Columnمحمد مبشر انوار

ریاست، آئین اور مفادات .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

فی زمانہ، سکہ رائج الوقت اقوام عالم میں ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی ریاست میں، ریاست کے امور طے کرنے میں، آئین کی حیثیت بنیادی قانون کی ہے اور تمام تر قوانین اس آئین سے ہی حاصل کئے جاتے ہیں۔ آئین کی تقدیس اور احترام تمام شہریوں پر لازم ہے اور ریاستی ادارے آئین کے تحت رہتے ہوئے شہریوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتے ہیں،امن و امان ہو یا شہری آزادی، کاروباری حقوق ہوں یا آزادی اظہار رائے، شہریوں کی آواز پر قدغن نہیں لگائی جاتی تا وقتیکہ ریاست کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ ریاستی سالمیت و مفادات کا تعین بھی آئین میں کہیں واضح اور کہیں بین السطور درج ہوتا ہے یا حالات و واقعات کے مطابق حکمران یا اشرافیہ مل بیٹھ کر طے کرتے ہیں اور طے شدہ پالیسی کے مطابق ہی مزید لائحہ عمل اپناتے ہوئے ریاستی امور سر انجام دیتے ہیں۔ قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے والی ریاستوں میں ایسا خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ حکمران طے شدہ پالیسیوں سے روگردانی کریں یا ریاستی مفادات پر سمجھوتے کرتے نظر آئیں، قانون کی بالادستی انہیں ایسا کرنے سے دور رکھتی ہے اور بالفرض کہیں ایسی کوئی مثال نظر آئے بھی تو قانون ازخود حرکت میں آتا ہے اور پکڑ لازم ہوتی ہے۔ ادارے بلا امتیاز اور بغیر کسی سیاسی مداخلت، برائے کار آتے ہیں اور مشکوک ؍ملزم فرد کی سیاسی و سماجی حیثیت نظر انداز کرتے ہوئے متعلقہ محکمہ کا اہلکار، ایک عام شہری کی طرح طلب کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔مذکورہ شخص کے پاس اپنی سیاسی یا سماجی حیثیت کا رعب، اثر و رسوخ کسی بھی صورت محکمانہ کارروائی پر اثر انداز نہیں ہو سکتا بعینہ جس طرح قرون اولیٰ میں مسلم حکمرانوں سے کسی بھی غیر قانونی یا مشکوک بلکہ غلط فہمی کی بناء پر ایک عام شہری باز پرس کر سکتا تھا اور قاضی اس پر بلا خوف و خبر قانون کے مطابق فیصلہ دیا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے یہ تمام قوانین اقوام مغرب اپنا کر، ترقی و اخلاقیات کی شاہراہ پر بگٹٹ بھاگ رہی ہیں جبکہ مسلم معاشروں میں اس کا شدید ترین فقدان نظر آ رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج مغرب مسلم معاشروں کو اخلاقیات کا سبق پڑھا رہا ہے اور ماضی کے معلم آج طالبعلم کی حیثیت میں مغرب کے سامنے دوزانو بیٹھے اس کی تعلیم لیتے نظر آتے ہیں لیکن ایسے طالبعلم جو اپنی کھوئی میراث حاصل کرنے میں ہنوز ناکام ہیں ۔
پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع، تمام تر نامساعد حالات کے باوجود انتہائی کامیابی سے اور بہترین ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب تو ہو گیا لیکن بعد ازاں بجائے مزید ترقی کرنے، ترقی معکوس کا راہی ہو چکا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ابتدائی چند دہائیوں میں جس طرح یہاں صنعت ، صنعتکاروں اور مصنوعات کو عالمی شہرت حاصل ہوئی تھی، اس کو مزید بہتر بناتے ہوئے اپنی مصنوعات کو عالمی معیار کے مطابق تیار کرکے برآمدات بڑھائی جاتی،جبکہ اس وقت پاکستان کی معاشی حالت اس قدر دگرگوں ہے کہ ریاست ایک صارف منڈی بن چکی ہے اور حکمرانوں نے یہاں صنعت ہی نہیں زراعت کوبھی مشکل ترین کر دیا ہے اور ایک زرعی ملک کی پہچان رکھنے والا ملک آج اجناس برآمد کرنے پر مجبور ہے۔ معذرت کہ ان حقائق کے بغیر کوئی بھی تحریر نا مکمل سی لگتی ہے کہ سیاسی اشرافیہ و مقتدرہ نے ریاستی وسائل کو ہزار پا کی طرح اپنے قبضے میں کر رکھا ہے، سیاسی عدم استحکام ہو یا معاشی عدم استحکام، قانون کی بالادستی ہو یا مخصوص گروہ کی چیرہ دستیاں، یہ سب ریاست پاکستان میں بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ انتہائی کٹھن مراحل سے گذر کر ، بیش بہا قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر، وطن عزیز سے دہشت گردی کے عفریت کو دفن کیا گیا تھا لیکن رجیم چینج کے بعد ، اس عفریت کو گویا نئی زندگی مل چکی ہے۔ دہشت گرد پورے ملک میں دندناتے نظر آ رہے ہیں لیکن ہمارے اداروں کی ترجیحات کچھ اور نظر آتی ہیں۔ تسلیم کہ ایک واقعہ ہونے سے اداروں پر طعن و تشنیع کرنا، ان کے حوصلے توڑنے کے مترادف ہے، جبکہ دس ایسے واقعات کو وقوع پذیر ہونے سے روک بھی لیا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب اس عفریت کو قابو کیا جا چکا تھا تو پھر دوبارہ کیسے زندہ ہو گیا؟
اس سوال کے جواب میں نہ چاہتے ہوئے بھی یہ تسلیم ؍باور کرنا پڑتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اداروں اہلکاروں کی طرف سے دانستہ چوک ہوئی ہے یا انہیں اپنے فرائض منصبی سے روکا گیا ہے یا روکا جا رہا ہے یا ان کو دوسرے غیر اہم مگر ذاتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف کر دیا گیا ہے۔ یہ گمان بلا وجہ نہیں بلکہ اس کے پس پردہ حکمرانوں کے وہ غیر ذمہ دارانہ بیانات ہیں جو وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر اس آڑ میں داغ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ انٹیلی جنس اداروں اور ان کے اہلکاروں کو مکمل طور پر ایسی کارروائیوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے لیکن شنید یہ ہے کہ ان اہلکاروں کی ذمہ داریاں سیاستدانوں کی ذاتی خواہشات کے تابع ہو چکی ہیں اور وہ ان کے اقتدار کو قائم رکھنے میں بروئے کار آرہے ہیں یا ان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ ایسے اندوہناک واقعات میں تسلسل اس گمان کو تقویت دیتا ہے اور طرہ یہ ان واقعات کے وقوع پذیر ہوتے ہی حکمرانوں کی طرف سے اس امر؍خواہش کا اظہار کہ ان حالات میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں اور ممکنہ طور پر حکومت ؍اسمبلیوں کی مدت بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس سے یہ مطلب بھی بخوبی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو جو پرامن معاشرہ ملا تھا، ان میں اتنی اہلیت نہیں کہ اس امن و امان کو برقرار رکھ سکتے؟ اگر قرار واقعی یہی حقیقت ہے تو کیا ایسے لوگوں کو حق حکمرانی ملنا چاہیے؟جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ حکمران جماعتوں کا اتحاد انتخابی میدان میں اترنے سے خوفزدہ ہے یا اس وقت تک اترنے کے لیے تیار نہیں جب تک اسے سندھ کے بلدیاتی انتخابات کی طرز کے نتائج کی یقین دہانی نہیں ہو جاتی۔بہرکیف حالات کیسے بھی ہوں، ایک ریاست، اس کے آئین کی موجودگی میں یہ ممکن نہیں کہ آئین و قانون کو ذاتی خواہشات؍مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ریاست، آئین کی حیثیت بھی بھی دوسری حقیقت سے بالا ہے ، سیاسی اشرافیہ و مقتدرہ کو اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے وگرنہ جو حالت ریاست کی ہو چکی ہے، اس کا خمیازہ یہاں کے بائیس کروڑ عوام کو بھگتنا پڑے گا کہ یہ ملک ان کا ہے اشرافیہ تو صرف یہاں حکمرانی کرنے آتی ؍لائی جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button