ColumnNasir Sherazi

میچ توکب کاختم ہوا .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

دورِ جدید میںکسی بھی ملک میں کوئی بھی حکومت انقلابی اقدامات واصلاحات کے لیے کچھ کرناچاہے تواس کے لیے چارسے پانچ سال کاعرصہ کافی ہوتا ہے۔ شیرشاہ سوری کا دورِ حکومت اتنے ہی عرصہ پرمحیط تھا۔ ترجیحات کچھ اورہوں توپھرتین تین اقتدار کی باریوں کے بعد بھی ملک اوراس کے باسیوں کی زندگی میںکچھ تبدیل نہیں ہوتا۔ عام آدمی کی زندگی بد سے بدترہوتی چلی جاتی ہے جبکہ ہوس اقتدار کے مارے کہتے نظرآتے ہیں کہ ایک مرتبہ اوراقتدارملا توملک کوترقی کی شاہراہ پرڈال دیںگے۔
گذشتہ پچاس برس میں پاکستان میں جوبھی سیاسی جماعت جس قدر بھی اقتدار میں شریک رہی سب میں ایک قدرمشترک نظرآتی ہے وہ یہ کہ ہزاروں ارب روپئے کے قرض لیے گئے اور اسی تناسب سے لوٹ مار جاری رہی۔ انصاف ہو سکا نہ کسی کا احتساب، البتہ انتقام خوب خوب لیاگیا، مخالف سیاست دانوں پر سنگین مقدمات بنائے گئے انہیں سخت سزائیں بھی سنائی گئیں مگر پھر عالم غیب سے کسی غیبی حکم کے تحت مجرموں کو ریلیف ملتا نظر آیا، اِس سے دو ہی باتیں واضح ہوتی ہیں۔ اول تمام مقدمات جھوٹے تھے اگر نہیں تو پھر مجرموں سے یہ حُسنِ سلوک جرائم پیشہ ٹولے کے ساتھ جذبہ خیر سگالی کے اظہار کے لیے کیاگیا۔
نوری ہوں یا ناری، ایک طرف عمر قید اور سزائے موت سنائی گئی دوسری طرف ایسے ہی افراد باعزت بری ہوتے نظر آئے۔ دو ماہ قبل اس فہرست میں ایک نام کا اضافہ ہوا ہے، یہ الزام بغاوت ہے۔
ملک کے طول و عرض میں ایک سیاسی کلچر برسوں سے پروان چڑھ رہا ہے لیکن صوبہ خیبر کی کہانی قدرے مختلف ہے، صوبہ سندھ کی طرح خیبر میں گذشتہ دس برس سے تحریک انصاف کی حکومت رہی یہ طویل عرصہ ہے، پہلے دور کے اختتام پر بتایاگیا کہ صوبے کی کایا پلٹ کے رکھ دی گئی ہے تھانے میں آنے والے سائل کو سلامی پیش کی جاتی ہے، سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کے لیے ادارے بے چین رہتے ہیں سرکاری افسران ہر وقت خوف خدا سے کانپتے رہتے ہیں، رشوت و سمگلنگ مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے، سرکاری ملازمین دفتری اوقات کے بعد بھی خدمت خلق کے لیے دفاتر میں موجود رہتے ہیں کہ طویل مسافت کے بعد آنے والے کی داد رسی کرسکیں، کچھ نیک دل اعلیٰ افسران رات بھیگ جانے کے بعد ہاتھ میں ڈنڈا پکڑ کر رضا کارانہ گشت پر نکل جاتے ہیں ان کے کان کسی بھی غریب آدمی کی کٹیا سے آنے والی آوازوں پر لگے رہتے ہیں جہاں کہیں سے مارے بھوک کے کسی بلکنے والے کی آواز آتی ہے، اشیائے خورونوش کا توڑا
بھرکر تحفتاً پیش کردیتے ہیں، رات گئے کسی گھر سے دھواں اٹھ رہا ہو چولہے پر بڑا سا دیگچہ چڑھا ہو آس پاس نصف درجن بچے نیند سے اُونگھتے نظر آئیں تو ان افسران کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ غریب ماں کے پاس بچوں کو کھلانے کے لیے پکانے کے لیے کچھ بھی موجود نہیں، دیگچے میں فقط دلاسے کے لیے پتھر ڈالے گئے ہیں بھوکے بچے کھانا تیار ہونے کے انتظار میں یونہی سو جائیں گے، یہ علم ہوتے ہی نیک دل افسران بند بازار کھلواکر آٹا، دال، چاول، چکن، مٹن لیکر غریب عورت کے در پر رکھ آتے ہیں اپنا نام بتاتے ہیں نہ اپنا چہرہ دکھاتے ہیں، ایسے خدا ترس افسروں اور اہلکاروں کی دھوم پاکستان سے نکل کر دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی، سربراہ حکومت اپنے زمانہ حکومت میں ان کی کارکردگی کی داستانیں بذات خود سناتے اور قوم کو یقین دلاتے کہ اب انہیں ملک میں جہاں جہاں حکومت ملے گی وہ وہاں ایسا ہی نظام قائم کریں گے، انہی الف لیلوی کہانیوں سے متاثر ہوکر دوسری بار اقتدار حاصل ہوا، قلعی اس روز کھلی جب تخمینے سے کئی گنا زیادہ خرچ کرکے بھی میٹرو تیار نہ ہوسکی، جسے اونے پونے بنانے کا ذکر کئی برس ہوتا رہا۔
