ColumnJabaar Ch

مشورے ۔۔۔۔! .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

جب وال چاکنگ سے اشتہارلکھنے کا رواج تھاتو نیم حکیموں اوریونانی دواخانوں کے اشتہاروں میں لکھا ہوتا تھا کہ مشورہ مفت۔حکیم سے ملیے اورمشوہ مفت پائیے۔کہیں یہ بھی لکھا ہوتا تھا کہ مشورے کی کوئی فیس نہیںوغیرہ وغیرہ۔یہ بات مشورہ لینے والا بھی جانتاتھا کہ کوئی بھی مشورہ مفت نہیں ہوتا۔یہ مشورے بھی مفت نہیں ہیں۔آپ اگر یہ مشورے پڑھ رہے ہیں تو شاید آپ کو لگتا ہوکہ آپ تو یہ مفت ہی پڑھ رہے ہیں لیکن ایسا ہے نہیں۔اگر آپ اخبار خرید کریہ کالم پڑھ رہے ہیں تو آپ اس کی قیمت اخبار بیچنے والے کو اداکرچکے ہیں اور اگر آن لائن ، سوشل میڈیا کسی واٹس ایپ گروپ میں پڑھ رہے ہیں توانٹرنیٹ ابھی مفت نہیں ہواہے۔ میرے یہ مشورے پاکستان کی سیاست کی تین متحرک شخصیات کیلئے ہیں۔ملک کی سیاست انہی تین چار شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے ۔مشوروں کا یہ سلسلہ مسلم لیگ نون کی تازہ تازہ چیف آرگنائزر بننے والی مریم نوازسے شروع کرتے ہیں۔
مریم نوازکی لندن سے واپسی بڑی دھوم دھام سے ہوئی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تام جھام میں کچھ ہلکا پن آنا شروع ہوگیا ہے۔پارٹی میں اختلافی آوازیں بھی اونچی ہورہی ہیں۔مریم نوازابھی تک بہاولپور،ملتان،ہزارہ اور اسلام آباد کے تنظیمی دورے کرچکی ہیں۔ان کے آنے سے پہلے ہی پارٹی کے سینئرزاورانکلز کو ان کا سینئرنائب صدربنانا اورپارٹی کی تنظیم نو کی ذمہ داری دینا اچھا نہیں لگا ۔مریم نوازسے پہلے سینئرنائب صدر کا عہدہ شاہد خاقان عباسی کے پاس تھا۔شاہد خان عباسی اسی دن سے اکھڑے اکھڑے سے رہنے لگے ہیںاور انہوں نے یہ کہہ کر استعفیٰ دیا کہ مریم نوازکو مکمل موقع اور کھلا میدان ملنا چاہیے۔یہ حقیقت ہے کہ شاہد خاقان عباسی ہوں یا مفتاح اسماعیل کا الگ فورم تشکیل دے کر سیمینارزکرنا یا مہتاب عباسی کی پارٹی پالیسی پرتنقیداورپھرمریم نوازکے اپنے شوہرکیپٹن صفدرکے بیانات ،ان سب باتوں سے نون لیگ میں ایک لڑائی کا پیغام سامنے آرہا ہے۔مریم نوازکا سب سے بڑاچیلنج تو پارٹی میں ان اختلافی آوازوں کے ساتھ ڈیل کرنا ہے۔ان کیلئے ایک مشورہ تو یہ ہے کہ وہ ان آوازوں کاشورختم کرنے کیلئے ان سے ملنا شروع کردیں۔ان سے تحفظات پوچھیں اگر تو واقعی کچھ قابل ذکربات ہوتو اس کا ازالہ کریں۔ان کو عزت درکارہوتو عزت دیں۔ ویسے تو ملاقات کرلینا اورمیڈیا پر اکٹھے بیٹھ کربات کرلینا ہی کافی ہوگا۔اگر یہ والا مشورہ کام نہ کرے توپھر ان آوازوں سے سامنے آکر لاتعلقی کا اعلان کرکے آگے بڑھ جائیں۔
