ColumnRoshan Lal

لبرل اور سوشلسٹ انقلابی .. روشن لعل

روشن لعل

 

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر اِس مناظرے کا بہت چرچا رہا جس میں لبرل ازم اور سوشلزم کوزیر بحث لایا گیاتھا۔ اس مناظرے میں دو ایسے لوگ روبرو ہوئے جن کے متعلق مشہور ہے کہ ان میں سے ایک خود کو فخریہ لبرل اور دوسرا مارکسزم کا عالم کہتا ہے۔ اس مناظرے میں لبرل ازم اور سوشلزم کے تضادات پر تو بہت کچھ کہا گیا مگر ان کے باہمی تعلق اور ارتقا کے حوالے سے خاموشی اختیار کی گئی ۔سوشل میڈیا پر لبرل ازم اور سوشلزم پر مناظرے کے حوالے سے جو بحث ہوئی وہ کیونکہ مکالمے کی بجائے مناظرے کی شکل اختیار کر گئی تھی اس لیے راقم نے یہی بہتر سمجھا کہ زیر بحث موضوع پر بطور ایک طالب علم الگ سے اپناایسا نقطہ نظر پیش کیا جائے ۔
جہاں تک لبرل ازم اور سوشلزم کا تعلق ہے تو یہ دونوں افکار مغرب سے درآمد شدہ ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ اس وقت دنیا میں صنعت ، زراعت ، معاشیات اور سماجیات وغیرہ سے وابستہ علوم جس شکل میں بھی موجود ہیں ان پر مرتب شدہ یورپی اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں،اٹھارویں صدی عیسویں کے دوران یورپ میں جو ترقی ہوئی وہ نوآبادیاتی دور کے آغاز کے ساتھ ہی پوری دنیا میں منتقل ہونا شروع ہو گئی۔ یہ دور جہاں ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں کا یورپی ایمپائرز کے زیر نگیں آنے کاتھا وہاں یورپی ملکوں کے اندر بادشاہتوں کے کمزور اور عوام کی منتخب حکومتوں کے مضبوط ہونے کا بھی تھا۔ یورپی ملکوں میں یہ تبدیلی وہاں عوام کی شعوری سطح بلند اور شہری حقوق کا احساس اجاگر ہونے کی وجہ سے رونما ہوئی۔یورپ میں شخصی آزادیوںکیلئے جس جدوجہد کا آغاز ہوااس کا محرک لبرل ازم کو قرار دیا گیا۔
ہمارے معاشرے میںلبرل قرار دیئے گئے کسی بھی انسان کو اکثر بے راہروی کی طرف مائل اور معاشرتی اخلاقیات کی پرواہ نہ کرنے والا فرد تصور کر لیا جاتا ہے۔ لبرل ازم کی طرف شعوری طور پر مائل کسی بھی انسان کیلئے یہ تصورہر گز حقیقتاً درست نہیں ہے۔ لبرل ازم اصل میں لفظ لبرٹی سے ماخوذ ہے۔ لبرل ازم کا مفہوم بہت وسیع ہونے کے ساتھ ایسا پیچیدہ بھی ہے جو زندگی کے قریباً تمام شعبوںکا احاطہ کرتاہے۔ مغرب میں لبرل ازم صرف ایک روایت اور نظریہ ہی نہیں بلکہ زندگی گذارنے کا اسلوب بھی ہے۔ لبرل ازم ایک ایسی روایت ہے جو یورپ اور امریکہ میں سیاسی و معاشی نظریہ کے طور پر رائج ہے۔ سیاسی نظریے کے طور پر کسی کے لبرل ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ انسانوں کی فطری آزادیوں کو ان کا حق تصور کرتا ہے۔ لبرل ازم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی ذات سے متعلق فیصلے کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ ریاست یا معاشرے کو کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کونسا
مذہب اختیار کرنا چاہتا ہے، کس سے شادی کرنا چاہتا ہے،کیا عقیدہ رکھنا چاہتا ہے، کیسے سیاسی نظریے سے وابستہ ہونا چاہتا ہے اور بحیثیت مجموعی کیسی زندگی گذارنا چاہتا ہے ۔ لبرل ازم کے مطابق ریاست سے فرد کا تعلق صرف اس حد تک ہونا چاہیے کہ ریاست صرف یہ خیال رکھے کہ کوئی فرد بحیثیت شہری خود پر واجب فرائض کس حد تک ادا کر رہا ہے اور ریاست کیسے اس کے حقوق کا تحفظ کر رہی ہے ۔لبرل ازم ایک نظام کے طور پر ریاست کے ہر شہری کو بلا لحاظ رنگ، نسل ، ذات اور مذہب کے تمام تر شخصی آزادیوں کی ضمانت فراہم کرنے کا نام ہے۔ لبرل ازم معاشرے کے ہر فرد کو تحریر و تقریر کی آزادی کا حق دیتا ہے۔ تسلیم شدہ لبرل معاشروں میں فرد کو حاصل تمام تر شخصی آزادیوں کی نگہبانی ہر حکومت ، ریاست کی طاقت استعمال کرتے ہوئے کرتی ہے اور حکومت کو طاقت کے غلط استعمال سے روکنے کیلئے پارلیمنٹ اور آزاد عدلیہ نگران کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔
لبرل ازم کے ابتدائی دور میں اس سے منسوب اقداریہ تھیں کہ حکومت اپنے اقدامات سے تمام شہریوں کی فلاح و بہبود کا مساوی خیال رکھے۔ حکومت سماجی مسائل کا حجم کم کرتے ہوئے فرد کی شخصی آزادیوں اور اجتماعی انسانی حقوق کا تحفظ کرے۔لبرل ازم کی طرف رجحان کے باوجود مغرب میںجو سوشل کنڑیکٹ تیار ہوا اس کا خاکہ یہ تھا کہ کسی فرد کی ذاتی آزادی کی حد یہ ہے کہ اس سے دوسروں کی آزادیاں متاثر نہ ہوں۔ اس سوشل کنٹریکٹ کی رو سے یہ ضروری سمجھا گیا تھاکہ ہر فرد اپنے مطلق آزاد ہونے کی کچھ خواہشات سے ریاست کے حق میں دستبردار ہو جائے تاکہ ریاست اس کی باقی ماندہ آزادیوں کا مناسب تحفظ کر سکے۔
لبرل ازم کے تحت جب فرد کی شخصی آزادیوں کو تسلیم کیا گیا تو سرمایہ داروں نے حکومتی کنٹرول سے آزاد معاشی سرگرمیوں کی ترویج کیلئے بھی کوششیں کرنا شروع کر دیں۔ ایسی کوششوں کے تسلسل میں آزاد منڈی کی معیشت کا ایسا نظام رائج ہوا جس میں اشیاء کی قیمتوں کا تعین حکومتی کردار سے مبرا ہو کر پیداوار کی طلب اور رسد کے وضع کردہ اصولوں کے تحت کیا جانے لگا۔ افراد اور اداروں کی زیادہ آمدن کا مطلب حکومتوں کا زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کی وصولی بن گیا۔ لہٰذا حکومتوں نے آجر کے ہاتھوں اجیر کے استحصال اور تاجر کی صارف سے زیادہ سے زیادہ منافع خوری کی کوششوں سے ان کے کاروباری امور میں عدم مداخلت کی لبرل پالیسیوں کے نام پر چشم پوشی کی۔ یوں مغربی سماج میں سرمایہ داروں کا تسلط قائم ہونا شروع ہوا۔ ایسے حالات میںعوام نے لبرل ازم کے تحت حاصل تحریر و تقریر کی آزادیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے استحصال کے خلاف آوازیں بلندکیں۔ اس طرح لبر ل ازم کی کوکھ سے سوشلزم کا نظریہ پیدا ہوا۔سوشلزم کے بیانیے میں کہا گیا کہ پیداوار،اس کی تقسیم اور تبادلہ کا نظام کسی فرد یا ادارے کا ذاتی معاملہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ امور ریاست و حکومت کے عمل دخل سے پبلک سیکٹر میں طے کیے جانے چاہئیں۔سوشلسٹ نظریات کے ارتقا کے دوران کمیونزم کا نظریہ معرض وجود میں آیا جس میں ذاتی ملکیت کی نفی کرتے ہوئے تمام تر پیداوار اور وسائل کو ریاست کی ایسی ملکیت قرار دیا گیا جس میں کوئی بھی فرد کسی قسم کے استحصال کے بغیر ا پنی قابلیت اور حیثیت کے مطابق حصہ ڈالے گا اور اپنی ضرورتوں کے مطابق وصول کرے گا۔
سوشلزم اور کیمونزم کے نظریہ کے تحت پوری دنیا میں سرمایہ داری نظام کے خلاف مزاحمتی تحریکیں شروع ہوئیں۔ ان تحریکوں کے دوران روس میں ایک سوشلسٹ ریاست معرض وجود میں آئی جس نے بعد ازاں سویت یونین کی شکل اختیار کی اور پھر اس کی زیر قیادت مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ملکوں کا محاذ قائم ہوا۔سوشلسٹ نظریات کے تحت ترقی کی شاندارمثالیں قائم کرنے کے باوجود طویل سرد جنگ میں سوویت یونین اور اس کا سوشلسٹ بلاک، سرمایہ دار ملکوں کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سوشلزم اور کیمونزم کے نام لیوا تو موجود رہ گئے مگر ان میں ماضی کی طرح اپنے نظریہ کو تمام انسانی دکھوں کا مداوا ثابت کرنے کا حوصلہ نہ رہا ۔ دوسری طرف لبرل ازم کو کوئی جتنا بھی انسانی فطرت کے قریب کہے مگر کسی طر ح بھی اسے انسان دوست نظریہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ افسوس کہ لبرل اور سوشلسٹ انقلابیوں میں سے کوئی اپنی بحثوں کے دوران خود کو مطلق انسان دوست ثابت نہیں کر پاتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button