Ali HassanColumn

مہاجن کی دلدل .. علی حسن

علی حسن

 

قیام پاکستان سے قبل ہندو بنیا، جسے عام طور پر مہاجن پکارا جاتا تھا، قرضہ دینے یا قرض پر سامان دینے پر صرف اس لیے احتراز کرتا تھا کہ اسے اپنے پیسے کی واپسی کی گارنٹی چاہیے ہوتی تھی، خواہ قرض دار کتنی ہی مزید رقم کا مطالبہ کیوں نہ کرے۔ سود پر قرضہ فراہم کرنے کا رواج زوروں پر تھا۔ قرضہ لینے والے چاہتے تھے کہ مہاجن انہیں قرضہ دے دے خواہ کتنا ہی سود وصول کرے۔ جب قرضہ زیادہ ہو جایا کرتا تھا تو مہاجن زبانی کلامی اعتبار نہیں کرتا تھا وہ قرضہ لینے والے زمینداروں سے کہتا تھا کہ اپنی زمین کے کاغذات اس کے پاس جمع کرائیں اور زرعی زمین کو گروی رکھ دیں۔ پیسے کی ضرورت ہوتی تھی اس لیے کاغذات جمع کرانے میں کوئی انکار نہیں ہوتا تھا کیوں کہ ا نہیں اپنی ضرورت پوری کرنے ہوتی تھی۔ بہت کم ایسے زمیندار ہوتے جو پیداوار بڑھانے کیلئے قرضہ لیتے مگراکثر زمیندار غیر پیداواری اخراجات کیلئے قرضہ لیتے تھے جس کی واپسی مشکل ہوتی تھی۔ پاکستان کے ساتھ بھی آئی ایم ایف نے و ہی کیا جو ہر قرضہ دینے والا کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کے اپنے پروگرام پر عمل در آمد کیلئے قرضہ تو دیا لیکن موجودہ حکومت کو جکڑ کرحکومت کو مجبور کر دیا کہ 170 ارب روپے ٹیکس کی صورت میں نافذ کریں۔ حکومت کے پاس وعدہ کرنے اور اس پر فوری طور پر عمل در آمد کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں تھا۔
وزیر خزانہ نے تو آسانی سے کہہ دیا کہ مالیاتی بل کی منظوری کابینہ نے دے دی ہے۔ اس مالیاتی بل کی منظوری کے نتیجے میں ضرورت کی ہر چیز ٹیکس کے خمیازہ بھگتے گی۔پہلے سے سخت معاشی حالات کے شکار لوگوں کیلئے ایک اور سخت مشکل پیدا ہو گئی ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کردیا ہے،جس کے نتیجے میں عوام بری طرح متاثر ہوگا۔ کوکنگ آئل، گھی، بسکٹ، جام، جیلی، نوڈلز، کھلونے، چاکلیٹ، ٹافیاں،صابن، شیمپو، ٹوتھ پیسٹ،شیونگ کریم،میک اپ کا سامان، کریم، لوشن، ہیئر کلر، پرفیوم ، برانڈڈ عطر،موبائل فون، ٹیبلٹس، لیپ ٹاپ،گیجٹس،ٹی وی، ایل ای ڈیز، ایل سی ڈیز، فریج، واشنگ مشین، جوسر بلینڈرز اورفوڈ فیکٹریز سمیت الیکٹرونکس سامان بھی مہنگے ہو جائیں گے۔سیلز ٹیکس کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کا فیصلہ سے 50 ارب سے زائد کا اضافی بوجھ عوام پر آ سکتا ہے۔
وفاقی حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط پوری کرتے ہوئے گیس کی قیمتوں میں 17سے 112فیصد تک اضافہ کردیا جبکہ سلیبس کی تعداد بھی 6 سے بڑھا کر 10 کردی گئی ہے۔ گیس قیمتوں میں اضافے سے حکومت کو 310 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوگا۔گیس کی قیمتوں میں اضافہ گھریلو، کمرشل، پاور سیکٹر، کھاد، سیمنٹ انڈسٹری،برآمدی صنعتوں اور سی این جی سمیت تمام شعبوں کیلئے کیا گیا ہے۔اس منی بجٹ کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آنے کا خدشہ ہے۔ ایسا خدشہ جو لوگوں کو مشتعل کر سکتا ہے۔ ماہر معاشیات حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف معاہدے کے باوجود مشکلات سے نہیں نکل پائیں گے۔ تین چار اقدامات ایک وقت میں کیے گئے جس کی وجہ سے افراط زر نمایاں طور پر بڑھ جائے گا۔ جو ٹیکس نہیں دیتے ہیں، حکومت کو ان سیکٹرز پر ٹیکس لگانا چاہیے تھا۔