جن تین شخصیات کا میں نے ذکرکیا ہے یہ تینوں اپنی اپنی سیاسی اننگز کھیل چکی ہیں۔مفتاح اسماعیل تو ویسے بھی الیکشن نہیں لڑیں گے۔ایک الیکشن انہوں نے لڑاتھا کراچی سے جس میں وہ قادر خان مندوخیل سے ہار گئے تھے۔اب انہوں نے اعلان ہی کردیا ہے کہ وہ الیکشن نہیں لڑیں گے ۔وہ صرف سینیٹ کی ٹکٹ کے امیدوارہوسکتے ہیں کیونکہ وہ صنعتکار ہیں اور صنعتکار گھاٹے کے سودے نہیں کرتے۔شاہد خاقان عباسی دوہزار اٹھارہ میں اپنے حلقے میں پی ٹی آئی کے صداقت علی عباسی سے ہارگئے تھے اور پارٹی نے ان کوعزت دیتے ہوئے لاہورسے ضمنی الیکشن لڑواکراسمبلی میں پہنچایاتھا۔سردارمہتاب عباسی کو ن لیگ نے وفاقی وزیراور پھر خیبرپختونخواکا گورنربھی بناکر دیکھ لیا۔وہ بھی آخری الیکشن ہارگئے تھے اب وہ بھی پارٹی پر تنقید شروع کربیٹھے ہیں۔ اتنے اہم ترین وقت میں پارٹی کے اندرسے اٹھنے والی آوازوں کو مینج کرنا مریم نوازکا بڑاچیلنج اور امتحان ہے۔
مریم نوازکیلئے دوسرامشورہ یہ ہے کہ میڈیا سے بھاگنا بند کردیں۔نون لیگ کے لیڈروں کی سیاست ویسے تومیڈیا کا سامنا کرنے کے بجائے میڈیا کومینج کرنے پر محیط ہے۔اب بھی وہ وہی کررہے ہیں۔ مریم نوازہوں یا شہبازشریف ہوں یا نوازشریف، سب میڈیا سے اتنے ہی دورہیں جتنے وہ عوام سے ہیں۔وہ سب چاہتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی جگہوں پر ورکرزکنونشن ہوں۔پی ٹی وی کا کیمرہ اور مائیک ہواوروہ خطاب کرلیں ۔نہ پریس کانفرنس انکی ترجیح ہے اور نہ ہی کسی اینکرکو انٹرویوان کے کسی شمار میں ہے۔اگر آپ عمران خان اورمریم نوازکا موازنہ کریں توعمران خان جب سے زمان پارک میں بیٹھے ہیں اس وقت سے درجنوں ٹی وی انٹرویوزدے چکے ہیں۔لاہور کے ہر چھوٹے بڑے اخبار نویس اوراینکرسے مل چکے ہیں۔دوسری طرف مریم نواز ہیں انہوںنے کسی اخبار نویس کو اب تک اپنے قریب نہیں آنے دیا۔انٹرویو تو بہت دورابھی تک یہ نہیں طے کرپائیں کہ کن صحافیوں کو ملاقات کیلئے بلانا ہے اور کن کو نہیں ۔تو مریم نوازکو مشورہ ہے کہ اینکرزکو
انٹرویوزدیں۔اپناآپ بیان کریں،اس میں غلطیاں اور کمزوریاں بھی عیاں ہوں گی لیکن نقصان سے فائدہ کہیں زیادہ ہوگا۔
اب عمران خان صاحب کی طرف آتے ہیں۔ خان صاحب گزشتہ دس مہینوں سے اس ایک مشن پر ہیں کہ نہ کھیلوں گا نہ کسی دوسرے کو کھیلنے دوں گا۔ خان صاحب نے پوری زندگی صرف اپنا فائدہ دیکھا ہے ۔ان کی اپنی ذات اس قدراہم کہ کھانے کی میزپر چارافراد بھی بیٹھے ہوں تو وہ اکیلے اپنے لیے کھانامنگواکرکھاجاتےہیں۔گھر آئے مہمان کو چائے تک پوچھنے کے روادارنہیں ہوتے۔ان کے چاہنے والے اس کو بھی ان کی کوئی ’’ادا‘‘کہہ لیتے ہیں لیکن حقیقت یہی کہ خان صاحب صرف اپنا سوچتے ہیں۔ اس سوچ کو بیان کرنے کیلئے وہ کسی بھی پہناوے کا سہارالے لیں لیکن مرکزی مفاد ان کی اپنی ذات کا ہی رہتا ہے۔