ColumnRoshan Lal

فواد چودھری اور انسانی حقوق .. روشن لعل

روشن لعل

 

سیاسی پارٹیوں کی دوسرے درجے کی قیادت میں چند ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس پارٹی کے سربراہ کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو پارٹی سربراہ کے معتمد ساتھی کہا جاتا ہے۔ ہر پارٹی میں اس کے سربراہ کا اعتماد حاصل کرنے کا اپنا ایک الگ معیارہوتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی کی بات کریں تو یہاں سب سے زیادہ بڑبولے بندے کو عمران خان کا معتمدخاص تصور کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اس بات سے انکار کرے تو بغیر کسی تردد کے اس کے سامنے شہباز گل اور فواد چودھری کا نام رکھا جاسکتا ہے۔اگر فواد چودھری اور شہباز گل کی خاص صلاحیتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو بڑی آسانی سے انہیں عمران خان کے بڑ بولے ترین ساتھی بھی قرار دیا جاسکتاہے۔ عمران خان کا معتمد ساتھی بننے کے لیے بڑبولا ہونے کی صفت کو یہاں پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم ہونے کے بعد معیار بنایا گیا، قبل ازیں جب جہانگیر ترین جیسے لوگ عمران خان کا دست راست تھے اس وقت عمران خان کا معتمد ساتھی بننے کا معیار کچھ اور تھا۔ صوبوں اور وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم ہونے کے بعد عمران خان کو جو وسائل میسر آئے شاید ان کی دستیابی کے بعد پھر انہیں جہانگیر ترین جیسے لوگوں کی ضرورت نہیں رہی۔ شاید اسی وجہ سے فواد چودھری اور شہباز گل جیسے لوگ جو جہانگیر ترین کی پی ٹی آئی میں موجودگی کے دوران تیسرے درجے کی قیادت سمجھے جاتے تھے، بعد ازاں بڑبولا ہونے کی وجہ سے دوسرے درجے پر فائز ہوگئے۔ فواد چودھری کا پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت میں شمار ہونے کا ایک ثبوت چودھری پرویز الٰہی کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے فواد کی گرفتاری پر مسکراتے ہوئے طنزیہ انداز میں یہ کہا کہ اگر وہ پہلے گرفتار ہو جاتے تو ان کی حکومت بچ جاتی کیونکہ ان کا شمار ان پانچ لوگوں میں ہوتا ہے جن کے زور دینے پر عمران نے انہیں پنجاب اسمبلی توڑنے پر مجبور کیا۔
گو کہ چودھری پرویز الٰہی نے اپنے بیان میں ایسے چار پانچ لوگوں کی طرف اشارہ کیا جو عمران خان پر پنجاب اسمبلی تڑوانے کے لیے زور ڈالتے رہے مگر نام صرف فواد چودھری کا ہی لیا۔ فواد چودھری کا نام چودھری پرویز الٰہی نے اس موقع پر لیا جب انہیں توہین الیکشن کمیشن کے الزام میں ڈرامائی انداز میں گرفتار کرکے لاہور سے اسلام آباد لے جایا جارہا تھا۔ پرویز الٰہی نے اس طرح مسکراتے ہوئے فواد چودھری کی گرفتاری کا ذکر کیا جیسے وہ ایسا ہونے پر اظہار تشکر کر رہے ہوں ۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے کچھ خاص میڈیا پرسنز نے یہ کہا کہ اب پرویز الٰہی کو حسب سابق وضع دار سمجھنے اور کہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔پرویز الٰہی کی وضع داری کی ہنڈیا تو عین اسی وقت چوراہے میں پھوٹ گئی تھی جب انہوں نے چودھری شجاعت حسین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا ئی اور آصف علی زرداری کے ساتھ کیا گیا وعدہ توڑ کر خود کو اس عمران خان کے سپرد کر دیا جو کسی بھی وقت اچانک کسی کو سر پر بٹھانے اور یکایک نیچے گرانے کی شہرت رکھتے ہیں۔فواد چودھری کی گرفتاری کے بعد تو صرف یہ ہوا ہے کہ پرویز الٰہی کے انتہائی غیر وضع دار ہونے کے پہلے سے قائم تصورپر تصدیق کی مہر ثبت ہوگئی۔ خیر چودھری پرویز الٰہی کے غیر وضع دار ہونے میں تو کوئی شک باقی نہیں رہا لیکن اگر فواد چودھری کی گرفتاری پر تشکر جیسے رویے کا اظہار کرنے کے باوجود بھی انہیں بدستور پی ٹی آئی کا ا اتحادی سمجھا جارہا ہے تو پی ٹی آئی کے اس رویے کو ہر گز وضع داری تصور نہیںکیا جاسکتا ۔ گو کہ پی ٹی آئی کے ترجمانوںنے چودھری پرویز الٰہی کے فواد چودھری کی گرفتاری پر دیئے گئے بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا مگر اس ناپسندیدگی کو سخت رد عمل کہنے کی بجائے صرف رسمی کاروائی تصور کیا جاسکتا ہے،جس جماعت کے ترجمان اپنے مخالفوں پر زبانوں سے بجلیاں گرانے کی شہرت رکھتے ہیں انہوں نے ابھی تک جو کچھ پرویز الٰہی پر پھینکااسے پتھروں کی بجائے مرجھائے ہوئے پھول کہنا زیادہ بہتر ہے۔
یاد رہے کہ فواد چودھری کو پی ٹی آئی کی طرف سے اس وقت بھی مناسب حمایت نہیں مل سکی تھی جب انہوں نے ٹی وی اینکر سمیع ابراہیم کو فیصل آباد میں تھپڑ مارا تھا۔ اپنے اس عمل کے لیے فواد نے یہ صفائی پیش کی تھی کہ انہوں نے بحیثیت وزیر اطلاعات و نشریات جب مذکورہ اینکر کے چینل کو 200 ملین روپے کے اشتہار دینے سے انکار کیا تو اس نے ان کی کردار کشی شروع کردی لہٰذا جواب میں انہوں نے تھپڑ رسید کر دیا۔ اس بات کے جواب میں سمیع ابراہیم نے بھی فواد چودھری پر بدعنوانی کے الزامات عائد کرنے کے ساتھ اور بھی بہت کچھ کہا تھا مگر پی ٹی آئی والے اس اینکر کو اپنا ہی بندہ سمجھ کر خاموش رہے ۔شاید اس مرتبہ بھی پرویز الٰہی کو اپنا ہی بندہ سمجھتے ہوئے پی ٹی آئی کے ترجمانوں نے ان کے لیے نسبتاً نرم رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔
فواد چودھری کی گرفتاری پرکچھ آوازیں انسانی حقوق کی پامالی کا نام لے کربھی بلند کی جارہی ہیں ، اس طرح کی آوازوں کو کسی طرح بھی بلا جواز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فواد چودھری کی گرفتاری اسی طرح سے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے جس طرح عمران خان کے دور اقتدار میںسلام آباد میں عرفان صدیقی، لاہور میں رانا ثنا اللہ ،کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کو جیلوں میں ڈال کر اور فریال تالپور کو چاند رات پر 12 بجے کے بعد ہسپتال سے جیل منتقل کر کے انسانی حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ اس بات میں دو رائے نہیںہے کہ اگرپیپلز پارٹی اور نون لیگ کے لوگوں کے انسانی حقوق کی پامالی کا عمل غلط تھا توفواد چودھری کے حقوق کی پامالی کو بھی درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ جوعمل پہلے غلط تھا وہ قانونی اور اخلاقی طور پر اب بھی غلط ہے مگر یاد رہے کہ جب عمران خان کے دور حکومت میںلوگوں کے انسانی حقوق کی پامالی پر اپوزیشن دہائیاں دیتی تھی اور ان دہائیوں کے جواب میں فواد چودھری ہنستے ہوئے اسی قسم کے رویے کا مظاہرہ کیا کرتے تھے جو رویہ ان کی گرفتاری پر پرویز الٰہی نے ظاہر کیا تو اس وقت خاص طور پر نون لیگ کے لوگ منہ پر ہاتھ پھیر کر پی ٹی آئی والوں سے کہا کرتے تھے کہ جب ہماری بیٹنگ کی باری آئی تو پھر تم سے فیلڈنگ نہیں ہو پائے گی۔
آج پھر نون لیگ کی بیٹنگ کی باری آگئی ہے اور اس کے لوگ اگر اپنے مخالفوں سے ویسی ہی فیلڈنگ کروارہے ہیں جیسی ان سے عمران خان کے دور حکومت کروائی گئی تھی تو کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو کچھ پی ٹی آئی والوں نے حکومت میں رہتے ہوئے کیا،اس کاہو بہو جواب دینے کا عندیہ بہت پہلے فواد چودھری، شہبازگل اور اعظم سواتی جیسے لوگوں کو دیا جاچکا تھا۔بیٹنگ اور فیلڈنگ کرنے والی ٹیموں کی جگہ آنے والے وقتوں میں پھر تبدیل ہو سکتی ہے۔ان ٹیموں کے درمیان فائول پلے کی بجائے فیئرپلے صرف اسی صورت ممکن ہو سکے گا جب تمام ٹیمیں چور،چورجیسی نعرے بازی کرنے کی بجائے ایک نیا میثاق جمہوریت طے کرنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف مائل ہوں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button