ColumnNasir Sherazi

ڈالر کی دلدل .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

گذشتہ نو ماہ سے سرکاری راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ قوم اسے چین China پڑھ رہی تھی اور سمجھ رہی تھی کہ چائنہ ہمیں اور ہماری معیشت و اقتصادی حالت کو سہارا دینے کے لیے سرپٹ دوڑا چلا آرہا ہے۔ چائنہ اتنا بے وقوف نہیں جتنا ہم نے اِسے سمجھ لیا ہے یا جتنا ہم اِسے بناچکے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست کہ ہماری جغرافیائی حدود کا اِسے بھرپور فائدہ ہے لیکن اب اِس نے اس کا متبادل سوچنا شروع کردیا ہے کیونکہ چینی قیادت اِس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ہم ٹھیک ہونے والے نہیں۔ ڈالر نے چھلانگ لگائی اور حکومت پاکستان کی زنجیریں توڑتا ہوا پونے تین سو روپئے کی حدود میں داخل ہونے کے قریب ہے۔ صورت حال دیکھ کر معاشی جادوگر نے ایک کونے میں پڑے ہوئے چراغ الہ دین کو رگڑا تو ایک دیو ہیکل جن برآمد ہوا جو ہمیشہ آڑے وقت میں حیرت انگیز کارنامے انجام دیا کرتا تھا۔ جن نے پوچھا کیا حکم ہے میرے آقا؟جادوگر نے حکم دیا کہ پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس میں پڑے ہوئے ڈالرز ملک میں لے آؤ۔ جن حکم کی بجا آوری کے لیے رخصت ہوا پھر اچانک ایک لمحے کے لیے پلٹا اور پوچھا جناب آپ کے اور آپ کے سمدھی کے بھی؟ جادوگر نے حکم دیا نہیں۔ ان کے علاوہ سب کے۔ جن نے یہ سُنتے ہی جواب دیا سوری سر! یہ ممکن نہیں۔ ڈالر آئیں گے تو تمام پاکستانیوں کے ورنہ کسی کے بھی نہیں۔ جب سے وزارت خزانہ حکومت پاکستان کو غشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ جادوگر نے ڈالر کو جس واہیات جگہ پر لکھ رکھا تھا اب ڈالر نے ہمارے معاشی جادوگر کو وہیں لکھ دیا ہے۔ آپ جانے کون سی جگہ سمجھ رہے ہوں میری مراد ہے جوتے کی نوک پر۔ ڈالر نے دھوبی پٹکا مارکر ڈار کا کندھے کا جوڑ نکال دیا ہے۔ حکومت گرانے اور حکومت سنبھالنے کے بعد سے ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا کہ ٹھیک نو ماہ کے بعد خوبصورت، صحت مند، تندرست و توانا معیشت پیدا ہوگی۔ معلوم ہوا موومنٹ رک چکی ہے جس کا مطلب ہے بچہ پیٹ میں ہی مرچکا ہے۔ پس محکمہ و وزارت خزانہ کو ہنگامی طور پر زچہ خانہ منتقل کیا گیا ہے اور ہنگامی طور پر آئی ایم ایف کی گائناکالوجسٹ کی منت سماجت کرکے اِسے قبل از وقت بلایا گیا ہے بچہ تو گیا اب زچہ کی جان بچانے کی کوششیں کی جائیں گی۔ دیکھنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ماہرِ زچہ بچہ کونسا ٹیکہ لگاتی ہے اور اس کے زیر اثر زچہ آنکھیں کھولتی ہے یا لمبے عرصے کے لیے کومے میں چلی جاتی ہے۔ زچہ کو اس حالت تک پہنچانے کے ذمہ دار معاشی جادوگر ہیں ، وہ بگ باس کے رشتہ دار نہ ہوتے تو اب تک اِن کی ڈنڈا ڈولی ہو چکی ہوتی۔ ڈالر کو کھلا چھوڑنے والوں کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے اپنے اربوں ڈالر وہیں رکھے ہیں جہاں سے ڈالر کو کھلا چھوڑنے کا حکم آتا ہے۔ اس حکم کا پہلا اور آخری مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو اس گرداب سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔
جس برتن کے پیندے میں سوراخ ہو اور اسے بند نہ کیا جائے تو پھر اس میں دنیا بھر کے ڈالر جھونک دو وہ اُس سوراخ کے راستے باہر جاتے رہیں گے۔ دنیا کے ہر ملک میں ڈالر کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور ٹھیک کیا جاتا ہے ہمارے یہاں بھی برس ھا برس ایسا نظام رائج تھا اس سبب پاکستان میں برس ھا برس ڈالر کی قیمت ایک رہی اور ملک ترقی کرتا رہا اس حوالے سے جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار قابل ذکر ہیں۔ ڈالر سٹیٹ بنک آف پاکستان اور نیشنل بنک آف پاکستان سے ضرورت کے مطابق ایک نارم پُر کرنے کے بعد ملتے تھے اور کام کے بعد بچ جانے والے ڈالر واپس کیے جاتے تھے۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر محفوظ تھے بعد ازاں مارکیٹ میں منی چینجر ایک منصوبے کے تحت بٹھائے گئے اب سب کچھ ان کے کنٹرول میں ہے علاوہ ازیں ایک ہزار ارب ڈالر مارکیٹ سے اٹھا کر خواص کے گھروں، تہہ خانوں اور بیرون ملک بنک اکاؤنٹس میں پہنچ چکا ہے۔ ملک کو تباہ کرنے والے مختلف طبقات اپنا گھناؤنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اب تک ان کی گردن پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ حکومت کی پالیسی بننے سے پہلے خبر مافیاز تک پہنچتی ہے جو فیصلہ ہی نہیں ہونے دیتے۔ اگر فیصلہ نہ رکواسکیں تو قبل از وقت اس کا توڑ دریافت کرلیتے ہیں۔ جس طرح تالا مارکیٹ میں آتے ہی چور تالہ توڑنے کا سبق ازبر کرلیتے ہیں۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات مکمل ہونے کے بعد کچھ ڈالر مل جائیں گے۔ ان کی دیکھا دیکھی کچھ اور مالیاتی ادارے اُدھار دے دیں گے پھر اس کا سود سر پہ چڑھ جائے گا پھر اِس سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لیں گے۔ یوں یہ شیطانی چکر چلتا رہے گا۔ ہم اِس دلدل میں دھنستے رہیں گے۔ اس وقت تک ہمارا دھڑ اِس میں دھنس چکا ہے فقط سر باہر ہے۔ جونہی ہم تھوڑے سے ہاتھ پاؤں چلائیں گے ہمارا سر بھی غائب ہو جائے گا۔ یوں سمجھئے خاتمہ مکمل۔ فاتحہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے انقلابی قدم اٹھانا ہوگا۔ مارکیٹ سے منی چینجرز اُٹھائیں۔ ڈالر مکمل طور پر کنٹرول کریں۔ کوئی شخص بلا اجازت ایک ڈالر بھی اپنے پاس نہ رکھ سکے۔ ڈالر برآمد ہو تو سزا وہ ہو جو کسی کے گھر سے بم برآمد ہونے پر دی جاتی ہے۔ کاروباری لین دین صرف سٹیٹ بنک اور نیشنل بنک کے زریعے ہو۔ غیر ممالک سے صرف وہی کچھ منگوایا جائے جو اشد ضروری ہے۔ اشیائے تعیش بیک جنبش قلم منگوانے پر پابندی عائدکی جائے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو سستی بجلی اور گیس دینا بند کی جائے۔ ان کا کپڑا بین الاقوامی مارکیٹ میں سستا بکتا ہے اور قوم کے لہو سے ان کے کارخانے چلتے ہیں پھر انہیں ایکسپورٹ ربیٹ ملتی ہے۔ یہ امیر تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ان کے بنک اکاؤنٹس اوورفلو ہوچکے ہیں۔ اس سے بہتر ہے ہم اپنی روئی فروخت کریں اور اچھی کوالٹی کا کپڑا درآمد کریں۔ سستی گیس اور بجلی اہل پاکستانیوں کو دیں تاکہ روز افسوں مہنگائی کا مقابلہ کرسکیں۔
ایک سروے کے مطابق ستر فی صد کارخانہ دار بجلی اور گیس چوری کرتے ہیں۔ انکم ٹیکس پورا ادا نہیں کرتے۔ پکڑے نہیں جاتے۔ پکڑے جائیں اور ایمان دار سرکاری ملازم ان کا جرم ثابت کردیں تو پھر کروڑوں کے ٹیکس اور بل کی سینکڑوں روپے ماہانہ کی قسطیں کرالیتے ہیں۔ درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ یہی مافیا کروڑوں روپے خرچ کرکے اقتدار کے ایوانوں میں آتا ہے مرضی کے فیصلے کراتا ہے۔ مرضی کی پالیسیاں بنواتا ہے،ان کی اولادیں، جائیدادیں، عیدیں، شبراتیں، خوشیاں اور غم سب کچھ ملک سے باہر ہوتا ہے۔ یہ صرف حکومت یہاں پر کرتے ہیں تاکہ اقتدار کے ثمرات سمیٹ سکیں اور دولت کے انباروں میں اضافہ کرسکیں۔ اس ناسور سے صرف ایک سیاسی جماعت محفوظ ہے جہاں وراثت کی سیاست نہیں لیکن داڑھی والوں کو اقتدار دینے کی اجازت نہیں۔ آنے والے الیکشن میں حد درجہ نا امیدی کے بعد شاید وہ بھی چوروں کے حلیف بنے نظر آئیں۔ ڈالر کی دلدل ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید گہری ہوتی چلی جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button