ColumnNadeem

نظام کے منہ پر کالک .. ندیم زعیم

ندیم زعیم

 

فخرعلم پر کرو نہ کہ اس زبان پہ جس کے ذریعے اس کا اظہار کرتے ہیں۔ علم نہیں تو زبان کچھ نہیں کرسکتی اورعلم ہے تو اسے کسی بھی زبان میں لوگوں تک پہنچایا جاسکتاہے۔
کچھ روز قبل کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کے ایک پرائیویٹ سکول میں طالب علم موسیٰ عاطف نے انگلش کی بجائے اردو بو لی تو استانی صاحبہ نے بطور سزا موسیٰ کے چہرے پر کالک سے نشان لگادیا، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ٹویٹر ٹرینڈ بنے اور مین سٹریم میڈیا نے خبر کولفٹ کرلیا ۔ زبردست ردعمل کے بعد ناصرف سکول کی انگلش زبان کے لیے اس ایس او پی پر شدید تنقید کی گئی بلکہ اس اُستانی سے بھی استعفیٰ لے لیا گیا ۔
مجھے ایک واقعہ یا دا ٓگیا کچھ عرصہ پہلے سول سروسز اکیڈمی لاہور میں میڈیا کےتعارف پر لیکچر دینے کا موقع ملا یہ لیکچرپاکستان کی ایلیٹ بیورو کریسی کے اِن افسران کو دیاگیا جو 19ویں سے 20ویں گریڈ میں پروموٹ ہورہے تھے ،خیبرپختوانخوا سے ایک ڈی آئی جی نے ساتھی انسٹرکٹر سے اردو میں سوال پوچھ لیا اس سے پہلے کہ انسٹرکٹر جواب دیتا ہال کے پیچھےسے ایک تیسری آوازبریکنگ نیوز کی طر ح آئی کہ ’’سپیک اِن انگلش‘‘وہ انتظامیہ کےایک کارکن کی آوازتھی ڈی آئی جی نے بعد میں سوال نہیں پوچھا شاید وہ ویسے روانی سے انگلش بول نہیں سکتے تھے جاننے پر پتا چلا کہ یہاں ایس اوپی ہے کہ انگلش کے علاوہ کوئی زبان بولی نہیں جاسکتی۔ مجھے وہ ڈی آئی جی آج کے موسی ٰ عاطف سے مختلف دکھائی نہیں دئیے۔مجھےیہ بتائیں کہ بیورو کریسی کےبڑے جنہوں نے ملک کی راہوں کا تعین کرنا ہے پالیسز ترتیب دینی ہیں کہ ملک کیسے چلنا ہے وہاں اگر یہ رجحان ہوگا تو چہرے پر جگہ جگہ انگلش نہ بولے جانے پر کالک لگائی جائے گی اور پھر یہ سلسلہ چلتاچلتا سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے اردو یا پنجابی بولنے سے فوراً رُتبہ کم ہوجاتاہے یہ ہمارےذہنوں میں ڈالا گیا وہ معیار ہے، جسے ہم دہائیاں گزرنے کے باوجود نہیں نکال پائے،یہی وجہ ہےکہ ملک میں انگلش میڈیم سکولوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہےاورپرائیویٹ سیکڑ میں انگلش بولنے والے کی زیادہ قدر ہے یہی معیار پھر چلتا چلتا ایک معیار بن کر معاشرے کی تباہی کا باعث بن رہاہے ۔
ہمارا انگریزی زبان کے تابع یہ نظام اوررجحان پاکستان کے سب سے بڑے ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ میں ہی نہیں بلکہ پرائمری سکولوں کالجزاور یونیورسٹیز سمیت پرائیویٹ سیکٹر میں بھی انگلش صرف ذریعہ ابلاغ نہیں بلکہ ایک لائف سٹائل بنا کر پیش کیا جاتاہے۔ یہاں ایک اور نکتے کو واقعے کے ذریعے رجسٹر کرکے آگے بڑھنا چاہتا ہوں دو سال پہلے یورپ کا ایک ٹور کیاجس میں پانچ سات ملکوں کی سیاحت کا موقع ملا پورے یورپ خصوصاً فرانس یا جرمنی میں انگلش زبان سے نفرت دیکھ کر حیرانگی ہوئی اورانگلش جیسی بین الاقوامی زبان کے بارے میں لاعلمی میرے لیےایک نئی بات تھی اب سوال پید ا ہوا کہ ان کا تونظام زندگی نہیں چل رہا ہوگا لیکن ایسا نہیں بلکہ وہاں ترقی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی نئی نئی تحقیق وہاں سےنکلتی ہے نئی نئی ایجادات کا مرکز
