر عمل در آمد ہی نہیں ہوتا ۔تاہم اس وقت آئی ایم ایف کے جائزہ مشن نے حکومت پر یہ واضح کر دیا ہے کہ حکومت کو ان سب سے ٹیکس ریونیو لینا ہو گا جو قومی خزانے میں حصہ ڈالنے کیلئے آمدنی رکھتے ہیں۔ بیس کروڑ سے زیادہ آبادی میں سے صرف 35 لاکھ افراد ٹیکس کے ریٹرن فائلر ہیں اس لیے قابل ٹیکس آمدنی کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
جب وزیر اعظم سے بڑی کابینہ سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ وفاقی کابینہ مختصر کرنے سے متعلق اگلے چند روز میں اچھی خبر د ی جائے گی ۔ کابینہ میں اس حوالے سے بحث ہوئی ہے، فی الحال کچھ دنوں کیلئے کابینہ کو مختصر کرنے کا فیصلہ موخر کیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد بڑے فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی وزرا کے جون 2024ء تک لگژری گاڑیاں خریدنے پر پابندی لگادی گئی ہے جبکہ وزرا کی گاڑیاں واپس لے کر نیلام کی جائیں گی۔تمام وزیروں، مشیروں اور معاونین نے مراعات، تنخواہیں نہ لینے کا فیصلہ کیا جبکہ وزرا گیس، پانی، بجلی کا بل ذاتی جیب سے ادا کریں گے۔وزرا کا معاون عملہ غیر ملکی دوروں پر ساتھ نہیں جائے گا، وزراء غیر ملکی دوروں میں فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام نہیں کریں گے۔ ان سے سرکاری گاڑیاں واپس لی جائیں گی جنہیں گاڑیوں کا الائونس ملتا ہے۔ کابینہ کے بقول ان کے بڑے فیصلوں کے اعلان کے ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف سے ہمارے معاملات آخری مراحل میں ہیں۔ پرامید ہیں کہ اگلے چند روز میں آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا جائے گا۔ معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button