Abdul Hanan Raja.Column

مغرب میں تہذیبی تصادم کے بڑھتے رجحانات .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

’’ تہذیبوں کے تصادم‘‘کا نظریہ کے خالق ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فلپس سیموئل متصور کیے جاتے ہیں جو بعد ازاں وائٹ ہاوس سے بھی منسلک رہے۔ سیموئل فلپس کے مطابق مغرب کے لیے بڑا مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں بلکہ اسلام ہے جو کہ ایک الگ تہذیب ہے کہ جس سے تعلق رکھنے والے اپنی تہذیب کے بالاتر ہونے پر پختہ یقین رکھتے ہیں مگر اپنی قوت کم ہونے کے اندیشہ میں مبتلا ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان مشترکات بہت ہی کم اور ان کے مابین تضاد و تخالف کے پہلو زیادہ ہیں، اسی بنا پر پروفیسر سیموئل نے تہذیبی تصادم کا جو نظریہ پیش کیا اس کے مطابق مغرب کو اسلام کے خلاف تہذیبی اور ثقافتی یلغار کر کے اسلامی تحرک کو پنپنے سے روکنا اور اسلامی ممالک میں سیکولر ازم کو فروغ دینا شامل ہے، تا کہ مسلم دنیا کے اندر احیائے اسلام کی بجائے مذہب بیزاری پروان چڑھے۔
بادی النظر میں تہذیبی تصادم کے بڑھنے کی ایک وجہ ہر دو تہذیبوں کا آہنی بالا دستی قائم کرنا ہے، اسی لیے احیائے اسلام کی تحاریک کو تہذیبی بالادستی کی تحریک تصور کیا جاتا ہے، ایک اور مغربی مفکر فرانکیوس برگٹ کے مطابق ہم نو آبادیاتی نظام کے خاتمہ کا تیسرا مرحلہ دیکھ رہے ہیں پہلا سیاسی تھا جسے مغرب کے زیر تسلط علاقوں میں آزادی کی تحریک کہا جا سکتا ہے، دوسرا اقتصادی اور اب آخری ثقافتی غلبہ کا مگر اس بات سے مفر نہیں کہ اسلام نے کبھی بھی تہذیبی تصادم کی راہ نہیں اپنائی اور نہ ہی اپنے ماننے والوں میں انتہا پسندانہ رجحانات کی ترویج کی، دنیائے اسلام کے نامور مفکر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے اس موضوع پر پر مغز مقالات ہیں (انہوں نے امریکہ سمیت مغرب میں اس موضوع پر کئی لیکچرز بھی دئیے) کی نظر میں اس تصادم کی بڑی وجہ دونوں تہذیبوں کے مابین فرق کو نہ سمجھنا ہے، ڈاکٹر قادری کے مطابق اسلامی معاشرہ کی بنیاد اقدار پر قائم جبکہ مغرب اس سے بے نیاز ہے، انکی اقدار سوسائٹی کے رجحانات پر مبنی ہوتی ہیں، ہماری تہذیب اور ثقافت الوہی نظام کے تابع جبکہ مغربی ثقافت مادر پدر آزاد۔
اس میں شک نہیں کہ دنیا پر اپنے تسلط کا خواب دیکھنے والے مغربی تھنک ٹینکس مسلم دنیا کو اپنے تہذیبی و ثقافتی رنگ میں رنگنا اور اس کے خلاف مدافعت کو وہ مسلم انتہا پسندی کے نام سے موسوم کرکے اس کے بڑھتے نفوذ کو روکنا چاہتے ہیں، تہذیبوں کے مابین یہ تصادم اگرچہ نیا نہیں مگر دور جدید میں کہ جب انسان ترقی کی معراج پر اور علم و فنون اپنے عروج پر ہے، قبائلی عصبیت بھی قریباً دم توڑ، اور اوس و خرزج کی جنگیں بھی ماضی کا قصہ بن چکیں، ان حالات میں کہ جسے مادیت پرستی کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے کہ ہر فرد جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے مگر پھر بھی مہذب ہونے کے زعم میں مبتلا مغربی انتہا پسند اکثر و بیشتر آزادی اظہار کے نام پر اپنی اندر کی غلاظت باہر انڈیل کر امن عالم کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحیفہ انقلاب کے مقدس اوراق کو جلانے کا واقعہ بھی اسی کا تسلسل ہے، اقوام متحدہ کے قوانین اس بارے میں اتنے ہی موثر نظر آتے ہیں جتنی مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کی قراردادیں، مگر اس کی ایک بڑی وجہ مسلم امہ کے عملی تصور کا خاتمہ، غلامانہ طرز عمل، کمزور معیشت اور مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کا غیر موثر ہونا ہے، اقبالؒ نے مدتوں قبل اس مرض کی تشخیص کرتے ہوئے فرمایا۔
از غلامی دل بمیرد در بدن
از غلامی روح گردَد بارِ تن
غلامی میں بدن کے اندر دل مر جاتا ہے، غلامی میں روح بدن کے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔
از غلامی ضعفِ پیری در شباب
از غلامی شیرِ غاب افگندہ ناب
غلامی جوان کو بوڑھوں کی مانند کمزور کر دیتی ہے غلامی میں شیر بیشہ کے دانت جھڑ جاتے ہیں۔
از غلامی بزمِ ملّت فرد فرد
ایں و آں با ایں و آں اندر نبرد
غلامی میں ملّت ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہےایک گروہ دوسرے گروہ سے لڑتا رہتا ہے۔
از غلامی مردِ حق زنّار بند
از غلامی گوہرش نا ارجمند
غلامی میں اللہ تعالیٰ کا بندہ بھی (بت پرستی کا) زنّار پہن لیتا ہے غلام کی قیمتی متاع کو بھی کوئی نہیں پوچھتا ۔
آبروے زندگی در باختہ
چوں خراں با کاہ و جَو در ساختہ
وہ (غلام) زندگی کی آبرو گنوا بیٹھتا ہےاور گدھوں کی طرح گھاس اور جو پر مطمئن ہو جاتا ہے۔
گزشتہ تین صدیوں سے امت مسلمہ جس زوال کا شکار اس نے شاید اس کی کمر ہمت ہی توڑ دی. مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمانوں میں عظمت رفتہ کے حصول کی خواہش بھی نہیں رہی، ہر چند کہ مغربی ثقافتی یلغار نے مسلم معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، مسلم دنیا کے وسائل کا بڑا حصہ اپنے ہی ہم مذہبوں کے خلاف اور اس کا نتیجہ باہمی انتشار کی صورت میں سامنے ہے۔ مسلمان اپنی تہذیب سے دور ہوتے جا رہے ہیں، نوجوان مذہبی سکالر پروفیسر علی اختر اعوان نے کیا موتی پروئے کہتے ہیں کہ سائنسی تجربات کے بعد تخلیق انسانی سے لیکر تسخیر کائنات تک کے مراحل کی سائنسی تصدیق نے اسلام کی حقانیت ثابت دی ہے اور مغرب اسی سے خوفزدہ ہے کہ وہ حقائق کی بنیاد پر اسلام کو آفاقی دین ماننے پر مجبور ہو رہے ہیں،چاہے مسلمان غالب آئیں یا نہ آئیں، اس میں کلام نہیں کہ اپنے عقائد و نظریات بزور طاقت کسی پر مسلط کرنا دنیا کے کسی مذہب میں کبھی بھی جائز نہیں رہے اور اسی رویے کو بنیادی طور پر انتہا پسندی کہا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس تمام مذاہب عالم پر ایمان ہمارے دین کا حصہ اور اسلام نے ہمیشہ امن، رواداری برداشت اور احترام کی بات کی اس کا عملی مظاہرہ دور نبویﷺ میں جا بجا نظر آتا ہے، ایک موقع پر جبکہ سیلاب کے باعث عیسائیوں کی عبادت گاہ منہدم ہو گئی تو آقا کریمﷺ نے بطور سربراہ ریاست انہیں مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی، اسی لیے مغرب خوفزدہ ہے کہ اگر مسلم دنیا میں دور نبوی ﷺوالا رنگ غالب آ گیاتو اسلامی تہذیب سب تہذیبوں پر غالب اور یہ عالمی غلبہ اسلام کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button