ColumnM Anwar Griwal

کرسیوں کی سُنڈیاں اور ملک کے سُنڈے! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

ہمیں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کرنا تھی، ہم تین لوگ روانہ ہوئے اور چوتھے کو راستہ سے ساتھ لینا تھا۔ جب ہم اُس کے ہاں پہنچے تو وقت محدود تھا، اُس کا ایک درمیانہ سا نجی سکول ہے۔ ہم لوگوں نے صدر دروازے پر پہنچنے سے پہلے ہی اُسے باہر آنے کا کہہ دیاتھا، مگر وہ نہیں آیا،ایسے موقع پر سب سے پہلے یہی غصہ آتا ہے کہ موبائل کا آخر کیا فائدہ کہ پیشگی اطلاع کے باوجود بھی تاخیر ہو جائے؟ اُس نے اندر آکر کچھ انتظار کا پیغام دیا۔ ہم مجبور تھے، اندر چلے گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ بیرونی صحن میں دو افراد بچوں کے بیٹھنے والی کرسیوں کی مرمت کر رہے ہیں۔ یہ معمول کا کام جان کر ہم اُس کے دفتر میں جاکر بیٹھ گئے۔ بے حد بوکھلاہٹ اُس کے چہرے سے عیاں تھی، گویا بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو۔وہ اِدھر اُدھر مصروف تو دکھائی دیا، مگر اس کی بھاگ دوڑ بظاہر نتیجہ خیز نہیں لگتی تھی۔ ہم نے اُس سے حقیقت اُگلوانے کی کوشش کی، مگر بے سود۔
وقت کم تھا مگر ہمارے دوست کی الجھن نے ہمیں بھی الجھا کر رکھ دیا تھا۔ بے تکلفی سے ڈالے گئے دبائو کے سامنے اُس نے ہتھیار ڈال دیئے اور ہمیں کرسیاں مرمت کرنے والوں کے پاس لے گیا۔ منظر دیکھ کر ہمارے ہاتھوں کے طوطے بھی اُڑ گئے۔ ایک عام سادہ سی لکڑی کی کرسی کہ جس کے دائیں طرف ایک بازو سا لگا ہوتا ہے کہ طالب علم جہاں کاپی رکھ کر اُس پر کچھ لکھ سکتا ہے، یا پھر کتاب رکھ کر پڑھتا ہے۔ اُس کرسی میں دو چار باریک باریک سوراخ تھے، مستری نے آہستہ آہستہ ہتھوڑے سے کرسی کو ٹھوکر لگائی تو تھوڑا سا ہلکے خاکی رنگ کا آٹا نیچے گرا، مزید ٹھوکر سے مزید آٹا گرا۔ پھر کیا تھا ، ہلکی ہلکی ٹھوکر لگتی جاتی تھی اور آٹا نیچے گرتا جاتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرسی کی جس لکڑی پر چوٹ لگ رہی تھی وہ اندر سے مکمل کھوکھلی ہو کر آٹے اور لکڑی کے موٹے ذرات میں تبدیل ہو چکی تھی۔
یہ معاملہ کسی ایک کرسی کے ساتھ نہیں تھا، بلکہ ہر کرسی کے میں کوئی سوراخ تھا اور اس کو چوٹ لگانے سے بالآخر وہ لکڑی ختم ہو جاتی۔ جہاں معاملہ زیادہ خراب تھا، یعنی جو لکڑی مکمل ختم ہو جاتی تھی، وہاں جو منظر ہم نے دیکھا ، اس سے قبل کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ یوں کہ چوٹ لگانے سے جہاں بہت سا خاکی رنگ کا آٹا نیچے گرتا وہاں موٹی موٹی سفید سُنڈیاں بھی نیچے گر جاتیں، ہم میں سے کسی کے علم میں بھی یہ نہیں تھا کہ اتنی موٹی سنڈیاں لکڑی کو اندر سے کیسے کھا سکتی ہیں یا کیسے کھا رہی ہیں؟ اندازہ یہی تھا کہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو کہ گندم کے دانے کے سائز سے بھی کم ہوتا ہے، وہ اندر سے لکڑی کھاتا ہے، مگر یہاں معاملہ برعکس تھا۔ ہمارے دوست کو اُس کے کسی اور دوست نے یہ مشورہ دیا تھا کہ کرسی میں جہاں سوراخ دکھائی دے وہاں گاڑیوں سے نکلا ہوا پرانا موبل آئل مٹی کا تیل ملا کر ڈالیں تو یہ بیماری ختم ہو جاتی ہے، مگر یہاں حالات زیادہ خطرناک صورت اختیار کر چکے تھے۔