وہ دن تو بہت تکلیف دہ تھا جس روز خبر آئی کہ دہشت گردوں نے انسداد دہشت گردی کے جملہ افسروں اور اہلکاروں پر حملہ کرکے انہیں یرغمال بنالیا ہے اور اپنے کچھ ساتھیوں کی رہائی کے لیے مطالبہ سامنے رکھ دیا ہے، صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت ان دہشت گردوں سے ان کی رہائی کے لیے منت سماجت کرتی رہی جنہیں ان دہشت گردوں کی سرکوبی کرنا تھی، مذاکرات ناکام ہوئے یرغمالیوں کی رہائی نہ ہوسکی جس کے بعد فوج سے درخواست کی گئی کہ وہ آئے اور دہشت گردوں سے گلوخلاصی کرائے پھر فوج آئی اور اس نے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے بعد یرغمالی چھڑائے، ٹھیک دو روز بعد صوبہ خیبر پختونخوا کے ذمہ دارانہ کی طرف سے بتایاگیا کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بنائی گئی فورس کے پاس جدید اسلحہ اور گاڑیاں و دیگر ضروری آلات و سامان موجود نہیں، مزید برآں ان کی تربیت میں بھی کچھ کمی رہ گئی ہے پس وہ دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
ان دس برسوں میں اس فورس کے لیے کس قدر فنڈز مختص ہوئے کہاں کہاں سے کیسا کیسا اسلحہ خریدا گیا، کچھ خریدا بھی گیا یا نہیں یا سب کچھ کاغذوں میں ہی ہوتا رہا یہ سب معلوم کرنے کے لیے اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن بنانا اور جلد ازجلد اس کی رپورٹ سامنے لانا ضروری ہے بصورت دیگر دہشت گردی کے عفریت پر قابو نہ پایاجاسکے گا، یہ بھی معلوم کیاجائے کہ گذشتہ دس برس میں صوبائی حکومت اور اس کے ذیلی اداروں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کتنے آپریشن کیے، ان کا نتیجہ کیا رہا، دہشت گردی کی نئی لہر ایک بڑے آپریشن کی متقاضی ہے جس میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا مکمل صفایا ضروری ہے بصورت دیگر انکی ہٹ لسٹ میں موجود سیاسی شخصیات میں کسی کو نشانہ بنایاگیا تو ملک میں افراتفری پھیلے گی جس کا ملکی معیشت پر مزید برا اثر پڑے گا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سکیورٹی خدشات کی بنا پر لاہور سے اسلام آباد منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں حالانکہ وہ لاہور میں زیادہ محفوظ ہیں لیکن مریم نواز کی آمد کے بعد وہ اسلام آباد کو اپنی سیاست کامحور بنانا چاہتے ہیں یہاں دال گلتی نظر نہیں آتی، وہ صوبہ خیبر پختونخوا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
پشاور کی مسجد میں دہشت گردی کی کارروائی کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی تعداد سوا سو سے زائد ہوچکی ہے جبکہ زخمی ڈیڑھ سو سے زائد ہیں، سکیورٹی انتظامات میں ناکامی کا اعتراف کافی نہیں یہ بات تو ہر نئے نقصان کے بعد کہی جاتی ہے لیکن اصلاح احوال نہیں کی جاتی، واقعے کے بعد وزیراعظم شہبازشریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر فوراً پشاور پہنچے، وزیراطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب بھی سیاہ لباس میں ہمراہ تھیں، صوبہ خیبر پر دس برس حکومت کرنے والی جماعت کے سربراہ عمران خان نہیں پہنچے، جہاں لاشیں ہوں وہ وہاں کبھی نہیں جاتے، وہ ایک ٹانگ پر پیڈ باندھے نئے میچ کی نئی اننگز میں بیٹنگ کے لیے تیار بیٹھے ہیں حالانکہ میچ تو ختم ہوچکا ہے۔ رشتہ داروں یا ہمسایوں میں کسی کے مرنے پر بال گولڈن ڈائی کرکے نیا جوڑا پہن کر، سیڈ میک اپ کرواکر شرکت کرنے والی آنٹیوں میں سے کسی کی آنکھ میں سانحہ پشاور پر آنسو نہیں دیکھے، اس لیے کہ سب حالت سجدہ میں شہید ہوئے، آنٹیاں ٹائیگر کی حفاظت میں مصروف ہیں، انہیں فرصت کہاں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button