اورکمرشل حب ہے تووہاں ترقی یافتہ دنیا کے آگے انگلش یا برطانوی نظام زندگی محض ایک دنیا کی ایک ثقافت ہے ان ملکوں نے جنگیں بھی لڑ کردیکھ لیں کروڑوں لاشیں بھی اٹھا لیں پھر بھی پہلی دنیا کے ملکوں میں سے ایک ہیں تو میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ پاکستان نے برطانیہ کی انگلش اورثقافت کی پیروی کیوں کی ہم نے فرانس یاجرمنی کو کیوں اپنی مشعل راہ نہیں بنایا ہماری زبان ہی نہیں بلکہ پہننے والی پتلونوں کا سٹائل بھی برطانیہ سے لیا گیا ہے جس کی تھوڑی تحقیق کے بعد تاریخ سےیہ اشارے ملتےہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا برصغیر پر اتنا طاقتوراثر رہ چکاہےکہ ہم 75سال گزر جانے کے باوجوداُس اثر سے نکل نہیں پائے اور اس کی وجہ ہمارے طاقتور اداروں کی قومی رہنمائی تھی ۔
ہمارا پڑوسی ملک چائنہ جو آئندہ سپر پاور بننے جارہاہے اس میں بولی جانے والی زبان انگلش اور اردو سے اتنی مختلف ہے کہ سن کر احساس ہوتاہے شاید یہ کبھی سیکھی ہی نہیں جاسکتی ۔چائنیزبڑی تعداد میں پاکستان میں کاروبار کرتے بھی دکھائی دیتےہیں لیکن جو بہت کم لوگ بولتے ہیں وہ مجبوری میں اسے بولتےہیں۔
اب آتے ہیں اس کے علمی پہلو کی طرف توانگلش ایک زبان ہے اس کاآنا نہ آنا کسی کے عالم فاضل ہونے کی دلیل نہیں لیکن سمجھا یہی جاتاہے کوئی بات کرنےکے لیے انسان کے ذہن میں ایک سوچ آتی ہے، جسے وہ الفاظ دے کر کسی دوسرے تک پہنچاتاہے اس سوچ کی کوئی زبان نہیں کہ میرے ذہن میں یہ بات انگلش میں آئی ہے اُردو میں نہیں یا یہ لیکچر صرف فرنچ میں دیا جاسکتاہے جرمن میں نہیں۔ اپنے علم کے اظہار کے لیے آپ کوئی بھی ذریعہ ابلاغ یا زبان استعمال کرسکتےہیں اصل بات ہےکہ آپ کے ذہن میں علم کیا ہے وہ کتنا مستند ہے یامعاشرے کے لیے کتنا مثبت یا منفی ہے۔
انگلش کو زبان کی بجائےباعلم ہونےکی ضمانت بنانے والوں نے بہت سے ہیروں اور ان کے نایاب علم کو کھو دیا ہے اور ایک احساس کمتری کی وجہ سے زمانہ طالبعلمی سے ہی اظہار رائے نہ کرنے کی عادت سے بہت سے تجربات ، سوچ وفکر اورعلم دب کررہ جاتاہے سامنے نہیں آپاتا۔
میری ساری تمہید کا مقصد ہرگز انگلش زبان کی اہمیت کم کرنا نہیں لیکن ضرورت سےزیادہ اسے مُرشدبنا کر سارے نظام زندگی کو اس کے مطابق ترتیب دینا بھی ٹھیک نہیں، اسے زبان ہی رہنے دیا جائےورنہ بدقسمتی سے یہ نظام معاشرے میں جگہ جگہ کسی نہ کسی کے چہرے پر کالا نشان لگاتارہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button