خان صاحب کیلئے مشورہ ہے کہ ایک بار ’’اسٹیٹس مین‘‘بن کراس ملک کا سوچیں۔اپنے گزشتہ دس ماہ کا تنقیدی جائزہ لیں۔ آپ کو لگتاہوگا کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اگر آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی بھی ہے توخدارااس کا بدلہ پاکستان سے مت لیں۔آپ کی تحریک اور کارکنوں کو تماشوں میں الجھانے سے کسی شریف یا زرداری کا نقصان نہیں ہواوہ توآج بھی اس ملک کے حکمران ہیں ۔اس کا نقصان آپ کے اور میرے پاکستا ن کو پہنچا ہے۔آپ ہٹ دھرمی اور ضد چھوڑ کر مثبت سیاسی اپوزیشن کا کرداراداکرنے کا سوچیں۔ آج جو زمان پارک کے باہرکیمپ لگاکر ڈیوٹیاں دے رہے ہیں یہ سب وہ لوگ ہیں جن کو آپ سے ٹکٹ کی صورت میں فائدہ چاہیے۔
خان صاحب آپ پر مشکل وقت ہے ۔مشکل وقت گزرجاتا ہے لیکن کیسے گزرایہ یاد رہ جاتا ہے۔ اس مشکل وقت کو گزارنے میں بھی ایک ’’گریس‘‘ ہونی چاہیے ۔آپ کے اس مشکل وقت گزارنے میں وہ گریس مسنگ ہے۔آپ کو دیکھ کرایک ہی تاثر اُبھرتا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ ’’میں نہیں توکچھ نہیں‘‘آپ عمران خان کے بغیر والے پاکستان کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے،لیکن خان صاحب پاکستان تو اس وقت بھی تھا جب آپ نہیں تھے اور اس وقت بھی ہوگا جب آپ نہیں ہوں گے تو ایک’’ فسادی رہنما ‘‘کی بجائے ایک’’ محبوب رہنما ‘‘کی طرح زندگی گزارنے کا سامان کرلیں یہ اقتدار واپس آپ کے پاس آجائے گا لیکن اگر اسی طرح مرکزگریز ہی رہے تواقتدارسے ہی نہیں سیاست سے بھی چھٹی ہوجائے گی۔
آخرمیں شہبازشریف کیلئے مشورہ۔ویسے اس مشورے کا کوئی فائدہ تو نہیں ہوگا کیونکہ شہبازشریف کوخودنہیں معلوم کہ وہ کیا اور کیوں کررہے ہیں۔ان کی کابینہ پچاسی ارکان تک پھیل گئی ہے لیکن ان کا ابھی بھی اس کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں لگتا ۔مجھے تو یہ سمجھ نہیں لگی کہ جولوگ پہلے ہی ایم این ایز ہیں ۔کسی قائمہ کمیٹی کے بھی ممبرہیں ان کو معاون خصوصی کا عہدہ کیوں چاہئے ؟اورسب سیاستدان عابد رضا کوٹلہ جیسے کیوں نہیں ہیں جو گجرات سے ایم این اے ہیں اوران کو شہبازشریف نے معاون خصوصی بنایا توانہوں نے شکریے کے ساتھ عہدہ لینے سے انکارکردیا۔آپ معاون خصوصی کے عہدے لینے والوں اورعابد رضا کا موازنہ کریں گے توکس کوزیادہ عزت دیں گے؟ معاون خصوصی کے عہدے قبول کرنیوالوں کویا عابد رضا صاحب کو؟وزیراعظم شہبازشریف صاحب اس مشکل وقت میں آپ اور حکومت کو عوام کے ساتھ کھڑے ہوکرمثال بننے کی ضرورت ہے لیکن آپ ہر روزکابینہ ارکان میں اضافہ کرکے لوگوں کیلئے عبرت کی مثال کیوں بننا چاہتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button