مہاجن ( آئی ایم ایف) نے اپنی رقم کو محفوظ کرنے کیلئے حکومت پاکستان کو مجبور کیا کہ نئے ٹیکس لگائے اور حکومت نے لگا دیئے،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مہاجن کا جو قرضہ پاکستان پر ہے اس کی ادائیگی کا کوئی راستہ نکلے گا۔ کوئی راستہ نکلنے کی کوئی امید اس لیے نہیں کہ پاکستان کی پیداواری صلاحیت ہی صفرہو گئی ہے اور اضافی ٹیکسوں کے نفاذ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری حکومت نے عمران خان کی حکومت کے آئی ایم ایف سے کیے وعدوں کو نبھایا ہے، ہم اس کی بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کر رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں سیاست نہیں ریاست اہم ہے، کوشش ہے ایسے ٹیکس لگائے جائیں کہ عام آدمی کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وزیر خزانہ کیوں کر لا علم ہوں گے کہ عام آدمی کو مشکلات کا سامنا نہیں کرنے پڑے گا۔ ان کی یہ سوچ حقیقت کے بر عکس ہے۔ وزیر خزانہ کا پاکستان سے اتنا ہی واسطہ ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کی بھاری تعداد بیرون ملک رکھتے ہیں۔ ان کے پاس دیگر دولت مند سیاست دانوں کی طرح دولت کی ریل پیل ہے اس لیے انہیں احساس ہی نہیں کہ نتائج کیا نکلیں گے۔ ٹیکس لگانا آسان ہے لیکن پاکستان کے موجودہ معاشی حالات اور عام لوگوں کی آمدن کو مد نظر رکھا جائے تو اس کی وصولی مشکل نظر آتی ہے۔ حکومت اگر ملک کو معاشی دبائو سے باہر نکالنا چاہتی ہے تو کسی تاخیر کے بغیر تمام غیر ترقی یافتہ اخراجات کو ختم کر دے، بند کر دے۔ حکومت اور انتظامیہ کا حجم بہت چھوٹاکر دیا جائے، وزراء اور افسران پر ہونے والے ہر طرح کے اخراجات بند کر دیئے جائیں۔ وزیر اعظم ، وزیر خارجہ اور دیگر وزراء اپنے تمام غیر ملکی دوروں پر خود ہی پابندی عائد کرلیں۔ ایک ایک ڈالر بچانے کی ضرورت ہے۔
حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر اس لیے مصر تھی کہ ملک ڈیفالٹ نہ کرے۔ ڈیفالٹ کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو اس کے قرضہ کا سود ادا کر دیا جائے۔ ایف بی آر کے سابق چیئر مین شبر زیدی کا کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے اب بہت زیادہ فرق نہیں پڑنا، روس اور یوکرین نے ڈیفالٹ کیا، تو کوئی آفت نہیں آئی، جن ممالک نے ڈیفالٹ کیا ترقی کی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے ہم سے قرض لے کر چین کو ادائیگیاں نہ کریں، تمام سرکاری زمین بیچ دیں توقرض چار بارادا ہو جائے گا ۔1970 سے امپورٹ پر مبنی معیشت ہے۔ سارے معیشت دان نالائق ہیں یا منافق ہیں، اس بارنیا یہ ہے کہ فارن پالیسی معاملات سے پیسے نہیں بن رہے۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا مسلم لیگ کے پاس پاکستان بنانے سے پہلے معاشی پلان تھا؟ 5 سال میں پاکستان کا کیامستقبل ہے، یہ عمران خان بتائیں گے یا شہبازشریف۔شبر زیدی
نے کہا کہ کیا سوشل میڈیا پر بیٹھ کر معاشی پالیسیاں بنیں گی؟ کرپشن کا 85 فیصدحصہ بزنس مینوں کے پاس جاتا ہے، کرپٹ بزنس مینوں نے نواز شریف کو 1992 میں وزیر اعظم بنایا، سب کی یورپ اور امریکہ میں پراپرٹیز ہیں۔یہ میرا کیا ہوا کام ہے کہ اب ڈالر لینے سے پہلے پوچھا جاتا ہے، حوالے کو کوئی مائی کا لال نہیں روک سکتا، کرپشن کی رقم آٹا، دال اور اجناس میں ڈال دی گئی ہے۔شبر زیدی نے کہا کہ 3 فیصد ماہانہ پر رقم کسانوں کودے دی جاتی ہے، حوالے کے پیسے کراچی میں کہاں سے ملتے ہیں سب کو معلوم ہے، کرپشن کے پیسے سے 3 فیصد قرض سے سستی اجناس بھی لی جاتی ہیں۔عمرہ زیارات پر 2 ارب ڈالر خرچ ہوتا ہے، غیر ملکی ایئرلائنز کو بند کیا جائے، سی پیک کی لال بتی کچھ نہیں ہے، اسے بند کریں۔ تیل کا بیج پاکستان میں اگائیں اور بجلی میں 3 ارب ڈالر بچائیں۔انہوں نے کہا کہ ساری پارٹیاں الیکشن میں پنڈی کی حمایت چاہتی ہیں، فوج اور تمام سیاسی جماعتوں کو بیٹھنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button