ہمارے دوست کا کرب و پریشانی سے برا حال ہوا جاتا تھا۔ ایک کرسی کی قیمت ایک ہزار روپے سے کم نہیں، سو سے زیادہ کرسیاں اپنا وجود کھو چکی تھیں۔ گویا ایک لاکھ روپے کا نسخہ بن چکا تھا۔ ہمارے دوست نے اپنے سکول کا الحاق پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن سے کروا رکھا ہے، دیگر بہت سے حالات کے علاوہ اس نے بہت ہی حسرت ، بے بسی اور بے چارگی سے بتایا کہ نو سالوں سے پیف کی طرف سے سکولوں کی پے منٹ میں بالکل اضافہ نہیں کیا گیا۔ سولہ برس قبل حکومت نے یہ ادارہ قائم کیا تھا، تب یہ عام تھوڑی فیس والے سکولوں کو ساڑھے تین سو روپے فی بچہ فیس دیتے تھے، معیار اور سختیاں بے شما رہیں مگر سولہ برس میں فیس میں صرف دو سو روپے اضافہ ہو ا ہے، جبکہ گزشتہ نو برس سے یہ بھی نہیں ہوا۔ گزشتہ سال صرف بڑی جماعتوں کے لیے معمولی سی فیس بڑھائی گئی ہے۔ اپنی مالی بے بسی پر وہ بے حد پریشان تھا۔
ہمیں چونکہ شادی کی تقریب میں شرکت کی جلدی تھی، اس لیے ہم نے اسے ساتھ لیا ، اور روانہ ہو گئے۔ مگر میرا ذہن اُدھر ہی اٹکا رہا۔ مجھے اپنے دوست کے سکول کی چھوٹی چھوٹی کرسیوں کی مماثلت مقتدر طبقات کی کرسیوں سے صاف دکھائی دینے لگی۔ فرق اتنا ہے کہ اُس کے سکول میں کرسیوں کو سنڈیاں کھا رہی ہیں اورملک کو ’’کرسیوں‘‘ پر بیٹھے ہوئے ’’سُنڈے‘‘۔ ملک معاشی لحاظ سے بہت ہی خطرناک مقام پر کھڑا ہے، مہنگائی کی وجہ سے لاکھوں لوگ موذی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں، مگر کسی بھی ’’کرسی‘‘ پر بیٹھا ہوا کوئی بھی مقتدر فرد ایسا نہیں جس نے موجودہ حالات میں قربانی دینے کا اعلان کیا ہو۔ فوج اور عدلیہ کے بارے میں لکھنا کسی بھی خطرے سے خالی نہیں۔ بیوروکریسی بڑے دھڑلے سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ جن سیاستدانوں کو اقتدار کی راہداریوں میں آنے جانے کا موقع مل جاتا ہے، قوم اُن کی آنیا ں جانیاں ہی دیکھتی رہ جاتی ہے۔ وہ بھی معاملات کو درست راہ پر لانے کی بجائے جس بے دردی سے تنخواہیں، مراعات، کمیشن اور رشوت ستانی کا بازار گرم کئے بیٹھے ہیں، وہ بھی وسائل کے اجاڑے میں کسی دوسرے سے کم نہیں۔ کیا کسی سیاسی جماعت کے پاس ایسا لیڈر ہے، جس نے اختیارات کے ہوتے ہوئے ثابت کیا ہو کہ اس کے ہاتھ کرپشن کی غلاظت سے پاک ہیں؟ اُس نے قومی خزانے کو سنڈیوں کی طرح نہیں کھایا؟ اگر کوئی ہے تو آٹے میں نمک کے برابر۔ ورنہ پاکستان میں اشرافیہ کی اکثریت ہمارے دوست کے سکول کی کرسیوں کی سُنڈیوں سے کم نہیں۔ یہ کب ہو سکے گا کہ اِن بڑے ’’سُنڈوں‘‘ کے منہ میں مٹی کا تیل اور استعمال شدہ موبل آئل ڈال کر ملک بچا نے کی سعی کی جائے؟

جواب دیں

Back to top button